Daain
ڈائن
ہمارے گھر میں مہینوں سے چلتی ٹینشن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ گمبھیر ہوتی جا رہی تھی۔ ہم تینوں ہی الجھ رہے تھے۔ نہیں نہیں تینوں نہیں کہ میں اور میرے میاں مرسل تو ایک ہی پارٹی میں تھے۔ سارا پریشر تو غریب حاشر پر تھا۔ حاشر ہمارا اکلوتا بیٹا ہے۔ اکلوتے پن کے خوف، کشٹ اور وہم کو صرف وہی باغبان جان سکتے ہیں۔ جو اپنے گلستان کے گلِ واحد کی آبیاری میں ہلکان رہتے ہیں۔ کیا کیا جائے کہ اکلوتے بچے کا زکام بھی نمونیا لگتا ہے۔
ہمارا تعلق چوں کہ متوسط طبقے سے ہے لہذا ہماری زندگیاں بھی ترستی کلستی اور بسورتی ہوئی ہیں۔ وہی مثال ہائے اللہ سر کھلا۔ سر چھپاؤ تو پیر کھل جائے اور پیر ڈھانپنے کی کوششوں میں زندگی کی ردا مزید کانٹوں میں الجھتی جائے۔ حاشر ہمارا اکلوتا بیٹا جیسے ہم نے بڑی منت مراد اور دعاؤں کے بعد پایا تھا۔ دراصل میری بچہ دانی کمزور تھی سو حمل ٹھہرتا نہ تھا۔ میرے چھ مس کیرج ہوئے۔ کوئی بچہ کوکھ میں تین ماہ تو کوئی پانچ مہینے مہمان رہا۔ میرا ایک بچہ تو ساتویں مہینے میں ضائع ہوا تھا، گویا دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا۔ اس مس کیرج میں، میں مرتے مرتے بچی۔
حقیقتاً تو مر ہی گئی تھی بس علاج معالجے کے بعد جسم کی مشینری چل پڑی۔ پھر ہم دونوں میاں بیوی نے سینے پر صبر کی سل رکھ لی اور ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ ان دنوں تو یہ حالات تھے کہ کیا اپنے، کیا پرائے سب ہی مرسل کو دوسری شادی کے مشورے سے نوازتے رہتے۔ اللہ بخشے میری ساس، وہ بھی آس ہار چکی تھیں اور اٹھتے بیٹھتے مرسل کو بے نشان رہنے کے مضمرات سے آگاہ کرتیں اور آہ سرد کے ساتھ اپنے پوتے کا منہ دیکھنے کی دیرینہ آرزو کا راگ بھی الاپتی جاتیں۔ صبر تیاگ کر سگی پھوپھی نے خرانٹ ساس کا چولا پہن لیا تھا۔ شاید پھوپھی حق بجانب ہی تھیں۔ کون سی ماں ہوگی جو اپنے بچے کو آسودہ اور خوش باش دیکھنا نہیں چاہتی ہوگی۔ ان کی اپنی اولاد کی اولاد دیکھنے کی خواہش یقیناً بے جا نہ تھی۔
میرا جسم تو مجروح تھا ہی مگر لوگوں کے طعن سن سن کر دل گویا پکا پھوڑا بن چکا تھا۔ مجبوری یہ کہ میرے دل اور ظرف میں اتنی وسعت نہ تھی کہ مرسل کی دوسری شادی کو گھٹک لیتی۔ ایک روز دل کڑا کرکے مرسل کو دوسری شادی کا پروانہ تو دے دیا مگر یہ اجازت اپنی آزادی سے مشروط رکھی۔
مرسل میرے پیارے مرسل مجھے حیرت سے دیکھتے رہے اور پھر نہایت رنجیدگی سے کہا
ندرت تم نے ایسا سوچا بھی کیسے؟
ہم زندگی کے شریک ہیں کوئی ریلوے ویٹنگ روم کے مسافر تو نہیں جو چند گھڑیاں ایک چھت کے نیچے ساتھ گزارتے ہیں پھر ان کے راستے جدا جدا۔ اولاد ہوگی تو تم ہی سے اور جو نہ ہوئی تو کیا ہوا؟ قیامت تو نہیں آ جائے گی، ہم ہیں نا ایک دوسرے کے لیے پھر اور کیا چاہیے!
ہائے! مرسل کے یہ جملے میرے مردہ من میں جان ڈال گئے، مجھے نہال کر گئے۔ مرسل کا بے دام غلام بنا گئے۔ جانے مرسل نے پھوپھی سے کیا کہا سنا کہ پھوپھی، خرانٹ ساس کا بدنما چولا اتار کر پھر سے میری شفیق پھوپھی بن گئیں۔ میں نے دنیا اور دنیا والوں پر دو حرف بھیجا اور تن من سے اپنے گلشن کی آبیاری میں لگ گئی۔
شادی کی تیرھویں سالگرہ پر قدرت نے ہمیں انمول تحفے سے نوازا۔ دل پچھلے سانحات سے سہما ہوا تھا۔ ہر لحظہ انہونی کا خوف طاری رہتا۔ ماضی کے بھوت خوابوں میں آ آ کر ڈرایا کرتے اور راتوں کی نیندیں اڑا جاتیں پر خدا کی ذات سے وابستہ امید سہارا بنی رہی۔ وہ دو سو ستر دن جیسے ہم نے آبگینوں کی حفاظت میں گزارے۔ شبھ گھڑی آئی اور اللہ کی بیش بہا نعمت، حاشر میری گود میں آیا۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اللہ نے مجھے جیتا جاگتا گڈا دے دیا ہے۔ دل سجدہ ریز ہی رہتا۔ مرسل نے دفتر سے مہینے بھر کی چھٹی لے لی تھی۔ خاندان تو خاندان، حاشر کی آمد کی خوشی تو دوستوں اور محلے والوں نے بھی منائی تھی۔ خوشیاں گویا آسمانوں سے برس رہی تھیں، شاید ویسے ہی جیسے حضرت ایوبؑ پر سونے کی تتلیاں برسیں ہوں گی۔ میرا انگ خوشی سے سر سرشار اور پور پور شکر گزار تھا۔
ہم دونوں میاں بیوی نے بڑی مشقت سے حاشر کے لیے دنیا کی ہر نعمت اکٹھی کی۔ مرسل اور میں نے اپنے سارے شوق تج کر حاشر کے سارے خواب اپنی آنکھوں میں بھر لیے۔ حاشر بھی تابعدار اور نیک خو بچہ نکلا۔ اس نے جان مار کر تعلیم حاصل کی اور ہر میدان میں نمایاں رہا۔ بس شاید اس کی پیدائش کی ٹائمنگ کچھ غلط تھی۔ اس کی نوجوانی کے دن تھے اور ملک میں ٹارگٹ کلنگ کا زور۔ سہمی ہوئی ماؤں کے کلجیے حلق میں دھڑکا کرتے تھے۔ حاشر کا گھر سے باہر قدم نکالنا مجھے مصلوب کیے دیتا تھا اور اس کی واپسی تک میں آیت کریمہ کا ورد کرتی ہوئی گھر میں جلے پیر کی بلی کی طرح پھرتی رہتی۔ بس انہی حالات کے پیش نظر ہم دونوں میاں بیوی نے طے کر لیا تھا کہ حاشر کی ڈگری مکمل ہوتے ہی اسے باہر بھیج دیں گے۔
حاشر نے ایم بی اے شاندار نمبروں سے پاس کیا۔ وہ بچپن سے کرکٹ کا شوقین تو تھا ہی اب کھیلتا بھی بہت شاندار تھا۔ اس نے بالنگ میں اپنے پسندیدہ بالر ہی کا انداز اپنایا تھا اور اب اسی کی پارٹی کا سپوٹر بھی۔ حاشر کی سیاست سے وابستگی مجھے دہلائے رکھتی تھی۔ الیکشن میں اپنے ہیرو کی جیت پر حاشر کی خوشی دیدنی تھی اور وہ پاکستان کے مستقبل کو لے کر بہت پر امید بھی۔ پھر رہنما سے وابستہ کئی خواب ٹوٹے، سیاست میں بہت سارے یو ٹرن بھی آئے۔ حاشر کی رنجیدگی بھی بڑھتی گئی مگر ان تمام باتوں کے باوجود وہ اپنی پوری لگن و انہماک کے ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی کا ادنیٰ پرزہ بنا رہا۔ ہماری ہزار کوششوں کے باوجود وہ کسی بھی قیمت پر ملک چھوڑ کر باہر جانے پہ راضی نہ ہوا۔
پھر۔۔ پھر
اس کے چہیتے رہنما کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس ہوا۔ من چاہا وزیراعظم برطرف ہوا اور ملک حوالہء انتشار۔ ملک کے مفادات کو پس پشت ڈال کر وہی ازلی پرانی کہانی دہرائی گئی۔ سازشی ٹولے اور ان کے حواری متحد و متحرک ہوئے اور ان کے جوڑ توڑ کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا۔ احتجاجاً ملک میں جگہ جگہ دھرنا اور لانگ مارچ شروع ہو گئے۔ سابقہ وزیر اعظم کی ہمدردی میں کیا گیا حاشر کا ایک ٹوئٹ، اس کی نوکری لے بیٹھا۔ وہ عجیب ہی دور تھا، نوجوانوں کے لیے عذاب سا عذاب۔ سابقہ وزیر اعظم کا نام لینا گناہ تو اس کی حمایت قابل تعزیر ٹھہری۔ مہنگائی آسمانوں کی خبر لانے لگی اور بجلی گیس کے بحران نے نچلے اور متوسط طبقے کی گویا عقل ہی خبط کر دی۔ ملک میں ایک بیچینی اور سراسیمگی تھی۔ "اب کیا ہوگا "؟
یہ سوال ہر ذہن میں گردش کر رہا تھا۔
شدید انتشار و فشار کے بعد ملک میں الیکشن کا غلغلہ اٹھا۔ حاشر کی پسندیدہ پارٹی پر ہر طرح کی پابندی عائد تھی۔ نہ اس کی پارٹی کا نشان باقی تھا اور نہ ہی میدان میں ان کے مستحکم امیدوار۔ ایک سال دس مہینوں کی اتھل پتھل اور ریاستی جبر کے بعد چناؤ ہوا۔ عوام نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ریاستی مہروں کو کلی طور پر مسترد کر دیا۔ پر کہانی ختم نا ہوئی کہ سنگینوں تلے جبر کی کالی طویل رات ہنوز باقی ہے۔
آج صبح نماز فجر کے بعد جب میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی تو حاشر نے رحل کے پاس اپنا پاسپورٹ اور ٹکٹ رکھ دیا اور میری گود میں منہ چھپا کر بے طرح رو پڑا۔
میں تب سے اب تک اسی سوچ میں گم ہوں کہ میں خوش ہوں یا اداس؟
حاشر اب محفوظ ہوگیا، یہ بات باعث اطمینان مگر اس کے ٹوٹے سپنوں کی کرچیاں میرے دل کو لہولہان کر رہی ہیں اور ساتھ ہی یہ احساس بھی دل ہولائے دے رہا ہے کہ کیا ہم حاشر کی غیر معینہ مدت کی جدائی سہار سکیں گے؟ یہ بجھتی آنکھیں کیا اپنے نور نظر کی دید سے پھر سیراب ہو پائیں گی؟
اکیلا میرا حاشر ہی نہیں اس مملکت خدا داد میں باعزت زندگی بسر کرنے کے مواقع نہ ہونے کے سبب سالانہ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان بیرون ملک جا رہے ہیں، بے کسی کے عالم میں ملک چھوڑ رہے ہیں۔
ریاست اب ماں نہیں رہی بلکہ ڈائن بن گئی ہے۔