Shaoor Ki Kami?
شعور کی کمی؟
حسبِ روایت سکہ بند، مجاور اشرافیہ دانشوران بلک بلک کر شائستگی، تہذیب اور ادب کو گلٹ Guilt کی گٹھڑی کی طرح لمز کے سوالات کرنے والے طلباء پر لاد رہے ہیں۔ میں نے بغور چار سے پانچ سوالات کو سنا۔ بڑی کوشش کے باوجود بھی مجھے بدتمیزی، بے ادبی یا شعور کی کمی محسوس نہ ہو سکی۔ سب سر، سر کہہ کر سوال کر رہے تھے۔
ایک طالب علم نے تاخیر سے آنے اور چرچ کے جلانے پر سوال کیا۔ بتائیں اس میں کیا شعور کی کمی تھی؟ دوسرے نے نوے دن میں الیکشن کے انعقاد پر استفسار کیا، تیسرے نے سوشل کنٹریکٹ، آئین پر نسبتاً طویل سوال کیا۔ ان سوالات میں شعور کی کونسی کمی ہے؟ یا کہاں پر بد تہذیبی ہوگئی؟ ہاں ایک دو سوال عامیانہ انداز میں تھے یا نسبتاً بچگانہ کہے جا سکتے ہیں مگر آخر کون عقل بند یہ توقع رکھتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ آکسفورڈ، ہارورڈ درجے کی جامعہ کے برابر کے سوالات ہوں؟ یہ اپنی تشنج کی دیرینہ تکلیف کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں۔
ایک سیاسی لیڈر کا آپ نام تک ٹی وی پر نہیں لے سکتے، بوٹ مافیا کے متعلق کھل کر کہنا مشکل ہو چکا، لاپتہ سیاسی کارکنوں کی تعداد سینکڑوں میں ہو چکی، ان پر پے در پے مقدمات ہزاروں میں، میڈیا، انٹرنیٹ پر گاہے بگاہے پابندی اور انسانی حقوق کی کھلی پامالی پر یہ مجاور شائستگی اور اخلاقیات کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دوسری قسم کے سیاہ فکر، سینہ کوبی کرتے ہوئے پھنکارتے چلے جاتے ہیں کہ پہلے بھی تو یہی ہوا تھا حالانکہ ان کے کالے افکار سفید جھوٹ ہیں۔ اپنے دور مظلومیت سے زیادہ نہیں سو دو سیاسی کارکنوں کی گرفتاری، گمشدگی اور چھاپے ہی دکھا دیں۔ لیکن چونکہ شکم میں کذب کی چربی کی موٹی تہہ کا غلبہ ہے تو سچ بھلا کیسے ہضم ہو سکتا ہے۔
مجھے چند گستاخیاں مزید کرنے دیں چونکہ مجھے کسی نے بھیجا کہ پیغمبرِ انسانیت نبی کریم محمد ﷺ کے انداز تبلیغ و اخلاق اور عظیم الشان نبی موسیٰؑ کی فرعون کے سامنے شائستگی کا بھی بطور مثال ذکر ہوا۔ مجھے ہمیشہ عجیب لگتا ہے کہ جب ہم ایک بات کسی بھی آسانی سے سمجھ میں آنے والی دلیل سے سمجھا سکتے ہیں تو وہاں قرآن، پیغمبر، اور سنت کی مثالیں فوراً ہی کیوں پیش کر دیتے ہیں؟ کیا ہم دوسرے کو مذہب، رسول، قرآن کے نام پر بلیک میل کرکے لاجواب کرنا چاہتے ہیں؟
دیکھیں کہ نبی کریم تو مکہ والوں کو پہلے ہی یہ نہیں کہتے کہ خدا ایک ہے اور میں اسکا رسول ایمان لاؤ، بلکہ وہ پہلے منطق، مشاہدے اور تجربہ کی دلیل آزماتے ہیں اور کفار کو اپنی امانت داری، سچائی کی گواہی کے لئے کہتے ہیں۔ موسیٰ کے غصے اور بے صبری کو خدا کو علم تھا اور قرآن یہ بات انکے ہاتھوں ایک قتل اور خضر (قرآن میں خضر کا نام نہیں لیا گیا) کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے واضح کرتا ہے۔ اس لئے اس پس منظر میں میری ناقص رائے کے مطابق مطابق انکو خاص تاکید کی گئی حالانکہ تبلیغ کا انداز تو ہمیشہ سے نرم خوئی کا ہی ہوتا ہے بھلا کون للکارنے کے انداز میں ایمان کی دعوت دیگا۔
یہاں پر کوئی تبلیغ نہیں کی جا رہی۔ ایک سوال و جواب پر مبنی مکالمہ تھا۔ سوالات میں اوپر مثالوں سے ظاہر ہے کہ مجموعی طور پر بدتمیزی کا عنصر تھا ہی نہیں اور اگر ہوتا تو بھی تو موسیٰؑ کے فرعون سے تبلیغ کا کوئی تعلق بنتا نہیں۔ یاد رہے کہ ابو جہل، ابو لعب کے القاب بھی دوران تبلیغ ہی کہے گئے چونکہ انکی دشمنی حدود سے تجاوز تھی وگر نہ مسیحیت کی فکرکے مطابق یہاں بھی مسلمانوں کو دوسرا گال پیش کرنے کو کہا جاتا۔ مگر اللہ نے ایسے لوگوں کو قابلِ عذاب کہا اور پیغمبر اکرم کا طرزِ عمل اسی مناسبت سے تھا۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے ادنی سیاسی خیالات کی تصدیق یا بڑائی کے لئے قرآن وہ سنت سے مثالیں پیش کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ ہاں جہاں سمجھا جائے کہ معاملہ خدا، رسول، عقیدے کا ہے یا مثال دیئے بغیر چارہ نہیں وہاں پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہئے۔
جرات انسانوں کے لئے ایک پسندیدہ صفت ہے اور خدا بھی ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنے والوں کو پسندیدہ رکھتا ہے۔ مجھے ہی نہیں میری عمر کے ہزاروں نوجوان کو عدنان کاکاخیل کی جرات سولہ سترہ برس قبل گزرنے کے باوجود بھی یاد ہے اور محبوب ہے۔ چاہے آج عدنان کاکا خیل کے جو بھی خیالات ہوں مگر انکی ہمت یاد رہے گی۔ ہمیں اس جرات کی داد دینی پڑے گی گو یہی ہمت ہمیں ایک عارضی وزیراعظم نہیں بلکہ اصلی "وزیراعظم "کے سامنے زیادہ دکھانی چاہئے اور اسکی مثالیں بھی ماضی میں موجود ہیں مگر انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
یہ کوئی حریت یا جرات کے استعارے نہیں ایک نارمل سے سادہ سے طالب علم اور اسی طرز کے بے ضرر سے سوالات تھے اگر اس پر بھی واویلا کیا جا رہا ہے تو آگے تصور کرنا مشکل نہیں۔ تب تک اسی پر گزارہ کریں۔