Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Ruka Hua Faisla (1)

Ruka Hua Faisla (1)

رکا ہوا فیصلہ (1)

امی قیصر صاحب کون ہیں؟

چھوٹی کے لہجے میں کچھ ایسا ضرور تھا جس نے مجھے چونکا دیا۔

کیا؟ کون قیصر؟

میں اچھنبے میں تھی۔ بہت ذہن دوڑایا، یاداشت کو کھنگالا پر کوئی قیصر یاد آ کر نہ دیے۔ جب سے عمرِ بے کار کی ساٹھویں پائیدان پر قدم رکھا ہے، لگتا ہے جاتے وقت نے بھول و نسیاں سالگرہ کے تحفے کے طور پر تھما دی ہے۔ جسمانی تغیر تو کم ہے پر ذہنی خلفشار بڑھ گیا ہے۔ باتیں اور چہرے بھولنے لگی ہوں۔ چیزیں رکھتی کہیں اور ڈھونڈھتی کہیں ہوں۔ بقول پروین

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے۔

ایک دم سے ذہن میں جھماکہ سا ہوا اور میں نے بے ساختہ کہا اچھا اچھا آروی تم قیصر ماموں کے متعلق پوچھ رہی ہو مگر وہ تمہیں کیسے یاد آ گئے؟

ہاں یہ قیصر ماموں امی کے فرسٹ کزن ہیں اور پٹنہ میں رہتے ہیں۔ اب تو بہت ضعیف ہو گئے ہوں گے، جانے زندہ بھی ہیں کہ نہیں مگر تم انہیں کیسے جانتی ہو؟ میرا نہیں خیال کہ میں نے کبھی تم سے ان کا ذکر کیا ہے۔

میں ابھی تک الجھی ہوئی تھی۔

نہیں بھئی آپ کے قیصر ماموں کو میں نہیں جانتی، میں تو ان قیصر کی بات کر رہی ہوں جنہیں آپ نے اپنے فیس بک پر غزل dedicate کی تھی۔

آروی کا لہجہ تلخ اور آواز رونکھی تھی۔

میں نے غزل ڈیڈیکیٹ کی تھی کسی قیصر کو؟ مگر میری فرینڈ لسٹ میں تو کوئی مرد قیصر نام کا ہے ہی نہیں۔

میری حیرانگی بدستور قائم تھی۔

جی وہ پاکستانی سنگر ہیں نا، وہی آپ کی پسندیدہ نیرہ نور یا کون ان کی کوئی غزل تھی۔ آپ بہت سنتی ہیں اسے۔ ابھی مجھے اس کے بول یاد نہیں آ رہے۔

جانے کیوں چھوٹی کے لہجے کی تلخی بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔

ایک دم سے دماغ کی بتی روشن ہوئی اور میں بے ساختہ ہنستی چلی گئی۔

او قیصر! ہاں بھئی یہ میری پاکستانی دوست قیصر شوکت ہیں بلکہ میری شاگرد بھی ہیں۔ اس کا موسیقی کا ذوق بہت اچھا ہے اور ہم دونوں ہی نیرہ نور کے فین ہیں۔ یہ اسلام آباد میں رہتی ہے۔

میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

کیا عجیب مردانہ قسم کا نام ہے؟

بندہ خوامخواہ ہی میں کنفیوژ ہو جائے۔

چھوٹی کا شکی لہجہ مجھے سلگا گیا۔

تو اگر قیصر مرد بھی ہوتی تو کیا ہوا، غزل کی ڈیڈیکیشن ایسا کون سا قابل گردن زدنی جرم ہے؟

میری آواز قدرے اونچی ہوگئی۔

کمال کرتی ہیں مما آپ! یہ بھی کوئی عمر ہے ان باتوں کی؟

میں اسے جواب دینے ہی والی ہی تھی کہ بے اختیار میری نظریں اس کی کن سوئیاں لیتی ساس پر پڑ گئی اور میں نے نوکِ زبان پر آئے جواب کو بمشکل پیچھے دھکیلتے ہوئے ہائی چئیر پر بیٹھے اپنے نواسے کو کیلا مسل کر کھلانے لگی۔ پر یہ بات میرے دل میں آنی کی طرح گڑ گئی۔ گھر واپس آنے کے بعد بھی طبیعت مکدر رہی، بلآخر شاور لے کر میں نے اپنے تپتے دماغ اور بلند فشارِ خون کو شانت کیا۔ میری چھوٹی بیٹی آروی کے علاوہ اگر کوئی غیر یہ بات کہتا تو میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرتی مگر چھوٹی؟

چھوٹی ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہے؟ میری پوری زندگی آئینہ کے مانند ان دونوں بہنوں کے سامنے ہے۔ میری زندگی کیا تھی بس گویا دکھوں سے عبارت تھی۔ ہم لوگ یعنی امی، ابا، بھیا اور میں ڈھاکہ میں ایک شاندار زندگی جی رہے تھے۔ ابا جان کی پرانے ڈھاکے میں ماچس فیکٹری تھی اور ہم لوگوں کی رہائش دھان منڈی کے پرسکون علاقے میں تھی۔ وہ خوب صورت دھان منڈی جس کی گلیاں پرانے برگد کے باعث ٹھنڈی اور پرسکون تھیں اور جس کے تالاب کنارے سپاری اور ناریل کے بے شمار درخت تھے۔

وہی پرسکون خطئہ زمین جہاں دن بھر رنگ رنگ کے پرندے نغمہ سرا رہتے۔ وہ بہت سہانا وقت اور چین کی گھڑی تھی۔ پھر رُت بدلتی گئی اور محبت کے راگ بین اور سوگ میں ڈھل گئے۔ بیوروکریسی کی منافقت، جرنیلوں کی عیاشی و ہوس اور سیاست دانوں کی عیاری و اقتدار پرستی نے نفرت کی ایسی ہون جلائی جیسے لاکھوں جان کا بلیدان بھی نہ بجھا سکا۔ اقبال کا رخشندہ خواب محض چوبیس سال میں ڈراؤنا خواب بن گیا اور اس کی تعبیر میں لاکھوں غیر بنگالی محبان وطن پیوندِ خاک ہوئے۔

جو بچ بچا کر پاکستان نہیں نکل سکے، بنگلہ دیش میں ان کی زندگیاں جہنم سے بھی بدتر ہوئیں۔ ہم لوگ بھی انہیں حرماں نصیبوں میں سے تھے۔ بھیا لاپتہ ہوئے اور ابا جان اسٹروک کے باعث مردوں سے بدتر۔ عرصے تک ابا جان، امی اور میں جینوا کیمپ میں گلتے سڑتے رہے۔ ابا جان پانچ سال محتاجی کی اذیت جھیل کر بہتی آنکھوں اور مہر بہ لب، حرفِ شکایت لائے بغیر اس بڑے دربار میں حاضر ہو گئے۔ شہانہ زندگی گزارنے والی امی جان نے کپڑے کی فیکٹری میں ملازمت کی اور جوکھم سے مجھے پالا۔

لاکھ کیسے خاک ہوتا ہے میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ بس کچھ کرنے کا جنون ہی تھا جس نے مجھے ہار ماننے نہیں دی۔ قسمت بھی کیسی کیسی چال چلتی ہے۔ جب " اس" کا کن ہو تو ہوا بھی آپ کے موافق۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میں میٹرک پاس کرکے اماں کے ساتھ فیکٹری جانے لگی تھی اور ساتھ ہی پراویٹ انٹر کرنے کی کوشش میں سرگرم بھی۔ جب بی بی سی سے ایک وفد جینوا کیمپ پر ڈاکومنٹری بنانے آیا۔ اسی ڈاکومینٹری کے ساتھ ساتھ میری قسمت بھی بنتی چلی گئی۔

وہ لوگ میری کھولی کی عکسبندی کر رہے تھے۔ اس آٹھ بائی آٹھ کی کھولی میں ثریا خالہ کے خاندان کے ساتھ ہم ماں بیٹی بھی رہتے تھے۔ ثریا خالہ، کاظم خالو اور ان کے چھ بچے نیچے کمرے میں اور ہم ماں بیٹی اسی کمرے کی آدھی پرچھتی پر۔ جہاں آپ بمشکل بیٹھ سکتے کہ پھر سر چھت سے ٹکراتا البتہ سویا ضرور جا سکتا تھا اگر حبس آپ کو سکون کا سانس بھرنے کی اجازت دے تو۔ اسی کھولی کی پلاسٹر اڈھیڑی دیواروں پر میرے کوئلے سے بنے خاکے جا بجا تھے۔

میرے ٹوٹے زنگ آلود ٹین کے بکسے میں کاغذ کے ٹھونگو اور ردی کاغذوں پر میرے انگنت شاہ کار بھی ٹھونسے ہوئے تھے۔ جب وہ ڈاکومنٹری نشر ہوئی تو کسی دردمند دل پر میری بے کسی نے دستک دی اور آسٹریلیا سے ایک آرٹ ٹیچر میری تلاش میں ڈھاکہ آیا۔ اس نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش بھی کی مگر میں بے زمین تو کہیں کی نہیں تھی۔ پاکستان نے اپنے ہی محب وطن شہریوں سے کٹھور پنے سے منہ موڑ لیا اور ہمیں ڈس اون کر دیا۔

بنگلہ دیش کے اپنے مسائل کیا کم تھے جو وہ ہم جیسے بے وسائل و خانماں بربادو کو گلے لگاتا۔ میں خدا کی اس بے انت زمین میں بے وطن تھی، وہ لاوارث جس کا اندراج کسی بھی بہی کھاتے میں نہ تھا۔ سو وہ مجھے ساتھ تو نہ لے جا سکا مگر اپنے رسوخ استعمال کرتے ہوئے ڈھاکہ آرٹ کالج میں میرا داخلہ ضرور کرا گیا۔

جاری۔۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi