Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Aalam e Bala

Aalam e Bala

عالم بالا

عالم بالا

محلہ برزخ

کیبن نمبر 70

بائیس مئی،دو ہزار اکیس

میرے عزیزی ہمزاد،سلام محبت، کیسی گزر رہی ہے میرے بغیر؟میں تو تم بن بالکل ادھورا اور اداس ہوں ،میاں ساٹھ سال کا ہنستا، کلستا، روتا جھلستا ساتھ تھا کوئی پل دو پل کی بات نہیں ۔بس ابھی دو پیارے پیارے فرشتے اس عارضی پڑاؤ پہ پہنچا گئے ہیں ۔ کیا بتاؤں جگر بڑا طویل سفر اور ظالم حساب کتاب تھا جانے کتنا سمے بیتا دربار خاص میں کچھ اندازہ نہیں، لگتا ہے ازل سے وہیں کھڑے تھے۔ یہاں وقت کا پیمانہ اور ہے وللہ عالم تمہارے جہان میں یگ بیتا یا صدی؟ہم نے کمر کھول لی ہے اب زرا اسباب و حواس ٹھکانے لگا لوں تو تمہیں شروع سے شرحِ غم میں شریک کروں کہ مجھے صرف کسی ایک ہی کو خط لکھنے کی اجازت خاص ملی ہے۔

بہت سے نام ذہن کے پردے پر ابھرے مگر دل نے تمہارے حق میں فیصلہ دیا کہ ایک تم ہی تو میرے ہمدم دیرینہ ہو، اب تم اسے میری وصیت ہی سمجھنا ۔ کیا بتاؤں میاں جینے کی ہوس ایسی کہ" آخری دموں بھی نہیں نہیں"بھلا خوشی سے کون مرنا چاہتا ہے؟بلکہ میرا تجربہ تو کہتا ہے کہ جینے کی امنگ اور للک بڑھاپے سے زیادہ کسی اور عہد میں ہوتی بھی نہیں ۔ جب آپ زندگی کو جاننے اور سمجھنے لگتے ہیں اور اسے کسی بخیل کی طرح سنبھال سنبھال کر برتنا شروع کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ لو پکچر تو اب قریب الختم ہے میرے دوست جوانی میں تو انسان زندگی کو بے دریغ ضائع کرتا ہے جیسے شمع کے دونوں سروں کو ایک ساتھ روشن کر دیا گیا ہو سچ ہے کہ نعمتوں کی افراط ان کی اہمیت کو کم کر دیتی ہے۔

لو اب جگر تھام کے میری روداد سفر سنو،تم سے بچھڑ کر ایک طویل سفر تھا، مانو کوئی سرنگ تھی جو اوپر ہی اوپر اٹھتی جا رہی ہو اور پھر ایک دربار اعلیٰ میں پیشی ہوئی اس دربار کی شان اور وسعت بیان کرنے سے یہ کمترین زبان قاصر ہے۔اللہ اللہ ،کیا بتاؤں وہاں کیسے کیسے انکشافات ہوئے اور ابہام رفع ہوئے اور یہیں میرے علم میں یہ بات بھی آئی کہ تم باوجود میرے ہمزاد ہونے کہ میرے کچھ معاملات سے بےخبر تھے۔ ارے میاں عمل تو چھوڑو اس کتاب میں تو گمان تک درج تھے ایسی ظالم و ضخیم کتاب کہ الاماں الاماں ۔

وہ جو میرے سارے عطیات تھے نا پانچ ہندسوں والے جن پر میں دنیا میں بہت اترایا پھرا کرتا تھا، جیسے تمام خدائی پر احسان کر دیا ہو، وہ ہی شوکت خانم، SUIT، ایدھی اور تقی عثمانی صاحب کے مدرسے والے چندے، یقین کرو دوست وہ سارے کے سارے صفر ٹھہرے، ندا تھی کہ تم دنیا میں ان کے بل بوتے پر اترا لیے، بگلا بھگت بن کر دنیا کی داد سمیٹ لی سو اب یہاں ان نیکیوں کا صلہ کچھ نہیں کہ اخلاص نہیں تو جزا نہیں افسوس صد افسوس کہ میری نیکیوں کے بورے میں سوراخ ہو گیا اور میں لاعلم رہا تمہیں بتاؤں جزا کس بات پر ملی۔

ایک رات باہر ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا کہ ریسٹورنٹ کی کھڑکی سے ایک مفلوک الحال شخص نظر آیا پر میں ذہنی طور پر اپنے کاروبار کے اعداد و شمار میں الجھا تھا سو اس غریب کو کیا خاک اہمیت دیتا،کھا کر ڈکارتا ہوا ریسٹورنٹ سے نکلتا چلا گیا۔ راستے میں جانے کیوں یہ خیال آیا کہ وہ شاید بھوکا تھا اسے کھانا کیوں نہ کھلا دوں، بس گاڑی واپس موڑ لی اور دوبارہ ریسٹورنٹ پہنچا مگر وہ شخص بہت ڈھونڈنے پر بھی کہیں نہیں ملا اور یہ واقعہ میرا پچھتاوا بن گیا اور پھر جانے کیسے یہ میرا معمول ہو گیا کہ کہیں بھی باہر کھانا کھانے کے بعد ایک آدمی کا کھانا پارسل بنوا لیتا اور جو بھی پہلا سائل ملتا وہ کھانا اس کا مقدر ہوتا،یہ مونگ کے دانے جتنا عمل اس مالک عالمین کو بھا گیا کہ اس پچھتاوے میں اخلاص تھا۔

تمہیں بتاؤں جگر وہ اتنا علیم و خبیر ہے کہ نگاہوں کی خیانت تو بہت بڑی بات جو خیال ابھی ذہن میں پوری طرح پنپتا بھی نہیں وہ ان کا بھی محرم و آشنا ہے۔ارے یاروہی تین تلوار والا incidentہاں ہاں تم ٹھیک سمجھے وہی خوبرو خانہ بدوش گڑوی بجاتی حسینہ جو تین تلوار کی چورنگی پر ٹریفک جام اور حادثے کا باعث ہوا کرتی تھی۔اشارے کی سرخ بتی پر میں حسب معمول اس کی دید سے اپنی آنکھوں کو سیراب کر رہا تھا کہ قریبی مسجد سے عصر کی اذان بلند ہوئی اور بے اختیار میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میری آنکھیں جھک گئ، میں نہیں جانتا کیوں مگر بلا ارادہ ہی میں نے وہاں سے ذرا آگے گاڑی پارک کر کے گلف مارکیٹ سے دو چادریں مول لیں اس لڑکی کو دے دی ۔

میں آج تک اپنے اس عمل پر حیران ہوں، تم تو جانتے ہی ہو میں سدا کا نظر باز اور ٹھرکی ٹھہرا ، خیر کم تو تم بھی نہیں تھے اس سارے واقعے سے تم یوں لاعلم رہے کہ عین اسی وقت تمہاری نظروں کا مرکز مس برگر تھیں ۔دیکھاہمزاد ہونے کے باوجود ہم دونوں کبھی کبھار ایک دوسرے کو غچہ دے جایا کرتے تھےسب سے سخت حساب کتاب گھر کی خواتین کے آنسوؤں کا تھا۔ میاں اس صنف نازک کے معاملے میں بہت ہشیار باش کہ یہ رب کریم کو عزیز تر ہیں بلکہ سچ پوچھو تو ، ہر محکوم و بےبس اس کو بہت محبوب یہاں زوجہ محترمہ نے مجھے بڑا سخت وقت دیا۔

جو فرشتے میری فرد جرم پڑھ رہے تھے ان کو برابر لقمہ دیئے جا رہی تھیں جبکہ اس ضخیم کتاب میں میرے متعلق کامہ، فل اسٹاپ تک درج تھا۔ شروع میں تو میں نے کمزور یادداشت کا بہانہ گھڑنے کی کوشش اور ثقل سماعت کا عذر بھی پیش کیا مگر جناب من وہاں ہر عذر، عذر لنگ ہی رہا اور میں نے جلدی ہی جان لیا کہ اعتراف ہی میں خلاصی ہے۔دنیا میں تو زوجہ بالکل گونگی تھیں بس سر کے اشارے سے بولتی اور آنکھوں کے کنائے سے سنتی سمجھتی تھیں ۔ یہاں تو یک دم پینترا ہی بدل لیا پر جو سچ کہوں تو میں حیران کم مگر شرمندہ زیادہ تھا ۔ مجھے اس دنیا میں بھی کبھی کبھی یہ احساس ستاتا تھا کہ میں انجم کے ساتھ زیادتی کر رہا ہوں مگر ہر خطبے اور درس میں قوام قوام سن کر اور مرد کے بلند درجے کی فضیلت جان کر سینہ چوڑا کرتا رہا اور سر میں تکبر کا خناس سماتا رہا۔

یہ بنیادی نکتہ تو بالکل بھول ہی گیا کہ عہدہ بڑا تو ذمہ داری بھاری بھی اور ظرف کے پیمانے کی وسعت کی متقاضی بھی،ہائے جگر میرا بڑا نقصان ہو گیامیں تمہیں کیا بتاؤں کہ میں اس دربار اعلیٰ کے بھرے مجمع میں کس قدر شرمندہ ہوا جب مجھ سے اس واقعے کے متعلق باز برس ہوئی،یاد آئی برسات کی وہ بھیگی مدھ ماتی شام؟وہ برسات کی پہلی رم جھم کی جھمجھماتی شام تھی اور میرے سسر بڑی خوشی خوشی اپنی نیلی کلٹس میں اپنی بیٹی کے لیے سموسہ اور جلیبی لیکر آئے تھے۔ میں جب گھر پہنچا تو اپنی برینڈ نیو چاکلیٹی ہنڈا اکورڈ کے آگے ان کی نیلی کلٹس اس قدر بوسیدہ لگی کہ حد نہیں اور میرے اندر ہی اندر رعونت کا سانپ پھن پھیلا کر لہریں لینے لگا۔

جب میں ڈرائینگ روم میں پہنچا تو وہ کھلکھلاتے ہوئے شاپر سے سامان نکال کر پلیٹ میں سجاتے ہوئے جلیبی کا ٹکڑا اپنی بیٹی کے منہ میں رکھ رہے تھےجانے مجھے کیا ہوا؟ انجم کا چہکنا چہچہانا برا لگا یا کچھ اور میں سمجھنے سے قاصر ہوں؟ میں نے بڑے کڑوے لہجے اور بگڑے تیور کے ساتھ انہیں مخاطب کیا کہ آپ یہ سب کیوں لائے ہیں؟آپ کے خیال میں کیا میں آپ کی بیٹی کو یہ سب کھلا نہیں سکتا؟افورڈ نہیں کر سکتا؟آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں نے آپ کی بیٹی کو بہت اعلیٰ لائف اسٹائل دیا ہے ۔ یہ اب برینڈڈ چیزیں استعمال کرتی ہے وہ کچھ اب اس کی دسترس میں ہے جو اس نے آپ کے گھر میں رہتے ہوئے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔

میرے سسر کا چہرہ فق ہو گیا اور وہ صفائی دینے کی کوشش میں ہکلا کر رہ گئے۔ انجم دو دن تک گلابی آنکھیں لیکر پھرتی رہی نہ پوچھ میرے بھائی کہ یہاں مجھےمیرے خسر کے چٹے سفید سر کی بےبسی اور انجم کی روتی آنکھیں کس قدر مہنگی پڑیں ہیں ۔ یقین کرو میری ایک چوتھائی نیکیاں ان دونوں کے کھاتے میں ڈال دی گئی، سوچو میں حشر کے دن خطبہ حج الوداع کے ہوتے ہوئے شافعی محشر کا سامنا کیسے کروں گا؟ اس خطبے میں آپ ﷺ نے صاف صاف فرما دیا تھا کہ"لوگو،اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو "میں قرآن شریف میں سورہ مجادلہ کی موجودگی کیسے فراموش کر بیٹھا اور اللہ تعالیٰ سے کیوں کر بے خوف ہوگیا تھا؟

کیسے بھولا کہ اس مشفق رب کو اپنی یہ کمزور مخلوق بہت عزیز ہے،میں تمہیں آگاہ کر رہا ہوں جگر کہ اس صنف کے حقوق کے متعلق بہت چوکنا اور محتاط رہنا۔ارے ایک دلچسپ بات تو تمہیں بتائی ہی نہیں یہاں کی کرنسی نہ تو ریال ہے نہ پونڈ اور نہ ہی ڈالریہاں معاملات طے ہوتے ہیں نیکی اور بدی سے،اگر دنیا میں، میں نے کسی پر ظلم ڈھایا تو یہاں مظلوم میری نیکیوں کا حقدار قرار پائے گا اور اگر خدانخواستہ ظالم کے کھاتے میں کوئی نیکی نہیں بچی تو اس صورت میں وہ مظلوم کے گناہوں کا وبال بھی بھگتے گا،یہاں سارا معاملہ ہی نقد ہے ۔

جب میری ان جان لیوا سوال و جواب سے خلاصی ہوئی تو دو خوبرو فرشتے مجھے مبارک باد دیتے ہوئے برزخ کے کیبن نمبر 70 میں لے آئےان میں سے ایک جو نسبتاً کم عمر اور یوسف ثانی تھا اس سے میں ناک کی لونگ کا اشارہ کرتے ہوئے حو ر کی بابت دریافت کیا؟وہ خوبرو ایسا معصوم کہ اس مخصوص اشارے سے ہی نا آشنا، ہماری دنیا میں تو ہر نوجوان ستر کلومیٹر دور سے بھی اس اشارے کو سمجھ جایا کرتا تھا۔ میں نے ذرا کھل کر کہا کہ برخوردار وہ ستر حوریں کہاں ہیں جن کے قصیدے سننے کے لیے میں جمعہ پڑھنے جایا کرتا تھا۔ فرشتہ بہت ہنسا کہنے لگا بابا دلی ہنوز دور است ابھی تو اس پاک پروردگار کی مہربانی سے آپ نے صرف پریلمنری امتحان پاس کیا ہے اور علیین میں نام لکھوانے کے باعث بروز قیامت تک برزخ ڈیلکس کے مکین ہوئے ہیں ۔

جنت کا فیصلہ تو حشر کے بعد ہو گا۔ جنت ملی تو جنت کی مکین حوریں بھی ملیں گی مگر ان ستر حوروں کی کمانڈنگ آفیسر آپ کی بیگم انجم آرا ہی ہوں گی،ہائے میرا تو دل ہی چھن سے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا کہ پھر سے" انجم آرا"۔اس جمال افروز نے میرا اترا چہرہ دیکھا تو تسلی دیتے ہوئے یہ جاں فزا پیغام دیا، کہ فکر نہ کریں بابا جی جنت میں آپ دونوں ایک دوسرے کے لیے" کسٹم میڈ" ہوں گے، تب کہیں جا کر جی ٹھہرا اور دل کی دھڑکن اعتدال پزیر ہوئی لو میاں ہمزاد اس نوید نو کے ساتھ ہم تم سے اجازت لیتے ہیں کہ یہ خط مہر لگا کر اسی یوسف ثانی کے حوالے کر دوں کہ یہی اس وصیت نامے کو سپرد ڈاک کرنے کےذمہ دار ہیں ۔

ہم اب حشر تک لمبی تان کے سوتے ہیں ،تمہیں سپرد خدا کیا

فقط

تمہارا خیر خواہ

ابن آدم۔

Check Also

Urdu Adab Mein Nisai Adab Ki Ahmiyat o Afadiat

By Dr. Uzma Noreen