AI
اے آئی
ہم میں سے آدھے افراد کو اگلے پانچ سالوں میں دوبارہ مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی یا نئی مہارتیں سیکھنی ہوں گی کیونکہ وبائی امراض کے معاشی اثرات کی "دوہری رکاوٹ" اور بڑھتی ہوئی آٹومیشن (اے آئی) روایتی ملازمتیں اپنے اندر ضم کر رہی ہے یعنی اگر آپ اے آئی ٹولز سے آشنا ہیں تو آپ کی جاب برقرار رہ سکتی ہے بصورت دیگر آپ کمپنی پر بوجھ بن کر رہ جائیں گے جسے کسی بھی وقت اتار پھینکا جائیگا"۔
یہ ورلڈ اکنامک فورم کی فیوچر آف جابز رپورٹ کے تیسرے ایڈیشن کا ایک اقتباس ہے جو مستقبل کی ملازمتوں اور مہارتوں کا نقشہ بناتا ہے، تبدیلی کی رفتار اور سفر کی سمت کا پتہ لگاتا ہے۔ لیکن انتہائی تکنیکی رکاوٹ جو ملازمتوں کو تبدیل کر رہی ہے وہی رکاوٹ ایک موقع بھی رکھتی ہے۔ یعنی اے آئی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس۔ جس کا آج کل بہت چرچہ اور شہرہ ہے۔
آج آپ کوئی بھی نئی اسکل سیکھنے کی بات کریں، اے ائی اس کے ساتھ نتھی ضرور ہوگی۔ خواہ آپ کا تعلق فائنانس سے ہے مارکیٹنگ یا سیلز سے، آپ مینوفیکچرنگ کے شعبے سے ہیں یا خدمات کے، چاہے آپ ٹیکسی ڈرائیور ہی کیوں نہ ہوں یا ٹیچر۔ اے آئی آپ کے پیشے میں دخل انداز ہو چکی ہے۔
آسان لفظوں میں اگر اے ائی کو سمجھا جائے کہ اے آئی کیا کچھ کر سکتی ہے تو یوں سمجھ لیں کہ اے آئی ہر اس کام کو آٹومیشن میں لے جا سکتی ہے یعنی خود کار طریقے سے کر سکتی ہے جس میں ان پٹ A دے کر آوٹ پٹ B لی جائے۔ مثال کے طور پر چیٹ جی پی ٹی ایک اے آئی پروگرام ہے جسے ہم ان پٹ کے طور پر کچھ تحریر کرنے کو دیتے ہیں جیسے کوئی نظم لکھنا، مضمون تحریر میں لانا یا کسی بھی مشکل اصطلاح کی تعریف کرنا اور اے آئی اس کا جواب تلاش کرکے آوٹ پٹ کے طور پر ہمارے سامنے لکھنا شروع کر دیتا ہے (کیونکہ اس کے اندر بہت زیادہ ڈیٹا پہلے سے ڈال دیا گیا ہے)۔
اسی طرح اگر ایک اے آئی پروگرام میں ایسے موبائل کی تصاویر ڈال دی جائیں جس کے کور پر سکریچ ہوں اور آوٹ پٹ کے طور پر "نقائص والے موبائل" فوری درکار ہوں تو اے آئی یہ کام باآسانی سر انجام دے سکتی ہے۔ دوسری اہم چیز جو اے ائی کو درکار ہے وہ بہت زیادہ ڈیٹا ہے جسے آج کل بگ ڈیٹا کا نام دیا جاتا ہے۔ یاد رہے اے آئی مستقبل کی پیشنگوئی نہیں کر سکتی۔ اسی طرح ایک انسان کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار لانا بھی اے آئی کی پہنچ سے اب تک کوسوں دور ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے اندازے کے مطابق 2025 تک انسانوں اور مشینوں کی تقسیم میں تبدیلی سے ساڑھے آٹھ کروڑ ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ نئی ملازمتیں تقریبا نو کروڑ 70 لاکھ پیدا ہو سکتی ہیں اور اس کے پیچھے یقینا اے ائی کے الگورتھم کا ہاتھ ہے۔
پاکستان دنیا کے ان خوش نصیب ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے جس کی تقریبا 63 فیصد آبادی جوانوں پر مشتمل ہے مگر بد نصیبی ہے کہ اس 63 فیصد میں سے آدھی آبادی بے روزگار ہے۔ بہت ساری وجوہات میں سے بنیادی وجہ تعلیم اور ہنر کی کمی ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا مطلب صرف کاغذ اس کا ایسا ٹکڑا حاصل کرنا ہے جسے ملازمت اور کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ دیگر اہم وجوہات میں سیاسی اور معاشرتی مسائل ہیں، 75 سال بعد بھی بنیادی سہولیات سے محرومیت۔
انفراسٹرکچر کی کمی جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ دار یہاں آنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ابھی حال ہی میں دبئی لیکس کے ذریعے پتہ چلا کہ دبئی میں پاکستانیوں نے 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جب کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے محض سات ارب ڈالر دینے ہیں۔ یہاں یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ 12 بلین ڈالر سرمایہ کاری کرنے والے کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اب تو ان کے نام اور خاندان کی معلومات تک شائع ہو چکی ہیں۔
بھلا اے آئی کے ہوتے ہوئے کوئی کیوں کر بیروزگار رہ سکتا ہے۔ آج کا انسان تو گھر بیٹھے جو سکل سیکھنا چاہے آرام سے چائے کافی انجوائے کرتا ہوا سیکھ سکتا ہے، اس اے آئی نے تو 9 ٹو 5 کی ملازمت کی متھ بھی توڑ کر پاش پاش کر دی ہے۔ آپ کا گھر، آپ کا ڈرائنگ روم ہی آپ کا آفس ہے، جہاں سے چاہیں بیٹھ کے کام کریں آپ کا کوئی باس نہیں۔
پاکستان فری لانسنگ میں دنیا میں ٹاپ 5 میں شامل ہے، ہمارے جوان جو بظاہر ویلے ہیں، موبائل سے ہی روزگار کما رہے ہیں۔ بس ایک سکل سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسی کم سے کم دس سکلز کی فہرست مرتب کرلیں جو آج کی ضرورت ہیں، ان میں سے کم از کم ایک یا دو سیکھ لیں اور دنیا آپ کے ہاتھ میں آپ کو ایک ولیج دکھائی دے گی۔