Koi Tumhe Bachane Nahi Araha, Khud Ko Bachao
کوئی تمہیں بچانے نہیں آ رہا، خود کو بچاؤ
ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی، اور سماجی تقسیم کے مسائل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اکثر ہمیں یہ امید ہوتی ہے کہ کوئی بیرونی طاقت، ادارہ یا ملک آ کر ہمارے مسائل کو حل کر دے گا۔ مگر تاریخ اور حالات ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ "کوئی تمہیں بچانے نہیں آ رہا، خود کو بچاؤ"۔
پاکستان اس وقت سیاسی اور اقتصادی طور پر ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ معیشت کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے، بے روزگاری اور مہنگائی اپنے عروج پر ہیں، اور امن و امان کی صورتحال بھی دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ عوام میں بے چینی اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عدم استحکام ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ ہر چند سالوں بعد حکومتوں کا گرنا اور نئی حکومتوں کا قیام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں گہری خرابی موجود ہے۔ سیاسی جماعتیں اور رہنما اپنے ذاتی مفادات کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔ عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے سیاسی رہنما اپنے اقتدار کو محفوظ بنانے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے میں عوام کی امیدیں ہر گزرتے دن کے ساتھ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
قرضوں کا بوجھ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور ہماری پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے۔ برآمدات کم اور درآمدات بڑھ رہی ہیں، جس سے ہمارا تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ معاشی پالیسیوں میں تسلسل کی کمی اور بدعنوانی کی جڑیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ ترقی کا کوئی واضح راستہ نظر نہیں آتا۔
پاکستان میں سماجی سطح پر بھی گہری تقسیم موجود ہے۔ مذہب، فرقہ، زبان اور علاقہ کی بنیاد پر عوام کو بانٹنے کا عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس تقسیم کی وجہ سے ایک متحد قوم بننے کا خواب دور ہوتا جا رہا ہے۔ قوم میں عدم برداشت اور نفرت کے جذبات بڑھتے جا رہے ہیں، جو ہمیں ایک مضبوط اور متحد قوم بننے سے روک رہے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم بحیثیت قوم اپنی حالت بدلنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ "کوئی تمہیں بچانے نہیں آ رہا، خود کو بچاؤ"؟
سب سے پہلے ہمیں بحیثیت قوم اپنی ناکامیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری موجودہ حالت کا ذمہ دار کوئی اور نہیں، بلکہ ہم خود ہیں۔ جب تک ہم اپنی ناکامیوں کا اعتراف نہیں کریں گے، ہم آگے بڑھنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
قوم کی ترقی کا دارومدار تعلیم اور شعور پر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی نسل کو معیاری تعلیم فراہم کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو ہمیں غربت، جہالت اور بدعنوانی سے نجات دلا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی تعلیم کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا تاکہ ہماری نسلیں عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں۔
پاکستان میں آج کل نوجوانوں کی تعداد آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے، جو 2024 کے مطابق تقریباً 60% ہے۔ یہ نوجوان ہمارے ملک کا مستقبل ہیں اور انہیں اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کی ترقی اور کامیابی کے لیے انہیں اپنی تعلیم، کاروباری سرگرمیوں، اور ذاتی ترقی پر توجہ دینی ہوگی۔
ہمارا نوجوان طبقہ اکثر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہتا ہے اور امید کرتا ہے کہ انہیں حکومت، والدین یا دیگر اداروں کی جانب سے حمایت ملے گی۔ اس سوچ کے تحت، ہم اکثر دوسروں کے لیم excuses کو اپنی ناکامیوں کا جواز بنا لیتے ہیں، جیسے کہ والدین یا حکومت کی عدم توجہ۔ مگر عالمی سطح پر نوجوان اپنی محنت اور جدوجہد سے نئی راہیں کھول رہے ہیں، اسٹارٹ اپس شروع کر رہے ہیں، ٹریڈنگ میں مشغول ہیں، اور مختلف مہارتیں سیکھ کر اپنی ذاتی ترقی کے ذریعے معاشرتی ترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہمیں اس منفی سوچ کو ختم کرنا ہوگا اور خود کو ثابت قدم اور فعال بنانا ہوگا۔ ہمیں خود سے توقع رکھنی ہوگی کہ ہم بڑے منصوبے، جدید ٹیکنالوجیز، اور اختراعات کی طرف قدم بڑھائیں اور کھیلوں اور دیگر میدانوں میں بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں۔
جو نوجوان کامیاب ہوتے ہیں، انہیں اپنی کامیابی کا کچھ حصہ دوسروں کو واپس کرنا چاہیے۔ مقامی کمپنیاں، کھیلوں میں نوجوانوں کی معاونت، برانڈنگ کے نام پر طلباء کو انٹرن شپ فراہم کرنا، اور سوشل ورک کے طور پر ہنر مند افراد کے لیے مواقع فراہم کرنا، کامیاب افراد کی ذمہ داری ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف معاشرتی ترقی میں کردار ادا کریں گے بلکہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور معاشرتی یکجہتی کو بھی فروغ دیں گے۔
پہلا قدم معیاری تعلیم کی طرف ہے۔ نوجوانوں کو جدید دور کی ضروریات کے مطابق تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ تعلیمی نصاب کو جدید معیار پر ڈھالنا، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی، اور معیار تعلیم کو بہتر بنانا ضروری ہے تاکہ نوجوان عالمی سطح پر مسابقت کے قابل ہو سکیں۔
کاروباری سرگرمیوں کی طرف بھی نوجوانوں کو خود توجہ دینی ہوگی۔ اسٹارٹ اپس اور کاروباری مواقع کی تلاش کے بجائے، انہیں خود ہی نئے کاروباری منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، مارکیٹ کی ضرورتوں، اور نئے کاروباری ماڈلز کو مدنظر رکھتے ہوئے کاروباری سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نوجوانوں کو اپنی ذاتی ترقی پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ اپنی مہارتوں اور صلاحیتوں کو ترقی دینے کے لیے جدید ہنر سیکھنا اور ان کا بہتر استعمال کرنا ضروری ہے۔ خود کو مختلف مواقع سے آگاہ کرنا، نئی اسٹریٹجیز تیار کرنا، اور اپنے امکانات کو بڑھانا نوجوانوں کے کامیاب مستقبل کی بنیاد ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کوئی دوسرا ہماری ترقی کے لیے ہماری مدد نہیں کرے گا۔ ہمیں خود پر اعتماد کرنا ہوگا اور اپنی ترقی کے لیے خود ہی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہمیں دوسروں کی مدد کی امید چھوڑ کر اپنے آپ پر توجہ دینی ہوگی اور خود کو معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ دنیا بھر کے نوجوانوں کی طرح ہمیں بھی نئے ماڈلز، بڑی کمپنیوں، ٹیکنالوجیز، اور اختراعات میں خود کو شامل کرنا ہوگا۔ کھیلوں اور دیگر شعبوں میں بھی ہمیں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔
ایک اور اہم عنصر جو پاکستان کے نظام کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے ضروری ہے، وہ ہے ایک طاقتور اور مستحکم ادارہ۔ ہمارے ملک میں طاقتور ادارے، جن میں فوج، عدلیہ اور سول بیوروکریسی شامل ہیں، کا کردار اہم ہے۔ ان اداروں کی مضبوطی اور استقلال پاکستان کے نظام کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ ادارے اگر اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو موثر انداز میں ادا کریں، تو ملک میں استحکام اور ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے حالات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم خود اپنی تقدیر کے مالک ہیں۔ "کوئی تمہیں بچانے نہیں آ رہا، خود کو بچاؤ" یہ الفاظ ہمیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ہماری ترقی اور خوشحالی کا دارومدار صرف اور صرف ہماری اپنی کوششوں پر ہے۔ ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی بیرونی مدد کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ خود آگے بڑھ کر اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگر ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بہتر بنانے کے لیے کوشش کریں گے تو یقیناً ہم پاکستان کو ایک مضبوط، خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بنا سکیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اپنے ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کریں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم آج خود کو نہیں بچائیں گے تو کل ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔