Aadmi Ko Chahiye Waqt Se Dar Kar Rahe
آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج، وقت، کہنے کو تو تین حرفی لفظ مگر اپنے اندر کائنات کی وسعتوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ وقت گزرنے پر آئے تو پل سے بھی مختصر اور جو ٹھہر جائے تو صدیوں کی خبر لائے۔ خوشیوں کے پل پلک جھپکتے اڑنچھو اور مشکل وقت دل پہ ایسا بوجھ جس میں سانس سانس آزار۔ وقت کی بہترین صفت کہ جیسا کیسا بھی ہو، بہر حال گزر ہی جاتا ہے۔
وقت کی جادو گری یہ بھی کہ وہ ہر جہان میں موجود مگر رفتار مختلف۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو اپنی حکمت کے مطابق عمر کا مختلف پیمانہ عطا فرمایا ہے، مگر اس کا احسان عظیم کہ ہر شخص کو یکساں طور پر دن کے چوبیس گھنٹے، 1440 منٹ یا 86400 سیکنڈ میسر ہیں۔ اب یہ ہر انسان کی صواب دید پر منحصر ہے کہ وہ دیے گئے، ان چوبیس گھنٹوں کو کیسے استعمال کرتا ہے۔
دنیا آخرت کی کھیتی ہی نہیں بلکہ میدان عمل بھی ہے۔ ہم جس امر کی کوششوں میں مبتلا ہوں گے یا جس عمل کی سعی میں اپنی جانوں کو کھپائیں گے ویسا ہی نتیجہ دار فانی و دار باقی میں حاصل ہو گا۔ دنیا میں کیا گیا خیر صرف ہماری دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت بھی سنوارتا ہے۔ انسانی زندگی میں وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی ہوئی گراں قدر نعمت ہے۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے زندگی کا بیش بہا سبق ایک برف فروش سے سیکھا۔ وہ آواز لگا رہا تھا کہ، اے لوگو مجھ پر رحم کرو میرا سرمایہ تھوڑا تھوڑا گھل رہا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاتھوں سے ہماری متاع عزیز یعنی " وقت " منٹ اور سیکنڈ میں ڈھلتے ہوئے تحلیل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وقت کی بہترین تفسیر سورہ عصر ہے۔ یعنی اس زمانہ محبوب کی قسم، بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے۔
مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔ اس مختصر سورت میں زندگی کرنے کا پورا طریقہ سلیقہ سکھا دیا گیا ہے۔ حدیث نبوی جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ وقت پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے، میں ایک نوپید مخلوق ہوں اور تیرے عمل پر شاہد بھی۔ مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہو تو کر لے کہ میں قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔
ضائع شدہ وقت وہ قیمتی ترین دولت جیسے بے صرفہ لٹا دیا گیا ہو اور اب وہ دنیا جہان کی ساری دولت لٹا کر بھی وآپس حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا گزرتا وقت دراصل ہماری زندگی ہے، وہ قیمتی اور نایاب زندگی جو محض چند محدود گھڑیوں کا شمار ہے اور گزری گھڑیاں زندگی سے منہا ہوتی چلی جاتی ہیں۔
وقت کی سعی مسلسل کارگر ہوتی گئی
زندگی لحظہ لحظہ مختصر ہوتی گئی
اسرار الحق مجاز، وقت اللہ تعالیٰ کا بیش قیمت اور نایاب ترین تحفہ ہے، اگر اس کی اہمیت جاننی ہو تو انٹینسو یونٹ ICU کا ایک پھیرا ہی کافی ہوتا ہے، جہاں سانسوں کو سسکتی ہوئی زندگی بس ایک معجزے کے لیے بلکتی ہے۔ وقت کی قیمت اس طالب علم سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ جو تین سو پینسٹھ دنوں کی جان توڑ محنت کے بعد بروقت امتحانی مرکز نہ پہنچ سکے، یقیناً اس کی کربناکی و ناکامی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
وقت کی اہمیت کی گواہی اس بے بس انسان سے بہتر اور کون دے سکتا ہے۔ جو مہینے بھر کی مشقت کے بعد تنخواہ نہ ملنے کی صورت میں حسرت و یاس کی تصویر بنا خالی جیب لے کر گھر کو لوٹتا ہے۔ ایسا کٹھن وقت جس میں اپنا قدم ہی اپنا بوجھ سہارنے سے انکاری ہو جائے اور روح و جسم صدمے سے شدید بوجھل۔ سیکنڈ، سیکنڈ بھی بے حد قیمتی، یہ ہم تب جان پاتے ہیں۔
جب بھاگتے قدموں اور پھولی سانسوں کے ساتھ ائیر پورٹ پہنچیں اور پتا چلے کہ بورڈنگ تو بند ہو چکی۔ وقت کی آزمائش کا شاہد وہ بے بس کسان، جس کی مہینوں کی محنتوں کو سیلاب بہا لے جائے۔ ہمارا پل پل قیمتی جواہرات سے بھی مہنگا اور انمول کہ
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
میر حسن
کسی بھی کامیاب آدمی کی سوانح حیات اٹھا کر پڑھ لیجیے، تمام کامیاب افراد میں دو باتیں یقینی طور پر کامن ملے گی، ایک، وقت کی پابندی اور دوسری کوشش پیہم، مقدر کا سکندر وہی جس نے وقت کی راسیں اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ قومیں وہی کامیاب جنہوں نے وقت کی اہمیت و رفتار کو جان لیا اور اس متحرک جن کو اپنے تابع کر لیا۔ مغرب میں وقت کی سرمایہ کاری عام ہے۔
اس کے لیے" بینک ٹائم " کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی آپ اپنے دفتر میں اضافی گھنٹے بلا معاوضہ کام کیجیے۔ وہ اضافی گھنٹے جمع ہوتے جائیں گے اور آپ جب چاہیں، ان اضافی گھنٹوں کے بدلے کام سے چھٹی لے سکتے یا پھر ان اضافی گھنٹوں کی اجرت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن بیشتر کمپنیاں اجرت کے بجائے چھٹی دینا ہی پسند کرتی ہیں۔
آج کل رفاہی سیکٹر میں بینک ٹائم کا خیال بہت مقبول ہے۔ اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ جوانی میں آدمی کسی بیمار شخص کی تیمارداری یا کسی انجان بزرگ کی رضاکارانہ طور پر دیکھ بھال کرے۔ کی گئی خدمت کے وہ تمام اوقات اس شخص کے وقت کے کھاتے میں جمع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اب اس شخص کے اپنے بڑھاپے میں یا اس کی بیماری کی صورت میں اس کی دیکھ بھال پر حکومت کی طرف سے کسی شخص کو۔
اس کی تیمارداری پر مامور کر دیا جاتا ہے۔ جو بنا کسی اجرت کے اس کی خبر گیری و خدمت کرتا ہے۔ اس طرح وہ وقت جو اس نے اپنے شباب میں کسی کی خدمت میں صرف کیا تھا، وہ وقت اس کی پیری و کمزوری کے کٹھن وقت میں اسے لوٹایا جاتا ہے۔ یعنی وقت کا کھرا سودا۔ کسی نے اگر اس جمع شدہ وقت کو خود استعمال نہیں کیا تو وہ کسی کو تحفتاً بھی دے سکتا ہے۔
وقت ایک قیمتی متاع ہے اور اسے متاعِ جاں ہی رہنا چاہیے، کہ وقت وہ بیش بہا سرمایہ ہے۔ جو ہم اپنے بچوں میں انوسٹ کرتے ہیں تا کہ ایک اچھی نسل تیار کر سکیں۔ اس دور پر آشوب کی بہترین خدمت ایک عمدہ نسل کی پرورش ہی کہ دنیا کو اس وقت دردمندوں کی سخت ضرورت ہے۔ سو وقت کو عزیز رکھیں اور اس کا بہترین استعمال کیجیے کہ یہ قدرت کا بنی نوع انسان کو ودیعت کردہ انمول و نایاب تحفہ ہے۔
ہم وقت کی قدر اور اس کا مثبت استعمال کر کے ہی اس کا حق ادا کر سکتے ہیں کیونکہ
تم چلو اس کے ساتھ یا نہ چلو
پاؤں رکتے نہیں زمانے کے
اپنوں کو دیا گیا وقت اور ان کے ساتھ بتایا ہوا پل ہی اس زندگی کا حاصل ہیں۔