1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Mutaharrik Saaye (2)

Mutaharrik Saaye (2)

متحرک سائے(2)

ہمارے ٹھیک سامنے والے کمرے میں ایک خاتون مریض تھیں۔ ان کی خبر گیری ایک نازک دھان پان سی لڑکی کیا کرتی جو بشرے اور برتاؤ سے ان کی بیٹی لگتی تھی۔ اپنی سرجری کے بعد وہ اکثر کوری ڈور میں اپنی بیٹی کے کندھوں کا سہارا لیکر ٹہلا کرتیں اور آتے جاتے ہمارے کمرے میں جھانک کر بشریٰ کا حال احوال بھی لیا کرتیں۔ ان کی شخصیت کی تمکنت اور رعب حسن سے ان کے رو برو آنکھیں نہیں اُٹھتی تھیں۔ صحافی ہونے کے ناطے شو بز کی دنیا میری دیکھی بھالی تھی، پر ویسا باوقار حسن اور طبیعت کا ٹھہراؤ آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا۔ بشریٰ اور ان کی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔

بشریٰ طبیعت میں بہتری محسوس کرتی تو ان کے کمرے میں چلی جاتی یا کبھی کبھار وہ پھیرا لگا جاتیں۔ ان کے شوہر نامدار ہر شام ہوا کے گھوڑے پر سوار آتے اور اپنی زوجہ کے کمرے میں مختصر ترین وقت کے لیے قدم رنجہ ہو کر بقیہ وقت ہسپتال کے مختلف گوشوں میں لوگوں کے ساتھ خوش گپی میں مصروف پائے جاتے۔ مجھے حیرت بس اس بات کی تھی کہ یہ شخص بجائے اس کے، کہ جوان بیٹی رات میں ماں کی خدمت کے لیے رکے، خود کیوں نہیں ٹھہرتا بیوی کی تیمارداری کو؟

کیا اس کو برے وقت سے ڈر نہیں لگتا؟ ایک دن بڑی عجیب بات ہوئی جو آج تک میرے دل تک کو رنجور کرتی ہے۔

بشریٰ کی ایم۔ آر۔ آئی ہونی تھی اور میں اس کی تیاری تک تو اس کے ساتھ ہی موجود رہا پر جب اسے مشین پر لٹایا گیا تو جانے کیوں دل ایسا وحشت زدہ ہوا کہ میں بےساختہ وہاں سے بھاگ نکلا اور باغیچے کے قدرے بے آباد کنارے جھاڑی کی اوٹ میں رو رو کر اپنی بھڑاس نکالنے لگا۔ رو دھو کر جب دل قدرے شانت ہوا اور میں ارد گرد کے ماحول کو محسوس کرنے جوگے تو قریبی سنگی بینچ سے کسی کی پریم رس میں ڈوبی مدہم سرگوشیاں ہوا کی دوش پر میرے کانوں میں چٹکنے لگی اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس بےقراری سے کئے گئے اظہار و اقرار کو سننے سے بعض نہ رہ سکا۔

ہسپتال کے جراثیم کش بو ذدہ ماحول میں وہ اقرار محبت بہار کا نو شگفتہ گلاب محسوس ہو رہا تھا۔ اس شخص کی بےتابی اظہار مجھے اپنی شادی کے ابتدائی ایام یاد دلا گئی جب میں دفتر سے گھر کی جانب ایسے بھاگتا تھا جیسے چھٹی کی گھنٹی پر اسکول کے بچے۔ مجھے چار سو چالیس ولٹ کا جھٹکا تب لگا جب میں نے جھاڑیوں کی اوٹ سے بینچ پر سے اٹھتے ہوئے اس شخص کا چہرہ دیکھا۔ آف میرے خدا! یہ؟ میرا دل ڈوب گیا کہ وہ شخص اس پر تمکنت خاتون کا شوہر تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا پر اب مجھ پر ان فسوں کار آنکھوں کے حزن کا سبب روشن تھا۔

یہ احساس ہی انسان کو توڑنے کے لیے کافی ہے کہ کٹھن وقت میں آپ کا رفیق جاں آپ کے ساتھ نہیں۔ یہاں تو صورت حال یہ تھی کہ شریکِ سفر پٹری بدل کر نئی ٹرین پکڑ چکا تھا۔ آخری عمر میں ساتھ ہوتے ہوئے اکیلے رہ جانا کس قدر اذیت ناک تجربہ ہے اور یقیناً وہ باوقار خاتون اس سفاک حقیقت سے آشنا، تنہائی کی جانکنی کو جھیل رہیں تھیں۔ ایک ہفتے بعد وہ ڈسچارج ہو کر چلیں گئی۔ میں نے بشریٰ سے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا مگر ان خاتون کا دکھ میرے اندر اتر گیا۔

گزری برساتوں میں سے ایک برسات دفتر سے وآپسی پر پارکنگ ایریا میں جاتے ہوئے ڈرینج کی نالی میں میرا پیر پھنسا اور پھر بائیں پیر کی انگلیوں میں پلستر چڑھوا کر دس دنوں تک میں بشریٰ کی نوازشات سے مستفید ہوتا رہا۔ بشریٰ ناشتے کے بعد مجھے سہارا دیکر ٹیرس پر ترپال کے سائے تلے اخبار سمیت بٹھا دیا کرتی تھی اور میں چائے کے ساتھ ساتھ حال اور احوال (اخبار) سے باخبر ہوتا جاتا۔ میں روزانہ کی بھگڈر میں اس قدر الجھا ہوا تھا کہ اپنے اطراف ہی سے بےخبر تھا۔

مجھے اب پتہ چلا کہ بشریٰ کے ہاتھوں کے لگائے گئے تینوں الٹا اشکوکا کے درخت کسی مستعد سپاہی کی طرح چوکس دوسری منزل کی ہمسری کر رہے تھے اور نیم کے گھنیریے پتے صبح کی نرم روشنی میں خوشی سے چمکتے محسوس ہوتے ہیں۔ ٹیرس کے ایک سرے پر سہرے کی بیل اور دوسرے سرے پر پھاٹک کی قربت میں چمبلی کی بیل اپنی مست خوشبوؤں سے اطراف کو مشکبار کئے ہوئے تھیں اور صبح کی پر نور ساعتوں میں چڑیوں کی چہکار سے پوری فضا انبساط میں ڈوبی محسوس ہوتی۔ واقعی قدرت کی صناعی و سمفینی کا مقابلہ نہیں۔

آج ٹیرس پر میری چوتھی مجبور صبح تھی اور دروازے پہ بجتی گھنٹی کے ساتھ ہی بےساختہ میری نظریں کلائی کی گھڑی پہ جا رکیں اور۔۔ ٹھیک نو بج رہے تھے۔ یہ خاکروب کی گھنٹی تھی جو اپنی گدھا گاڑی پر محلے کا کچرا ڈھو کر سب کے نصف ایمان کو کاملیت عطا کرتا تھا۔ وہ درمیانے سے نکلتے قد اور دبتی رنگت کا حامل ایسا ہی بندہ تھا جیسے مفلوک الحال طبقے کا ہر بشر، جن کے الجھے گرد آلود بال، آنکھوں میں جاگزیں حزن اور چہرے پہ پھیلا تفکر نیون سائن کی طرح دور ہی سے جھلملاتا ہے۔

میں دو باتوں کی کی بنا پر اس خاکروب کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ پہلی کہ اس کی گدھے گاڑی کے ساتھ ایک قدرے تند خو اٹھ نو سال کا لڑکا اور ایک پیاری سی میلی کچیلی اپنے حق سے آسانی سے دست بردار ہو جانے والی بچی ہوتی تھی۔ مزے کی بات کے کہ اس گدھے گاڑی کے ساتھ دو دم ہلاتے ہوئے قدرے نحیف سے کتے بھی جو کسی کے جھڑکنے پر دم دبا کر زمین پر لیٹ کر گول ہوتے ہوئے اپنے دونوں کانوں کو سکیڑ لیتے گویا بہ زبان بے زبانی معافی کے خواستگار ہوں۔ لڑکے اور لڑکی کے کندھوں پر ایک ایک بوسیدہ بوری بھی ہوا کرتی تھی۔

اس کی چونکا دینے والی بات روزانہ ٹھیک نو بجے گھر کی گھنٹی بجانا تھی۔ میں نے بشریٰ سے تصدیق کی اور اس نے بھی یہی بتایا کہ یہ اپنے وقت کا اس قدر پابند ہے کہ آپ اس کی گھنٹی سے اپنی گھڑی ملا سکتے ہیں۔ میں اس کے لہجے کی شائستگی اور کام کے سلیقے سے حیرت میں مبتلا تھا کیونکہ وہ بڑی تمیز سے گھنٹی بجا کر" بی بی کچرا دے دو "کی صدا بلند کرتا اور ہر کچرے کی بالٹی کا اس کے دونوں بچے بڑی جافشانی سے جائزہ لیتے۔

ری سائیکل چیزیں لڑکا اپنی بوری میں ڈالتا اور سبزیوں کا چھلکا اور بچا کچھا کھانا بچی اپنی بوری میں اور کچرے کی بالٹیوں سے جو چھیچھوڑی ہوئی ہڈیاں نکلتی اس سے ان دونوں کتوں کی ضیافت ہوتی۔ میں اس قدر مربوط انتظام دیکھ کر حیران تھا۔ کچرے کے ڈبوں سے نکلے ادھ کھائے پھل پر بچی بڑے شوق سے دانت مارتی پر اس کاتند خو بھائی ہمیشہ اس سے جھپٹ لیتا جس پر وہ باپ کی طرف شکایتی نظروں سے دیکھتی مگر باپ کے نظریں چرانے پر اس کی مزاحمت دم توڑ دیتی اور وہ با آسانی اپنے حق سے دست بردار ہو جاتی۔

مجھے اس کے باپ پر شدید غصہ آتا تھا کہ یہ کیوں بیٹی کو کمزور کر رہا ہے؟ مگر شاید یہی زمانے کا مروجہ چلن اور بنت حوا کا نصیب ہے۔ بہاؤ کے الٹے تیرنا یقیناً جان جوکھم کا کام اور اس پدر سری معاشرے میں غیر مقبول بھی۔ اس بچی کے پاس ایک ٹانگ والی گڑیا تھی جس کو وہ ہمہ وقت کسی قیمتی متاع کی طرح اپنے سینے سے لگائے رکھتی۔ ایک دن کسی بات پر دونوں بھائی بہن کی لڑائی ہو گئی اور اس بچے نے گڑیا کی اکلوتی ٹانگ بھی توڑ دی اور مانو کسی قہر کو آواز دے دی۔

ایک سیکنڈ کے لیے بچی بھک کھڑی کی کھڑی رہ گئی پھر کسی ریچھ کی طرح بھائی سے لپٹ کر اس کو بھنبھوڑ دیا اور اس کے جسم پر جھولتا میلا کچیلا جوڑا لیرو لیر کر دیا۔ مجھے بے انتہا خوشی ہوئی کہ اس بچی میں ابھی چنگاری باقی ہے اور میں اپنی ٹوٹی ہوئی انگلیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ٹیرس پر کھڑے ہو کر اس کے لیے تالیاں بجانے لگا۔ اس بچی نے اپنی بے ٹانگوں والی گڑیا کو سینے سے بھینچ کر مسکراتے ہوئے سر اٹھا کر بڑے اعتماد سے مجھے دیکھا۔

Check Also

Zindagi Mein Maqsadiyat

By Syed Mehdi Bukhari