Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sanober Nazir
  4. Kitabon Ki Branded Dukane

Kitabon Ki Branded Dukane

کتابوں کی برانڈڈ دکانیں

کل سے سعید بک بینک پر دھواں دھار پوسٹیں چل رہی تھیں جس پر کل شام ہمارے کتاب دوست بھائی فیصل بزدار نے توجہ مبذول کروائی تو رات اسامہ خواجہ اور حسنین جمال کی پوسٹوں کو پڑھا اور ان کے نیچے کیے گئے کمنٹس بھی پڑھے کیونکہ دونوں محترم دوست بھی ہیں اور کتابیں پڑھنے کے شوقین بھی۔

سعید بک بینک ایک برانڈ ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ کھاڈی و سفائر، شاہین و ڈی واٹسن، شمس و عیسی جی یا گایا و میسو ریسٹورینٹ وغیرہ۔

یہ تمام مختلف نام دراصل مختلف کاروبار ہیں اور ایسے ایلیٹ برانڈز کی ملک میں قطعی کوئی کمی نہیں۔ لیکن ان میں ہم انھیں ہی ترجیح دیتے ہیں جن میں ہمارے کنزیومر رائٹس مجروع نہ ہو رہے ہوں۔

لیکن کتابوں کی برانڈڈ دکانیں کیوں قائم نہ رہ پائیں؟ ایک وقت تھا پاکستان میں کتابوں کی بھی کافی تعداد میں دکانیں ہوا کرتی تھیں اور بکا بھی کرتی تھیں۔ پھر دور بدلنے لگا اور محسوس ہوا کہ دنیا سے کتاب کلچر اب ختم ہوا کہ تب ہوا۔ فرق ضرور پڑا پر آج بھی دنیا میں کتابیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں چھپتی بھی ہیں اور بکتی بھی ہیں۔ لیکن پاکستان کو تو جیسے اس سنہری موقع کی تلاش تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے کتابوں کی دکانیں ختم ہونے لگیں۔ بچپن میں چار آنے والی گلی محلوں کی لائبریریوں کا چلن ختم ہوگیا۔ ریاستی سرپرستی کا حال ملاحظہ کیجیے کہ آج تک ایک اچھا کاغذ بنانے کی فیکٹری تک نہیں لگائی جا سکی اور آج بھی کاغذ بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے۔

سعید بک بینک بھی ایک کاروباری ادارہ ہے جو کوئی فی سبیل اللہ خدمات انجام نہیں دے رہا یا اسٹوڈینٹ اور غریبوں کو ڈسکاؤنٹ پر کتابیں نہیں بیچ رہا۔ بلکہ مارکیٹ سے کئی گنا زیادہ قیمت پر کتابیں آج سے نہیں بر سوں سے فروخت کر رہا ہے۔ مانا کہ ایک وسیع سیٹ آپ کو چلانے کے لیے مالکان کو یہ حربے استعمال کرنے پڑتے ہیں تو حضور ایک متوسط یا غریب گاہک کے بھی کچھ کنزیومر رائٹس ہیں۔ اگر سعید بک بینک ایک کاروبار ہے اور وہ زیادہ قیمت لینے کا مجاز ہے تو جناب والا خریدار کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے کنزیومر رائٹس کو بروئے کار لا کر ایسے کاروباری حربوں پر آواز اٹھائیں۔

جہاں تک بات نفرت کی آگ یا دکان کا بائیکاٹ وغیرہ کی ہے تو جناب کسی معمولی پوسٹ سے نہ کتاب کلچر ختم ہوا نہ کبھی ہو سکتا ہے۔ یاد ہوگا چند سال قبل کھادی نے عید سے کچھ روز قبل اپنے ملازمین کو بنا تنخواہ فارغ کر دیا تھا۔ کئی ماہ احتجاج بھی ہوا بائیکاٹ بھی رہا پھر راوی دوبارہ کھادی کھادی لکھنے لگا اور کئی آؤٹ لیٹس پہلے سے زیادہ شان و شوکت کے ساتھ تعمیر ہوگئے۔

دراصل جس طرح اسکول مالکان کو ہمارے ہہاں ایجوکیشنسٹ " سمجھا جاتا ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والوں کو بنا سوچے سمجھے پروفیسر کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ این جی اوز میں ایجوکیشن کے پروجیکٹس پر کام کرنے والے ایجوکیشنسٹ کہلوانا پسند کرتے ہیں اسی طرح شاید سعید بک بینک والوں کو بھی کتابوں کے آخری فرماں روا جتلایا جارہا ہے۔

کتاب سے دوری کتاب کی دکان یا اسکے مالکان کے رویے کی شکایات سے نہ پہلے کبھی بند ہوئیں نا اب بند ہو سکتی ہیں۔ ہاں البتہ کتابوں کی غیر معمولی قیمتیں عام آدمی کو کتاب کی پہنچ سے دور کرتی رہیں گیں۔ باقی اس چارٹ پر بھی نظر ڈال لیں۔

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar