Islam Ke Pehli Shahadat
اسلام کی پہلی شہادت
آج وہ پھر سزاوار خطا کہ اس کا جرم بھی ناقابل معافی "انکار، اطاعت سے انکار"اس جرم کے پاداش اس عمر رسیدہ سیاہ فام حبشن کے سر پر لوہے کی خود اور جسم پہ بھاری زرہ پہنا کر، اسے صحرا کی قہر ڈھاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا، ایسے وقت جب سورج سوا نیزے پر اور پیروں تلے ریت دہکتے انگارے جیسی تھی۔ اس ظلم سے اگر طبیعت کی سیری نہ ہو تو ابھی ترکش میں ظلم کے کئی نوکیلے اور زہریلے تیر مزید موجود کہ ابھی ظلم کی بھٹی کو دہکانے کے لیے اس الم نصیب خاندان کے جوان غلام حاضر۔
ستم رسیدہ ماں کے آگے اس کے جوان بیٹوں کو تختہ مشق بنایا جاتا تو کبھی جوان اولادوں کے آگے بوڑھے ماں باپ کو اذیت پہنچا کر خط اٹھایا جاتا۔ ذلت اور اذیت کا یہ بھیانک کھیل سر عام تا کہ باقی باغیوں کو عبرت حاصل ہو۔ پوری وادی میں، کس میں اتنی ہمت تھی جو اس با اختیار اور جابر سردار کے آگے اس مظلوم خاندان کے لیے ڈھال بنتا؟ اس بربریت کا شکار ہونے والی عمر رسیدہ حبشی کنیز، جو درحقیقت آزاد کردہ تھیں، کوئی اور نہیں بلکہ دین اسلام کی پہلی مجاہدہ حضرت سمیہ بنت خباط تھیں۔
حضرت سمیہؓ حبشہ سے تعلق رکھتی تھیں اور یہ قبیلہ بنو مخزوم کے سردار مہشم بن مغیرہ مخزومی کی کنیز تھیں۔ سردار مہشم، جن کی کنیت ابو حذیفہ تھی اور بعثتِ نبوی ﷺ سے کچھ عرصہ پہلے ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ حضرت یاسر بن عامر بن قحطانی یمن میں رہتے تھے، شہر مارب کی تباہی کے بعد ان ایک بھائی بد دل ہو کر، خاموشی سے شہر چھوڑ گئے۔ ماں باپ کے پیہم اصرار پر، حضرت یاسرؓ، اپنے دو بھائی حارث اور مالک کے ہمراہ گم شدہ بھائی کی تلاش میں نکلے اور انہیں کھوجتے ہوئے مکہ پہنچ گئے۔
کافی تلاش و جستجو کے باوجود بھی جب بھائی نہ ملے تو اس لاحاصل تلاش سے دل برداشتہ ہو کر دونوں بھائی یمن وآپس چلے گئے مگر حضرت یاسرؓ کو مکہ ایسا بھایا کہ وہ یہیں کہ ہو کر رہے گئے۔ مکہ میں ان کی ملاقات قبیلہ مخزوم کے سردار مہشم سے ہوئی اور انہوں نے حضرت یاسر کو اپنا حلیف بنا لیا۔ مہشم بن مغیرہ یعنی ابو حذیفہ نے، حضرت یاسر کا نکاح اپنی کنیز سمیہ بن خباط سے کرا دیا۔ حضرت سمیہؓ کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے عطا کیے تھے۔ سب سے بڑے بیٹے عمار 571 عیسوی کو پیدا ہوئے، یہ تقریباً حضور ﷺ کے ہم عمر تھے۔
ان کی ولادت کے بعد حضرت سمیہؓ کے مالک سردار مہشم نے، حضرت سمیہ کو آزاد کر دیا تھا۔ سردار مہشم بن مخزومی کے انتقال کے بعد قبیلہ بنو مخزوم کی سربراہی عمرو بن ہشام یعنی فرعون امت ابو جہل کے ہاتھوں میں آئی جو مزاجاً، مہشم کے برعکس تھا۔ اس نے حضرت یاسر اور آل یاسر کو اپنی غلامی میں لے لیا۔ جب مکہ کی وادیوں میں وحدت الہی کا نور ہویدا ہوا اور حضور ﷺکے پیغام نے دلوں میں گھر کرنا شروع کیا تو اس پر لبیک کہنے والوں میں حضرت سمیہ اور حضرت عمارؓ پیش پیش تھے، ان دونوں کے اسلام لانے کے بعد حضرت یاسر نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
حضرت سمیہ اور حضرت عمار السابقون الاولون میں شمار کیے جاتے ہیں۔ حضرت یاسرؓ کے خاندان نے دین کی محبت میں ہر طرح کا جبر اور ظلم برداشت کیا۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں غریب، غربا، غلام اور کنیز اور معاشرے کے دبے کچلے ہوئے لوگ ہی اس حیات آفریں پیغام کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس غریب طبقے کو ان کے آقاؤں اور قبائل کے سرکردہ افراد نے بدترین مظالم کا نشانہ بنایا۔ حضرت سمیہ اور ان کا خاندان بھی ان بے خانماں وبے سہارا افراد میں شامل تھا جن کی دادرسی کو کوئی نہ آیا، بھلا مکے ایسا کون تھا جو ظالم ابو جہل کا اٹھا ہوا ہاتھ پکڑتا۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ سے بخاری شریف میں روایت ہے کہ میں نے رسول ﷺ کو اس وقت دیکھا، جب آپ کریم ﷺکے ساتھ پانچ غلام، (بلال، خباب، صہیب، عمار اور یاسر)، دو عورتیں اور حضرت ابو بکر صدیق کے سوا کوئی نہ تھا۔ جابر ابو جہل نے حضرت سمیہؓ پر ظلم کی انتہا کر دی تھی۔ حضرت سمیہؓ عمر میں رسول ﷺسے بیس برس بڑی تھیں، اور قبول اسلام کے وقت ان کی عمر ساٹھ اکسٹھ سال تھی۔
ضعیف اور ناتواں سمیہ جن کا شمار اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں ہے، ان کو مکے کی تپتی انگارہ بنی ریت پر لٹا دیا جاتا، کبھی عین دوپہر میں سر پر لوہے کی خود اور جسم پر زرہ پہنا کر بھٹی بنے سورج کے نیچے پہروں کھڑا رکھا جاتا کہ غضب کی گرمی کے باعث پیاس سے جاں بلب مگر پانی کا قطرہ میسر نہیں۔ کبھی پہروں پانی میں غوطہ دیا جاتا کہ دم اکھڑنے لگے۔ بدترین عذاب یہ کہ گردن میں لوہے کا طوق ڈال کر قریش کے اوباشوں کے حوالے کر دیا جاتا جو انہیں مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے اور آوازیں کستےچلتے۔
والدین کے سامنے اولادوں کو اور اولادوں کے سامنے والدین پر تشدت اور ظلم کا پہاڑ ڈھایا جاتا۔ کمزور و ناتواں حضرت سمیہ کو پہروں بھوکا پیاسا رکھا جاتا اور ان پر کوڑے برسائے جاتے مگر حضرت سمیہؓ نے اپنی قوت ایمانی کے بل بوتے پر ان تمام اذیتوں کو خندہ پیشانی سے جھیل لیا۔ حضرت رسول خدا ﷺجب اس مظلوم اور بے آسرا خاندان پر ابو جہل کا ظلم روا دیکھتے تو دعا کرتے ہوئے فرماتے:اے آل یاسر!! صبر کرو، تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔
ابو جہل کہتا تھا، ان تین کاموں میں سے کوئی ایک تمہاری نجات اور آسائش کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
1۔ سب و شتم پیغمبر (ﷺ) پر۔
2۔ پیغمبر (ﷺ) سے اظہار برائت۔
3۔ لات و عزیٰ کی طرف رجوع۔
لیکن ان تینوں کی زبانوں سے ان جملوں، اللہ اکبر، لا آلہ آلا اللہ اور لات و عزیٰ کی برائی اور حضور اکرم ﷺ نہایت عزت و احترام سے نام لینے کے علاؤہ کوئی چیز سننے میں نہیں آتی تھی۔ لعین عمرو بن ہشام نے ظلم و بربریت کے تمام کے تمام ہتھکنڈے حضرت سمیہ پر آزما لیے مگر نور ایمانی ان کے قلب مبارک میں جاگزیں تھا سو اس پیکر آہن کے پائے استقلال میں خفیف سی لرزش بھی نہ آئی۔ حضرت سمیہؓ کے اس بےپناہ ضبط و ثبات کی تاب بھلا ابو جہل جیسا گھمنڈی کیوں کر لا سکتا تھا۔
ایک دن غصے میں بھرا ان کے سامنے نیزہ تان کر کھڑا ہو گیا اور انہیں کفریہ کلمہ بولنے پر مجبور کرنے لگا۔ انکے انکار اور کلمہ توحید کی مستقل تکرار سے غیض میں آ کر اس سفاک نے اس مجاہد کی ناف کے نیچے برچھا مارا، جو جسم کےآر پار ہو گیا اور خون میں لت پت حضرت سمیہؓ فرش خاک پر گر گئیں اور آپ کے آخری الفاظ تھے"رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گئی۔"
اللہ اکبر!! کامیابی سی کامیابی۔
حضرت سمیہؓ، وہ خوش نصیب صحابیہ جنہیں اسلام کی پہلی شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ غزوہء بدر میں جب ابو جہل، تکبر کا کوہ گراں، حضرت عبداللہ بن مسعود کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا تو حضور ﷺ نے حضرت عمار بن یاسرؓ سے فرمایا کہ دیکھو تمہارے ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کر دیا۔