Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Aik Sarkari Mulazmat Ka Sawal He Baba

Aik Sarkari Mulazmat Ka Sawal He Baba

ایک سرکاری ملازمت کا سوال ہے بابا

آپ معاشی حالات اور سرکاری ملازمت کی چاہت کی پہلی مثال ملاحظہ کیجئے۔ 2021 میں ہائی کورٹ میں چپڑاسی کی ملازمت کے لیے 15 لاکھ لوگوں نے درخواست جمع کرائی، ان میں ماسٹرز اور ایم فل کیے ہوئے انتہائی پڑھے لکھے لوگ بھی شامل تھے۔ اسی طرح 2023 میں پنجاب پولیس میں کانسٹیبل کی 1600 ملازمتوں کے لیے تقریبا 32 ہزار پڑھے لکھے لوگوں نے اپلائی کیا اور ان کا ٹیسٹ اسپورٹس کمپلیکس اسلام آباد میں لیا گیا۔

پنجاب حکومت نے پنجاب پورٹل کے نام سے ملازمت کی ایک سروس شروع کی ہے جس سے 140 ڈیپارٹمنٹ منسلک ہیں، ان 140 مختلف محکموں میں ملازمت کے حصول کے لیے 10 لاکھ سے زیادہ افراد رجسٹر ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف سندھ پبلک سروس کمیشن کی اعلان کردہ کالج لیکچرر کی 1500 اسامیوں کے لیے تقریبا ایک لاکھ لوگوں نے درخواست آن لائن جمع کرائی۔ یہ مثالیں ایک طرف تو مقابلے کی فضا کی نشاندہی کر ر رہی ہیں تو دوسری طرف ایک المیہ کا پتہ دے رہی ہیں۔ ایک ایسا المیہ جو برسوں پہلے جنم لے چکا تھا اور یہ المیہ اب ایک عفریت بن چکا ہے۔

یہ عفریت ہے سرکاری نوکری کا حصول۔ ہمارے 24 فیصد پڑھے لکھے لوگ بیروزگار ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک کے حالت اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ ملازمت کا کال ہے یا اس کا حصول نا ممکن ہوگیا ہے۔ ملک میں ملازمتوں کا بوجھ 90 فیصد پرائیویٹ سیکٹر نے اٹھایا ہوا ہے۔ سرکاری محکموں میں ملازمین کی تعداد 32 لاکھ کے لگ بھگ ہے تو دوسری طرف ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر 67 ملین پاکستانیوں کو روزگار فراہم کر رہا ہے۔ اب المیہ در المیہ یہ ہے کہ بے روزگار حضرات اور پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت پیشہ افراد دونوں ہی سرکاری ملازمت چاہتے ہیں۔

آخر کیوں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں مگر ان میں سب سے نمایاں جاب سیکیورٹی کا سراب، پنشن کا لالچ اور نہ ختم ہونے والی مراعات اہم ہیں۔ جبکہ اچھی خاصی تعداد ایسے سرکاری ملازموں کی بھی ہے جو صرف حاضری سے کام چلاتے ہیں اور انہی اوقات میں نوکری کسی دوسری جگہ پر کرتے ہیں یا سرے سے ملازمت پر جاتے ہی نہیں۔

معاشرتی نظام ایک سائیکل کی طرح کام کرتا ہے اس میں ہر فرد ایک پرزہ ہوتا ہے، تمام پرزے مل کر ایک مشین چلاتے ہیں۔ اب ذرا سوچیں! گریجویشن اور ماسٹر کیے ہوئے خواتین و حضرات جب فقط پولیس کانسٹیبل کی وردی پہننے کی دوڑ میں شامل ہوں گے تو وہ حقیقی طور پر پولیس کانسٹیبل تو نہیں بننا چاہتے نہ ہی پولیس جیسا فرض شناسی کا کام سر انجام دینا چاہتے ہیں جس میں عوام کی خدمت اولین ترجیح ہوتی ہے بلکہ ان کا مقصد تو محض سرکاری ملازمت کا حصول ہے، ایک ایسی ملازمت جس میں رعب کے ساتھ مراعات اور الاؤنسز کا شربت بھی پینے کا موقع ملتا ہے اور جس کے انجام پر پینشن اور دیگر مراعات کسی خزانے کے خواب جیسی ہے۔

اب جب یہ اعلی تعلیم یافتہ افراد پولیس کانسٹیبل کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ تو انہیں پولیس کی تربیت حاصل کرنے سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی دل و جان سے نوکری کرنے میں۔ ایسے افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہوگی جو صحیح معنوں میں اس ملازمت کا حق ادا کر سکتے ہوں گے۔ دوسری طرف ہائی کورٹ کا چپڑاسی بننا، تعلقات کے ہمالیہ پر بیٹھنے جیسا ہے۔ فائل نیچے سے اوپر لانا، صاحب سے ملاقات کروانا، فون پر بات کرا دینا، غرض ہر کام کا ریٹ فکس ہے جیسے ہر ملازمت کا ریٹ فکس ہے۔

آزادی سے لے کر 1980 اور 90 کی دہائی تک ابھی ملک کی آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ نہ ہوا تھا نہ ہی ملازمت میں زیادہ مقابلے کی فضا تھی۔ اس کے نتیجے میں سرکاری ملازمت آسانی سے ہاتھ لگ جاتی تھی۔ اس دور میں لگے ہوئے سرکاری بابے اور ان کا طرز زندگی ہالی وڈ کے ہیرو مارلن برانڈو کی طرح نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بے ترتیب کرتا تھا تو ریٹائرڈ حضرات کا ٹھاٹ سے رہنا بھی لہو گرماتا تھا۔ اب اس دور کا نوجوان ایک ایسی خواب ناک زندگی کا متلاشی ہوگیا جس کا راستہ سرکاری ملازمت سے ہو کر گزرتا تھا اور اس کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کیا جانے لگا۔ سفارش کلچر عام ہوگیا، ٹرانسفر اور پروموشنز کی بولی لگنے لگی، اقربا پروری کی آکاس بیل خوب پھلنے پھولنے لگی۔

ایک ایسا ماحول بنایا گیا جس میں سرکاری ملازمت کو دکھوں کا مداوا، تمام مسائل کا حل، کامیابی کی کنجی اور بڑھاپے کا سہارا بنا کر پیش کیا گیا۔ حالانکہ اعداد و شمار کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر زیادہ اچھی تنخواہ اور مراعات پیش کر رہا ہے۔ وہاں کام کرنے والا آسانی سے ترقی کی منازل پھلانگتا چلا جاتا ہے۔ بس یہی وہ "کام" کا عنصر ہے جو پرائیویٹ سیکٹر اور سرکاری ملازمت میں دراڑ کی طرح فرق ڈالے کھڑا ہے۔ سرکاری ملازمت کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اس میں کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لی جاتی ہے، جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام نہ کرنے والا نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ معاشی معاملات چلانے کے لیے اور بھی کئی آپشن موجود ہیں جیسے کہ کوئی بھی ہنر سیکھ کر بغیر کسی کی نوکری کیے اچھی روزی روٹی کا بندوبست کیا جا سکتا ہے جسے آف لائن فری لانسنگ کہا جاتا ہے، جیسے پلمبر، کارپینٹر، الیکٹریشن، موچی، حجام، ڈرائیور وغیرہ باعزت طریقے سے ایک ہنر سیکھ کر آسانی سے پیسہ کما لیتے ہیں۔ دیگر آپشنز میں کوئی چھوٹا کم سرمائے سے شروع کیا جانے والا بزنس ہے۔

ایک مستند سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پان کا کھوکھا چلانے والا ایک فرد ماہانہ 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان کما لیتا ہے۔ یہ رقم پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ایک ایوریج مینیجر کی تنخواہ کے برابر ہے جسے نو سے چھ کے دائرے میں بھی گھومنا ہے اور جس کی گھریلو زندگی بھی نارمل سے آگے شاید ہی بڑھ سکے اور جس کا ویک اینڈ بھی ٹینشن فری نہیں ہوتا۔ ساری بات ملازمت کے باکس سے باہر سوچنے کی ہے جس باکس میں ہم نے اپنی سوچ کو قید کر لیا ہے کہ معاشی تنگی کا ایک واحد حل ملازمت ہے اور ملازمت بھی سرکاری ہونی چاہیے۔ بھلا کسی کو کیا خبر کہ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچے گا بھی یا نہیں اور جو پیسہ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو قسطوں میں ادا کیا جائے گا اس سے زیادہ کمانے کے مواقع اور توانائی تو آپ میں آج موجود ہے۔

سرکاری ملازمت یا کسی بھی ملازمت میں تنخواہ ایسا زہر ہے جو آہستہ آہستہ ہمارے خواب ہم سے چھین لیتا ہے۔ تھوڑی سی ہمت اور منصوبہ بندی آپ کے حالات جادوئی انداز میں بدل سکتے ہیں۔ ذرا تصور کریں اگر بل گیٹس یونیورسٹی سے ڈراپ آوٹ نہ ہوتا اور واقعی گریجویشن مکمل کر لیتا تو آج اس کی کہانی نہ سنائی جاتی۔ اس وقت دنیا کا امیر ترین شخص ایلون مسک جس کی دولت 222 ارب ڈالر ہے، یہ بھی اگر ملازمت کے حصول کی لائن میں لگا ہوتا تو اس کے پاس بھی سی وی کی بے شمار فوٹو کاپیاں ہوتی، لا تعداد انٹرویو کی لائنوں میں یہ لگا ہوتا، ہر دوسرے واٹس ایپ گروپ میں یہ نوکری کی درخواست کرتا اور اس کی بھی چپل گھس چکی ہوتی۔

اسی ایلن مسک نے کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ ہم ایک عجیب دنیا میں رہتے ہیں جہاں دوسروں کے لیے 50 سال تک کام کرنا ایک عام سی بات ہے مگر اپنے لیے ایک سال کام کرنا بھی رسکی کہلاتا ہے۔ اس بات کا ہم ایک مطلب یہ بھی نکال سکتے ہیں کہ جتنا بڑا رسک اتنا زیادہ رزق۔

Check Also

Maaf Kijye Ga Sab Acha To Nahi

By Haider Javed Syed