1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Sada Ba Sehra (1)

Sada Ba Sehra (1)

صدا بہ صحرا(1)

میں بہت انٹروورٹ(introvert) ہوں دوست نہیں بنا پاتی۔ کیا کوئی یقین کر سکتا ہے، کہ اتنی طویل عمر میں میری دوستیں چھنگلی کی پوروں سے بھی کم ہیں ۔ میرا ذہن پورا پیراگراف بولتا ہے، اور منہ سے بمشکل ایک ٹھٹھرا بسہ ہوا جملہ ادا ہوتا ہے۔ بینک میں میری علیک سلیک ڈپارٹمنٹ میں سبھی سے تھی ،کھانا بھی کینٹین میں ہم آٹھ خواتین ساتھ ہی کھاتی تھیں ،مگر "دوست" جس سے فریکوئنسی میچ کرتی ہو، جس سے دل کی کہی جاتی ہو ایسی کوئی نہ تھی۔

میں مسرت عثمانی، میں نے معاشیات میں کراچی یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کی تھی ،اور مقامی بینک سے ابھی حال ہی میں ریٹائر ہوئی ہوں ۔اتنی مصروفیت کے بعد ایک دم سے اتنا بڑا،بے مصرف اور ڈھنڈر دن گزارنا بہت مشکل تھا ،وقت کاٹے کٹتا نہ تھا۔بہو کو کچن میں میری مداخلت پسند نہ تھی،کچن تو خیر کیا! اسے گھر میں کہیں بھی میری دخل اندازی گراں تھی۔ ظاہر ہے اپنے راج سنگھاسن میں کس کو ساجھےداری بھاتی ہے۔ میں بھی اپنی حدود میں رہتی اور بہت ہی کم دخل در معقولات کرتی۔

مجھے جوانی میں بھی کچن سے کوئی ایسا شغف یا انس نہ تھا ،بس مجبوری کا نام شکریہ۔ دراصل ہم دو ہی بھائی بہن تھے اور میں پڑھنے کی شوقین بھی تھی، سو امی نے بہت لاڈ سے پالا اور پڑھائی پر ہی فوکس رکھنے کی تاکید کی۔ گھرداری آتی ضرور تھی اور احسن طریقے سے نبھائی بھی، مگر ڈیوٹی سمجھ کر ،شوق اور لگن کے ساتھ نہیں ۔ماسٹر کرتے ہی شادی ہو گئی۔ میاں بھی بینکر تھے، مگر مزاجاََ دو جمع دو پانچ ۔ پیسے کو دانتوں سے پکڑنے اور دھنیا پودینہ کا حساب رکھنے والے۔ وہ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ میری تنخواہ کا بھی پورا پورا حساب رکھا کرتے تھے۔

ہمارا جوائنٹ اکاؤنٹ تھا۔ میری ذمہ داری بس اکاؤنٹ میں پیسہ ڈالنے کی حد تک تھی ،اور اکاؤنٹ پر دسترس میاں سرکار کی۔ میں تو اپنی تنخواہ بھی اپنی ذات پر خرچ کرنے کی مجاز نہ تھی۔میں بینک اور گھر دونوں جگہ بیلنس شیٹ کو بیلنس کرتے کرتے، ڈِس بیلنس ہو گئی۔ شاید ہم دونوں ہی میں برداشت کا بھی فقدان تھا۔ ہم نے زندگی کی گاڑی کو باوجود غیر متوازن پہیوں کے کھنچنے کی کوشش تو بہت کی، مگر جلد ہی دم ہار گئے ،سو یہ حسابی کتابی سفر اختتام پذیرہوا۔

بیٹے کی خاطر میں نے حق مہر معاف کر کے پلَے ّسے دو لاکھ مزید دئیے، اور بدلے میں اپنے بیٹے جبران کی فُل کسٹڈی لے لی۔ میاں سرکار کے بھی مانو "بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا"۔ انہوں نے دوبارہ چھیل چھبیلے بن کر ،زیرو میٹر سے نئے ہمسفر کے ساتھ زندگی شروع کر دی۔ مرد یادداشت کے معاملے میں کمال ہوتا ہے ،کبھی بھی ماضی کا بیگج یاد ،اور ساتھ نہیں رکھتا۔رہا میرا معاملہ تو "دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے"کہ مصداق اس دشت کی سیاحی(شادی) سے ہی توبہ کر لی۔

ہمارا معاشرہ بھی خوب ہے وہ بیوہ پر تو پھر بھی ترس کھا لیتا ہے، لیکن طلاق یافتہ کے لیے کوئی سافٹ کارنر نہیں رکھتا ۔ کوئی بھی ،کہیں بھی، آپ سے آپ کا کیریکٹر سرٹیفکیٹ مانگ سکتا ہے، بلکہ آپ کے کلین شیٹ ہونے پر بھی عموماً لوگ آپ کے خلاف ایک خفیہ گمانِ بد ضرور رکھتے ہیں، اور آپ سے دل لگی تو گویا ان کا حق ہی ٹھہرا۔جب تک ماں باپ حیات رہے، زندگی گوارا تھی۔ امی نے طویل زندگی اور تنہائی کے مضمرات سے ڈرایا بھی اور بہت سمجھایا بھی ،مگر اس وقت میں اپنی ساری توانائی اور صلاحیت جبران کو پالنے پوسنے پر خرچ کر رہی تھی، اس لیے ان کی نصیحت پر کان ہی نہیں دھرا۔ ماضی کا تجربہ بھی کچھ اتنا تلخ تھا کہ گویا

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے

ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

اس وقت سوچا ہی نہیں تھا کہ تنہائی ڈس بھی سکتی ہے۔جبران ہی میری کل کائنات تھا اور ذہن میں یہی رہا ،کہ جب سگے باپ نے نہیں پوچھا تو سوتیلے باپ سے کیا امید۔ میں نےاپنا تن، من اور دھن سب جبران پر نچھاور کر دیا۔میری دنیا بیٹے سے شروع ہو کر، بیٹے پر ختم تھی۔ بیٹے کو پڑھایا، لکھایا اور اس کی پسند کو خوش دلی سے بہو بنا کر، گھر اس کے حوالے کر دیا۔ میری بے رنگ زندگی وقت کی پرپیچ گھاٹی سے گذرتی رہی۔ اب بیٹے کی ترجیحات بدل چکیں تھیں، اس کے اپنے دو بیٹے تھے اور میں اس سیٹ اپ میں، مس فِٹ سی،فِٹ تھی۔

جب تک بینک کا شُغل تھا ،زندگی لگے بندھے شیڈول پر چلتی رہی۔ ساری خرابی اس ناہنجار ریٹائرمنٹ نے پیدا کی۔ اسمارٹ فون نے جہاں بہت آسانیاں فراہم کیں ہیں، وہیں کچھ چور دروازے بھی کھول دیے ہیں ۔ اب وقت گزارنا درد سری نہیں، بلکہ مثبت طریقے سے وقت کی تقسیم ایک مشکل امر ٹھہرا۔ فون کے ساتھ یاری اور وقت گزاری، بینک کے دنوں میں بھی تھی ،پر کم کم۔ اب جو فرصت کا دورانیہ طویل تر ہوا تومانو ،فون ہمزاد ہوا۔

کافی لوگ ایڈ اور ڈیلیٹ ہوئے، اور ایک دوسرے کی پوسٹ پر ہوتے تبصرے اور تزکرے سے ہوتے ہوتے ایک صاحب "دبیر الحسن" میری سوچ سے نسبتاً قریب ہوئے ،کہ ان کے کمنٹس علمی ہونے کے ساتھ ساتھ مزاح کی چاشنی بھی رکھتے تھے۔ ہم دونوں کب پوسٹ پر کمنٹ سے روزمرہ کی بول چال میں داخل ہوئے، احساس ہی نہیں ہوا، اور گفتگو کا دورانیہ بھی بڑھتا چلا گیا۔دبیر الحسن محکمہ تعلیم سے ریٹائر ہوئے تھے اور اپنی بیگم کے، والا و شیدا تھے۔ ان کی بیگم ندرت جہاں بھی کھلکھلاتی ہوئی زندگی سے بھرپور پارے کی مانند متحرک تھیں، پر موت سے کس کو رستگاہی ہے۔

اس چہچہاتی مینا کو پندرہ سال پہلے موت نے اسیر و ساکت کیا۔ موت بھی کب بخشتی ہے ،وہ تو بس ہڑپتی ہے۔ان کے دو ہی بچے ہیں ،بڑا بیٹا حماد جو میجر ہے، اور آج کل لاہور میں پوسٹیڈ ہے۔ چھ سال پہلے بیٹی رحمہ کی ذمہ داری سے فارغ ہوئے تھے ،اور داماد آج کل ملتان میں ڈیوٹی نبھا رہے ہیں ۔دبیر الحسن تنہائی کا شکار ،اپنی بیٹی رحمہ کی شادی کے بعد ہوئے، اور مداوا ٹھہرا انٹرنیٹ۔ چونکہ شعبہ تعلیم سے منسلک رہے تھے، لہٰذا نستعلیق تو تھے ہی ،ساتھ ساتھ لکھنے لکھانے کا شوق اور ذوق بھی رکھتے تھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا کی جانی مانی شخصیت بن گئے۔ ان کے مضامین اور آرٹیکل واقعی سوچ کے در وا کرتے ،اور عام چیزوں کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی بصیرت بھی عطا کرتے تھے ۔پرسو شام کی چائے پر، مجھے جبران نے اپنی ترقی کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ اسلام آباد تبادلے کا بھی بتایا، اور یہ بھی کہ اب ہم سب کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہو جائیں گے۔ بیٹے کی ترقی کی خوشخبری کے بعد دوسرا خیال جو میرے ذہن میں آیا، وہ یہ تھا کہ"ارے! دبیر بھی تو اسلام آباد میں رہتے ہیں "اور میں اس خیال کے آتے ہی سُن ہو گئی۔یہ خیال کیوں آیا مجھے؟اس دن جو خود کو ٹٹولا تو بھید کھُلا ،کہ جس تعلق کو میں اتنا سادہ اور سرسری سمجھ رہی تھی، وہ اس قدر سرسری تھا نہیں ۔ میں اپنے دل کی کیفیت پر دھک رہ گئی!

Check Also

Muhabbat Se Kab Tak Bhago Ge?

By Qurratulain Shoaib