Insan Aql e Kun Nahi, Kainaat Heran Kun Hai
انسان عقلِ کُن نہیں، کائنات حیران کُن ہے
یہ خیال کس قدر حیرت زدہ ہے کہ کچھ معدوم ٹھہرائے یا ابھی تک غیر دریافت شدہ جانور، پرندے اور کیڑوں کی نوع کو بقاء کے لیے ارتقاء نے انہیں فرار کا ایسا رستہ دیا کہ وہ اسی سیارے پر کسی ایسی جگہ قیام پذیر ہیں جو انسان کی دسترس اور شعور سے دور ہے۔ ممکنات کا دائرہ وسیع کرتے ہیں، ہو سکتا ہے ڈائنوسار مسکن، ساخت اور آب و ہوا بدل کر انجان زمینی یا آبی تہہ میں جی رہے ہوں جہاں انسانی دریافت نہ پہنچی ہو۔
ہو سکتا ہے کچھ قدیم پھل دار، پھول دار اور خوشبو دار پودوں اور درختوں کے پھول، پھل اور خوشبو ایمازون کے جنگل میں یا افریقہ کے کسی صحرا کے بیچ محدود سے نخلستان میں ابھی بھی ہو اور انسان ایسے پودوں اور درختوں کو بہت پہلے ناپید قرار دے چکا ہو یا ان تک کبھی پہنچا ہی نہ ہو۔
ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا اور بہت کچھ ہوتا بھی ہے، راہ سے بھٹکے مسافروں کو، بیک پیکرز کو، یا ان قدیم ناپید چیزوں کی کھوج میں لگے متلاشیوں کا پیر کسی ایسی کنواری سطح کو چھوتا ہے جو اس سے پہلے انسانی لمس سے ماورا تھی، کوئی ایسی شاخ، پھول اور پھل سے تعارف ہو جاتا ہے جو اس سے پہلے عام نہیں تھے۔ کوئی ایسا جانور، حشرات یا پرندہ خاموشی سے زندگی میں مشغول مل جاتا ہے جو بہت پہلے جانوروں کے ایکو سسٹم سے فرار ہو کر غائب ہوگیا تھا۔
ممکنات کی ششدر واردات یہ ہے کہ سومالیہ کے یخ بستہ میدانوں میں اٹھتیس میٹر گہرائی سے بتیس ہزار سال پرانے پھول کی ایک قسم کے بیج دریافت ہوئے جنہیں ٹشو کلچر سے ری جنریٹ کیا گیا، دوبارہ اگایا گیا اور یوں بتیس ہزار سال پرانے پھول نے زمین سے سر نکال کے حیرت زدہ ہو کر نئی آب و ہوا اور ایکو سسٹم کو دیکھا۔
معدوم ہو چکے جانوروں کی حادثاتی جھلک بہت سے کیمروں نے محفوظ کی۔ گمان یہی کیا گیا کہ معدوم قرار دیے گئے جانوروں کی حفاظت کا ذمہ قدرت نے خاص اپنے پاس رکھا، انہیں کسی ایسی جگہ پہ زندگی بخشی جو ان کی بقاء کے لیے موزوں ٹھہری اور جس کا انسانوں کو شعور نہیں۔
ہمارا دنیا کے بارے علم نہایت محدود ہے۔ کئی مخلوقات دریافت سے اوجھل ہیں، کئی علاقے انسانوں کی موجودگی سے پاک ہیں، کئی سمندر کی تہہ لاکھوں انجان مخلوقات کو کئی صدیوں سے چھپائے زندگی بخش رہی ہے، ہم جتنا جان جاتے ہیں دنیا اتنی ہی وسیع ہوتی چلی جاتی ہے، کائنات کے پھیلاؤ سے شاید یہی مراد ہے۔ انسان کا ترتیب دیا اور عام رائج دنیا کا نقشہ کیا واقعی پوری دنیا کا نقشہ ہے یا محض ان حصوں کا نقشہ ہے جن تک انسان تاحال پہنچ سکا تو یہ پھر حتمی "ورلڈ" میپ تو نہ ہوا، یہ تو جگہ جگہ ممکنات سے بھرا ہوا ہے، کون جانے کہاں کہاں زندگی سے بھرے درجنوں علاقے آنکھ سے اوجھل ہوں اور نقشے کی لکیروں میں ان کا ذکر نہ ہو۔
پیریوڈک ٹیبل میں خالی جگہ ہے کہ نئے دریافت شدہ ایلیمنٹ کو رکھا جائے تو انسان غیر دریافت شدہ علاقوں اور نوع کا شعور رکھتا ہے اسی لیے ممکنات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا رہا ہے، شعور بذات خود حتمی نہیں سوچنے کا کوئی زاویہ اور اس سے اخذ شدہ کوئی بھی نتیجہ حتمی نہیں ہم نہیں جانتے کونسا فیکٹ اگلی کسی صدی میں رد ہو جائے ہم فیکٹ اس لیے قبول کرتے ہیں کہ تاحال ہمارے پاس اس سے بڑھ کر کوئی بہتر تشریح نہیں ورنہ حتمی اور فیصلہ کن شے دنیا میں شاید ہی کوئی وجود رکھتی ہو۔
انسان عقلِ کُن نہیں، کائنات حیران کُن ہے۔