Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Ruka Hua Faisla (2)

Ruka Hua Faisla (2)

رکا ہوا فیصلہ (2)

میری فیس اور پڑھائی کے دیگر اخراجات اس کی زمہ داری تھے۔ میرے اس فرشتے کا نام پیٹر ونر تھا۔ کامل دو سال اس نے میرا خرچ اٹھایا پھر اسکالرشپ نے میری راہ کے کانٹے چنے مگر بدقسمتی دیکھیے میری کامیابی کا جشن منانے نہ اماں رہیں اور نہ ہی پیڑ ونر۔ ایک کو دق اور دوسرے کو لنگ کینسر نے اچک لیا۔ یونیورسٹی میں میری ملاقات خلیل رحمان سے ہوئی اور اس نے اپنی پلکوں سے میرے سارے درد چن لیے۔ جانے وہ مجھے کن نظروں سے دیکھتا کہ اسے میرے عیب بھی ہنر اور میرا مختصر و کم رو وجود بھی اپسرا دکھتا۔

بلاشبہ یہ کمال و جادوگری صرف محبت ہی کا اعجاز ہے۔ میں نے اتنی تلخ اور بدصورت زندگی گزاری تھی کہ کمسنی ہی میں مجھے ادراک ہوگیا تھا حسن اور میرا کوئی تال میل نہیں۔ ویسے بھی جھلستی دھوپ، سوکھی روٹی اور پنتا بھات، روپ سروپ کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتا۔ میرا سارا حسن اور کوملتا میری انگلیوں کی پوروں میں سرایت کر گیا تھا۔ یہ تو بس محبت ہی کا فیضان ہے کہ وہ انسان کو دل کی آنکھ سے جانچتی اور آنکتی ہے۔

خلیل کا کوئی ایسا قریبی رشتے دار تھا نہیں اور ماں باپ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں پاکستان آرمی کے ہاتھوں کھیت رہے تھے۔ سو باقی رہے نام اللہ کا۔ دو تنہا الم زدوں نے مل کر اک نئی دنیا بسا لی۔ اس پرائی دنیا میں ثریا خالہ ہی میری واحد ہوتی سوتی تھیں سو انہوں نے میرا نکاح خلیل سے پڑھوا دیا اور میں جینوا کیمپ کی آٹھ بائی آٹھ کی کھولی سے اٹھ کر عظیم پور کے دو کمروں کے فلیٹ میں آ گئی۔

ہماری زندگی بہت اچھی تھی، کسی مست خرام ندی کی طرح شیتل اور رواں۔ خلیل لیکھک اور میں مصورہ۔ خلیل افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ صداکار بھی تھے۔ شادی کے دوسرے سال آنیشا میری گود میں اور پانچویں سال آروی، بہن کی تنہائی دور کرنے آ گئی۔ میں بہت خوش تھی کہ دونوں بچیاں اپنے باپ کا مکمل عکس تھیں۔ خلیل ہی کی طرح سحر طراز آنکھیں اور موہنے نقوش۔ میرے سر پر سکھ کی چھپر چھایا صرف چھ سال کی کہانی تھی کہ آروی کی پہلی سالگرہ کا کیک لینے گئے خلیل کو اجل نے گھر لوٹنے ہی نہیں دیا۔

بس پھر میں تھی اور میری مشقت بھری ابھاگن زندگی۔ آنیشا اور آروی کو پالنے اور انہیں زندگی کی تپش سے بچانے میں ایسی منہمک ہوئی کہ کیسے کب کپاس ہوئے پتہ ہی نہیں چلا۔ ہسپتال میں جس دن اپنی پہلی نواسی کو گود لیا تو دل نے اطمینان محسوس کیا اور ساتھ ہی اپنے فرائض کی خوش اسلوبی سے بجا آوری پر احساسِ تشکر بھی۔ میرا سفر آسان تو بالکل نہ تھا مگر صد شکر کہ اس سفر میں بے سائبانی اور بھوک شریک نہیں تھی۔

میری بچیوں کا بچپن میرے بچپن جیسا سہما، ترسا اور بلکتا ہوا نہیں تھا۔ باپ کا تو خیر کوئی نعم البدل نہیں ورنہ انہیں دنیاوی کوئی تکلیف نہ تھی۔ میں گھر اور اسٹوڈیو تک ہی محدود تھی اور میرا سوشل سرکل برائے نام تھا۔ اکلاپا سہارنا آسان نہیں ہوتا، وہ بھی اس کے لیے جس کے پاس رونے کو کوئی کندھا بھی نہ ہو۔ میں نے دل میں قفل لگا کر خود کو ربوٹ بنا لیا۔ آنیشا اور آروی کی شادیوں کے بعد میری تنہائی بے پایاں تھی کہ خالی گھر مجھے کاٹنے لگا تھا۔

اس اکلاپے سے فرار کے لیے میں گھر پر بھی آرٹ کلاسز دینے لگی مگر تنہائی تھی کہ دم گھونٹے دیتی تھی۔ بچیاں اپنی اپنی دنیاؤں میں مصروف و مگن تھیں۔ کبھی کبھار ادھر کا چکر لگا لیتی یا پھر جب بےبی سٹر کے طور پر انہیں ماں کی ضرورت ہوتی۔ میں سوچتی تھی کہ اب تو کہانی ختم ہونے والی ہے، میرا آبلہ پائی کا سفر اختتام پذیر ہے۔ اب کیا تردو! بس جو دو چار گنتی کے سال بچے ہیں وہ نواسے نواسی کے ساتھ کھیلتے گزر جائیں گے پر سوچا چاہا کب ہوتا ہے؟

مجھے کووڈ ہوا اور اس نے واقعی مجھے توڑ دیا۔ تنہا مرنے اور دو گھونٹ پانی کو ترسنے کا خوف میری رگ رگ میں سما گیا تھا۔ میں ایک ہفتے تک آروی کی بات پر جھلستی، کڑھتی رہی اور آج، سالوں پہلے سلمیٰ کی کہی گئی بات کی بازگشت میرے کان پھاڑ رہی ہے۔ چار سال پہلے، جب سلمیٰ، میری عزیز ترین سہیلی نے آروی کی شادی کی دعوت اپنے گھر رکھی تھی، یہ اسی رات کا قصہ ہے۔

اس رات میں سلمیٰ کی مدد کے غرض سے اسی کے گھر رک گئی تھی۔ کام سمیٹنے کے بعد رات گئے تک ہم دونوں سہیلیاں ٹیرس پر پورے چاند کی ملکوتی چاندنی اور رات کی رانی کی مست مدھر خوشبو سے محفوظ ہوتے ہوئے دنیا جہاں کی باتیں کرتے رہے تھے۔ اس رات سلمیٰ نے مجھ سے کہا تھا کہ اب اپنے بارے میں بھی سوچو۔ تم نے دونوں بچیوں کو ان کی منزلوں پر پہنچا دیا ہے بہت بڑا کام ہوگیا۔ جانے اب تمہارا اور کتنا سفر باقی ہے؟ سو بہتر ہے تم کسی کا سہارا لے لو۔

کیا؟

میں حیران رہ گئ۔

کیا کہہ رہی ہو سلمیٰ؟

پھر مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی۔

تمہارا بھی جواب نہیں سلمیٰ گویا بوڑھے منہ مہاسے۔ بالکل ہی پگلا گئی ہو کیا؟

میں نے بمشکل ہنسی روک کر کہا۔

ابھی میری بات تمہیں مذاق لگ رہی ہے مگر جب رات کی تنہائی میں خالی دیواروں پر بھوت ناچے گے نا، تب پتہ چلے گا۔ میرا دیور شمس الحسن تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھ سے پہلے بھی ذکر کیا تھا مگر میں جانتی تھی کہ تم بہت پروٹیکٹیو ماں ہو اور بچیوں کی موجودگی میں کبھی بھی شادی نہیں کرو گی۔ اسی لیے میں نے تم سے ذکر بھی نہیں کیا تھا مگر اب آنیشا اور آروی دونوں اپنے اپنے گھروں کی ہوئیں اور تم پر کوئی ذمہ داری نہیں تو تم اب تو کم از کم اپنے لیے جی لو۔

سلمیٰ نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا۔

ارے چھوڑ سلمیٰ! اب بھلا وقت ہی کتنا بچا ہے۔

میں نے گویا کانوں پر سے مکھی اڑائی۔

کیوں کیا تم اللہ میاں کے یہاں سے نصیب کا رجسٹر دیکھ کر آئی ہو؟

سلمیٰ نے چڑ کر پوچھا۔

میں ہنستی رہی اور بات بدل دی۔

اکثر سلمیٰ کی آنکھوں میں سوال جھلکتا اور میں نظریں چرا جاتی۔

خاموش اور منکسرالمزاج شمس الحسن میں واقعی کوئی برائی نہ تھی بس میرا یہ خوف کہ دنیا کیا کہے گی؟ پیشِ نظر رہا۔ یہ خیال بھی مدنظر تھا کہ میرا یہ قدم کہیں بچیوں کے سسرال میں ان کے لیے مشکلات نہ کھڑی کر دے۔ آج آروی کے تیکھے، تلخ لہجے نے مجھے چونکا دیا۔ کیا ساری زندگی کی پارسائی کسی گنتی میں نہیں آتی؟ تنہا عورت ہمیشہ کٹہرے میں کیوں کھڑی رہے؟

۔۔

ہیلو سلمیٰ! اگر شمس الحسن اب بھی اپنی بات پر قائم ہیں تو ان سے کہنا کل نمازِ عصر کے بعد بیت المکرم مسجد میں

آ جائیں۔

Check Also

Ye Dunya Magar Bohat Zalim Hai

By Nusrat Javed