Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Baby Baji

Baby Baji

بےبی باجی

ابھی ایک ڈرامہ جس کا بہت دھوم دھڑکا تھا اختتام پزیر ہوا۔ شاید ستر اقساط تھیں۔ ہم یہ ڈرامہ دیکھ رہے تھے اور خواہ مخواہ اپنا خون اور دل بھی جلا رہے تھے۔

اس ڈرامے کے اختتام پر بے حساب ریویو بھی نظر سے گزرے اور مزے کی بات کہ سب میں بےبی باجی کی فہم و فراست کو سراہا جا رہا تھا جبکہ میرے حساب سے بےبی باجی ہی کی ناقص حکمت عملی سارے مسائل کا سبب تھی۔

بھلا یہ کیا احمقانہ ضد تھی کہ آپس میں لڑو مرو مگر ساتھ رہو؟

بھئی مزاج میں تحمل اور موافقت نہیں ہے، سمجھانے بجھانے سے بھی معاملہ نہیں سدھر رہا تو بجائے سب گھر والوں کا سکون غارت کرنے کہ وجہِ فساد کو دور کر دو۔ عذرا کو شہ تو بےبی باجی کی خاموشی اور صرف نظر نے دی۔ اسما کی صلح جو طبیعت اور نیکی کا صلہ یہ تھا کہ اس پر عذرا کا بھی بوجھ لاد دیا جاتا۔ عذرا کے حصے کا کام بھی اس کے سر منڈھ دیا جاتا۔ یہ بھلا کون سا انصاف تھا؟

بےبی باجی بجائے معاملہ سلجھانے کے معاملات ٹالنے کی پالیسی پر کار بند تھیں کہ بس کسی بھی طرح سے گھر کی گاڑی چلتی رہے۔

اس گھر کے مرد سب سے بڑے لوزر اور عقل و فہم سے عاری تھے۔ بیٹا اگر بیلنس رکھنا جانتا ہو تو اس کی بیوی حد پار کر ہی نہیں سکتی۔ عذرا نے ساس کو گھر سے نکال دیا اور میاں سے کہا کہ آپ واصف کو فون بھی نہیں کریں گے اور عذرا کے سرتاج من اتنے موگے، عقل سے پیدل اور بے غیرت کہ انہوں نے ماں کی خبر لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اکیلی ماں خیریت کے ساتھ واصف کے گھر پہنچی بھی کہ نہیں؟

ماں کس کی تھی؟ اس کی خبر گیری کس کا فرض تھی؟

جمال کو تو اسی وقت واصف کے گھر جانا چاہیے تھا۔

سولہ سترہ سال کی رفاقت میں میاں بیوی ایک دوسرے کو اچھی طرح جان چکے ہوتے ہیں۔ جمال کو بخوبی اندازہ تھا کہ اس کی بیوی کتنی شاطر اور بد زبان و بد لحاظ ہے۔ ایسے کیس میں تو جمال کو اور زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت تھی نا کہ موم کی ناک۔

پھر تیسرے نمبر پر پھسر پھسر رونے والے بھائی واصف تھے جو باپ کے گھر سے جاتے وقت چھوٹے بھائی ولید سے گلے لگ لگ کر زار زار روتے رہے اور جزباتی ڈائلاگ بول بول کر پبلک کی داد سمیٹتے رہے۔ اپنے فلیٹ پہنچتے ہی انہوں نے ایسا پینترا بدلا کہ نہ انہیں ماں یاد رہی نہ باپ اور نہ عزیز از جان چھوٹا بھائی۔ مکمل طور پر ان کی نکیل ان کی بیوی کے ہاتھوں میں تھی۔ کہاں گیا وہ سارا پیار، اتحاد اور احترام؟ کیا بکواس خبطی کردار تھا۔ ایسا ڈھلمل انسان کس کام کا جو ماں کے لیے اسٹینڈ بھی نہیں لے سکتا بلکہ شادی کے بعد تو واصف میاں زبانی جمع خرچ سے بھی گئے۔

فرحت کی دوست کی شادی اور اماں کے پرانے محلے دار کی شادی ایک ہی دن شہر کے مختلف کونوں میں تھی تو ایسی کون سی بڑی بات تھی؟ ٹائم مینجمنٹ کے ساتھ یہ مسئلہ با آسانی حل کیا جاسکتا تھا۔ بھئی ذرا سویرے گھر سے نکلتے، پہلے ماں کو ڈراپ کرتے پھر بیوی کی دوست کی شادی میں پہنچتے۔ اگر آپ کی اپنی عقل کم ہے یا گھاس چرنے جا چکی ہے تو بیوی کیوں دوشی؟

کمی تو آپ کی عقل میں اور فتور آپ کی نیت میں ہے۔

جمال نے عذرا کو تھپڑ مارا اور یہ دیکھ اور پڑھ کر انتہائی افسوس ہوا کہ اس قبیح عمل کی عوام میں بڑی واہ واہ اور پزیرائی ہوئی۔ درحقیقت وہ تھپڑ تو جمال کو اپنی مردانگی کے منہ پہ مارنا چاہیے تھا۔ ماں اس کی ذمہ داری تھی۔ وہ اپنی بیوی کی بد زبانی اور بد تمیزی سے مکمل واقفیت رکھتا تھا تو اس نے آنکھیں بند کرکے بیوی کے بیانیے پر اعتبار کیوں اور کیسے کر لیا؟

غلطی اپنی اور پرائے کو دیں دوش۔ بےبی باجی کا تو اپنا سکہ ہی کھوٹا تھا۔

کمال یہ کہ اس گھر کے تینوں بڑے بیٹے، جمال، نصیر اور واصف انتہائی کم فہم، کانوں کے کچے اور لوزر اور موردِ الزام بیویاں۔ اپنی ذمہ داریاں تینوں بیٹوں نے نہیں نبھائی، نصیر تو خیر تھا ہی لاخیرا باقی دو جو سعادت مندی کا چولا پہنے ہوئے تھے وہ بھی کسی گت کے نہ تھے۔ عذرا کی اگر شروع ہی میں کلاس لے لی جاتی تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہی نہیں، معاملہ آر ہوتا یا پار۔ عذرا اگر سنبھلتی تو بستی ورنہ پھر طلاق لے کر گھر چلی جاتی۔ ایک عذرا کے چلتے پورے خاندان کی زندگی تو جہنم نہیں بنتی۔ عذرا کی یہ اڑان بھی بےبی باجی کی بے جا ڈھیل کے سبب تھی۔

شیرازہ بکھرنے کے بعد بےبی باجی کو عقل آئی تو کیا آئی؟ آخری قسطوں میں ان سے کہلوایا گیا کہ بیٹا بےشک الگ الگ گھروں میں رہو مگر آپس میں دل ملا رہے۔ ارے بھائی اتنی بد مزگیوں کے بعد دل ملنے کی گنجائش ہی کب بچتی ہے؟

اس ڈرامے کا ایک اور جان کا عذاب کردار پڑوسن اور ان کی بیٹی تھیں، وہ اور ان کی بیٹی کا ہر وقت پڑوس میں گھسے رہنا اور ان کے خانگی معاملات میں مداخلت بالکل بے جا تھی۔

Truely speaking very disappointing drama.

اس ڈرامے کا ایک مثبت پہلو ضرور تھا اور وہ یہ کہ لڑکیوں میں اتنی صلاحیت ضرور ضرور ہونی چاہیے کہ برے وقتوں میں وہ کسی کی بھی محتاج ہوئے بغیر اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں۔ معاشی استحکام انتہائی اہم تا کہ عورتیں اپنے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے کر خود اپنے لیے بہتر سے بہتر فیصلہ کر سکیں۔

Check Also

Neela Thotha

By Amer Farooq