Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. 56 Benz (2)

56 Benz (2)

چھپن بینز (2)

نتیجتاً دو سالہ ازدواجی سفر کا حاصل محض آبلہ پائی ہی رہا۔ محبت کا سارا حساب کتاب ہی شنیہ بٹا شنیہ، چٹا صفر ہوگیا۔ خاندان میں رنجشیں بڑھیں اور ان سب باتوں سے گھبرا کر ملکہ کینیڈا آ گئیں۔ یہاں آکر مزید تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی میں ان کی ملاقات اپنے سینیئر رحمان چودھری ہوئی۔ چودھری صاحب ان کی نیلی آنکھوں میں ایسا ڈوبے کہ ابھر ہی نہ سکے۔ یہیں ٹورانٹو میں ان دونوں کی شادی ہوئی۔ چودھری صاحب کے خاندان کی قدیم رسم کے مطابق ہر آنے والی دلہن کو خطاب سے نوازا جاتا تھا سو نیلم کو "ملکہ" خطاب دیا گیا۔ اس جوڑے کا ایک بیٹا اور بیٹی جو اپنے اپنے گھروں میں ہنسی خوشی بس رہے تھے۔

یہ ہے ملکہ یعنی مسز رحمان چودھری کی مختصر کہانی، جو ان کے اِس شہر میں وارد ہونے سے قبل ہی کیفے اور تاش کی بازیوں کے دوران پورے شہر میں گردش کر چکی تھی۔ ملکہ بہت لیے دئیے رہتیں اور یقیناً اسم بامسمی بھی تھیں۔ ان کی کچھ دوستیں انہیں کوئین بھی کہتی مگر جو دبدبہ ملکہ میں ہے وہ بھلا کوئین میں کہاں؟

جلد ہی گیتی اور ملکہ کی گہری چھنے لگی۔ مجھے قدرے حیرت تھی کہ دونوں ہی بہت کم گو مگر شاید دونوں کی فریکوئنسی میچ کر گئی تھی۔ ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن تھے۔ مہینے دو مہینے پر کسی کے گھر محفل سجتی اور سب سے میل ملاقات ہو جاتی۔ ابھی سال پیچھے رحمان چودھری چل بسے، رات بھلے چنگے سوئے پر صبح اٹھے ہی نہیں۔ زندگی شاید اتنی ہی بے اعتبار و بے مروت ہوتی ہے۔ یہاں پردیس میں غیر ہی اپنے سو ہندوستانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں نے رحمان صاحب کے بیٹے اور داماد کے ساتھ مل کر انہیں ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچا دیا۔ ان کی زندگی کا باب تو بند ہوا، جانے وہ پانچ فٹ زمین کے نیچے سکون سے تھے یا بےکل؟

پر زمین کے اوپر ان کے بیٹے اور داماد میں جائداد کے قضیے میں وہ مچّٹا مچا کہ الاماں الاماں۔ ان حالات میں مسز رحمان نے قانونی مدد کے سلسلے میں مجھ سے رجوع کیا اور اس طرح میرا ان سے ربط ضبط بڑھا۔ جائداد کا ٹنٹا سمیٹتے ہی بیٹا، داماد ملکہ سے دست کش ہوئے۔ ملکہ کے حصے گھر اور کچھ کیش آیا۔ ہمارے دور کی محرومی یہ ہے کہ اب نہ اصلی غذا اور نہ ہی اصیل جزبے۔ برق رفتار وقت اتنا تیزی سے منظر نامہ بدلتا ہے کہ انسان سن سا ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی مصداق کھڑے کا کھڑا رہ جاتا ہے۔ وقت کی بے ثباتی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور اپنی روح پر جھیلتا ہے۔

میری نیاری بینز چھپن، ملکہ کا دکھ بٹانے کے لیے ان سے اور زیادہ قریب ہوگئی تھی۔ میرا اور ملکہ کا آمنا سامنا شاز ہی ہوتا کہ یہ آوت جاوت میرے دفتر ہوتے ہوئے ہی نپٹا لی جاتی تھی۔

ہم دونوں میاں بیوی اپنی ٹرپ کے سلسلے میں بہت پرجوش تھے کہ یکایک دنیا جیسے اپنے مدار پر ساکن ہوگئی۔ ایک ننھے منے سے جرثومے نے سرپٹ بھاگتی دوڑتی، ہنستی کھیلتی دنیا کی راسیں کھینچ لی اور اس جرثومے کے زہر سے لاکھوں انسانی جان تلف ہوئی۔ زندگی ٹھہر سی گئی اور انسان، انسان سے بھاگنے لگا، منہ چھپانے لگا۔ اس زمانے میں بس فون ہی ایک ذریعہ تھا ایک دوسرے کی خیر خبر سے آگہی کا۔ بوڑھے تنہا لوگ اپنی بیرونی کھڑکی پر، رنگین پلے کارڈ چسپاں کرکے اپنی خیریت کی خبر یا ضرورت کی اطلاع دیتے۔ عجیب وحشت ناک ظالم وقت تھا جو بہتوں کی متاعِ حیات چھین کر اپنے ساتھ لے گیا۔

ان دنوں ملکہ اپنی فیلیپینو میڈ کے ہاتھوں اکثر ہمارے گھر کھانے بھجوا دیا کرتی تھیں۔ وہ کھانا ہفتوں فرج میں پڑا رہنے کے بعد ڈسٹ بن کے نذر ہو جاتا۔ میں نے ملکہ کو سختی سے کھانا بھیجنے سے منع کر دیا۔

وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر

آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے

پھر کووڈ کی پابندیاں نرم ہوئیں اور زندگی کچھ کچھ اپنی پرانی ڈگر پر آنے لگی، کیفے اور شاپنگ مال کی رونق بحال ہوئی اور لوگ باگ بلبلا کر ابل پڑے۔ میرے گھر میں پھر سب کچھ نارمل ہوا ہی نہیں۔ گیتی تو پہلے ہی کم گو تھیں پر اب تو اپنی تھوڑی پر اپنی مخروطی انگلیوں سے مزین نرم و نازک ہاتھ رکھے بس خاموشی سے مجھے سنا کرتیں۔

ایک شام ملکہ ہماری طرف آئیں، وہ کچھ پزل سی تھیں۔ انہوں نے ادھر ادھر کی عام سی باتیں کی اور سائیڈ ٹیبل پر ایک لفافہ رکھ دیا اور رخصت کی طلبگار ہوئیں۔ میں نے حیرت سے چھپن بینز کو دیکھا؟ نہ ملکہ سے علیک سلیک اور نہ ہی کوئی چائے پانی کا اہتمام؟ بلکہ گیتی کے چہرے پر عجیب سی رنجیدگی تھی اور ملکہ بھی جدھر گیتی بیٹھی تھی ادھر دیکھنے سے دانستہ گریزاں۔ جب ملکہ رخصت ہوئیں تو میں نے لفافہ اٹھایا۔ ارے یہ موتیوں جیسی تحریر تو میری جنموں کی دیکھی بھالی ہے۔ خط کا متن پڑھتے ہی میں دھک سے رہ گیا مگر میرے کچھ بھی پوچھنے سے پہلے ہی گیتی کمرے سے جا چکی تھیں۔

ہفتے عشرے میں سارے معاملات طے پا گئے۔ ملکہ کی بس ایک ہی شرط تھی اور وہ شرط مجھے دل جان سے قبول بھی۔ مغرب کے بعد نکاح کی سادہ سی تقریب۔ ملکہ اور میری طرف سے ملا کر محض درجن بھر لوگ تھے۔ اس شام گیتی کی دھج دیکھنے والی تھی۔ ظالم نے آج پہنا بھی تو نارنجی رنگ تھا۔ کھانے کے بعد دوستوں نے رخصت لی۔ میں چاہا کہ بڑھ کر گیتی کو گلے لگا لوں مگر وہ تیزی سے میرے قریب سے نکلتی چلی گئی۔

ہم دونوں وسیع ڈرائنگ روم میں تنہا رہ گئے۔ یہ ملکہ کا گھر تھا اور ملکہ کی یہی شرط تھی کہ وہ رخصت نہیں ہوں گی بلکہ مجھے ان کے گھر رہنا ہوگا۔ مجھے یہ شرط دل سے منظور کہ میں خود بھی گیتی کے گھر کسی اور چلتے پھرتے گوارا نہیں کر سکتا تھا۔

ملکہ نے کہا اب ہمیں آرام کرنا چاہیے اور اپنے بیڈروم کی طرف میری راہنمائی کی۔

ابھی میں پیر پسار کر آرام کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ ملکہ نے شیشے کے نفیس ٹرے میں سلیقے سے رکھے کٹ گلاس میں نیم گرم دودھ اور ساتھ ہی میری دوا سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔

میں نے ابرو اٹھا کر پوچھا

یہ بھی پتہ ہے!

ملکہ نے ہنستے ہوئے، مجھے موتی جیسی لکھائی میں تحریر کردہ کتابچہ لہرا کر دکھایا اور کہا بھئی آپ ہینڈل ودہ کئیر جو ٹھہرے، سو manual تو لازمی ہے۔

ملکہ چینج کرنے باتھ روم چلی گئیں اور میں حیرت سے سوچتا رہ گیا اس عمر میں بھی اس کے بال اس قدر خوب صورت!

ملکہ جب باتھ روم سے باہر آئیں تو قدرے خمیدہ اور بال چھدرے!

یا وحشت! میں سوچتا ہی رہ گیا کہ جاتے وقت تو چال میں بڑی تمکنت تھی پر واپسی میں پژمردگی اور ندھال کیوں؟

میں باتھ روم میں آیا تو سامنے ہی ڈمی پر ملکہ کی حسین وگ دھری تھی اور کھونٹی پر بیک بریسٹ بھی۔ مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی اور میں نے لمبی آسودہ سانس بھرتے ہوئے اپنی بتسی بیسن کے قریب رکھے گلاس میں سنبھال کر رکھ دی۔

ابھی میں باتھ روم سے نکل ہی رہا تھا کہ مجھے ٹب میں بیٹھی اپنی چھپن بینز نظر آئی۔

میں اس کے قریب چلا آیا اور ٹب کے پاس پڑے اسٹول پر بیٹھتے ہوئے اس سے بڑی بےچارگی سے پوچھا۔

تم میرے لیے اور کیا کیا کرو گی گیتی؟

تم تو جانتے ہو کہ تم میری زندگی ہو شاہ عالم! بس میں تو اپنی جند جان کی حفاظت کر رہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں میں کسی بھی روپ، کسی بھی صورت میں تمہارے قریب رہوں۔ تمہیں اپنی نظروں کے سامنے رکھوں مگر بد نصیبی دیکھو یہ ہو ہی نہیں سکتا، کسی بھی قیمت پر نہیں ہو سکتا میں وقت کی دیوار نہیں گرا سکتی شاہ۔

اس نے بےبسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔

شاہ جب مجھے کووڈ ہوا تھا تو تم نے اپنی جان کی پرواہ کب کی تھی؟ اس مرض کی ہولناکی جانتے بوجھتے بھی دن رات میری تیمارداری کی، میری پلنگ کی پٹی سے لگے رہے۔ جب آخری اسٹیج پر مجھے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تو وہاں بھی تم میرے ساتھ تھے۔ ہسپتال کا فراہم کردہ بھاری حفاظتی سوٹ پہنے مسلسل میرے سرہانے کھڑے رہے۔ ہم کب بچھڑنا چاہتے تھے شاہ مگر تقدیر تو اٹل ہوتی ہے اور شاید کٹھور بھی۔

گیتی بہت دلگیر تھی۔

ملکہ میری بہت اچھی سہیلی ہے شاہ۔ وہ دکھی بھی اور اکیلی بھی۔ میں نے ہی اس سے درخواست کی تھی کہ میرے بعد وہ تمہیں اپنا لے، سنبھال لے مگر تم نے بھی تو سنبھلتے سنبھلتے اتنا عرصہ لگا دیا۔ تمہاری ویرانی اور تنہائی مجھے بےقرار رکھتی ہے شاہ۔ میں تمہارے چکر میں کب سے بھٹک رہی ہوں، بے آرام ہوں۔

میرا دل چاہا کہ میں اسے گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر روؤں، ہائے میرے اختیار میں اس کی مسیحائی کا اعجاز بھی نہ تھا۔

ہم دونوں دیر تک روتے رہے پر ایک دوسرے کے آنسو پونچھنے سے قاصر۔ بےبسی سی بے بسی تھی۔

چلو اب تم جاؤ میں بھی چلتی ہوں۔ اس کی اداسی پور پور سے چھلک رہی تھی۔

اچھا یار بینز چھپن ایک بات تو بتاؤ جب تم اتنی مہربانی کر ہی رہیں تھیں تو کیا ضروری تھا کہ تم بی ایم ڈبلو کے چھپن ستاون کا ماڈل ہی چنو۔ یار میری ٹیسلا کا انتخاب کر لیتیں تو کیا برائی تھی!

میں نے ماحول کی رنجیدگی کو کم کرنے کے غرض سے ہنستے ہوئے اپنی چھپن چھری کو چھیڑا۔

تم مرد بھی نا سدا کے ناشکرے۔ بھلا بتاؤ کس بیوی کا اتنا جگرا ہوگا جو اپنے ہاتھوں سے سوت کو اپنا میاں سونپ کر جائے؟

اس نے جھلا کر کہا۔

پر یار ٹیسلا ہوتی تو کیا بات تھی، تم نے بھی نا چن کر چھپن ستاون کی بی ایم ڈبلو پکڑا دی ہے۔

میں نے ملکہ کی وگ لہراتے ہوئے ہنس کر کہا۔

زیادہ چملاؤ مت فورڈ ترپن کے ماڈل! تمہارے لیے تو ستاون کی بی ایم ڈبلو بھی بہت ہے۔

اس نے نم آنکھوں سے ہنستے ہوئے کہا۔

کمرے میں ملکہ کے مدھم خراٹے گونج رہے تھے۔ میں بھی آہستگی سے کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔ نیم غنودگی میں مجھے اپنی پیشانی پر ٹھنڈا نم لمس محسوس ہوا اور وہ مانوس مدھر خوشبو دھیرے دھیرے مدھم پڑتی چلی گئی۔

میری آنکھوں سے آنسو بہ کر تکیے میں جذب ہو گئے۔

الوداع میری گیتی!

الوداع میری چھپن بینز!

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib