Khabardar, Bhoolne Na Payen
خبردار، بھولنے نہ پائیں
کیا فلمیں دیکھتے ہوئے آپ بھی کچھ اس قسم کی کیفیات سے کبھی گزرے ہیں؟ جیسے کسی ولن یا ویمپ کے کردار دیکھ کر آپ کی نظروں کے سامنے ارد گرد منفی سوچ رکھنے والے افراد آجائیں! یا کسی رومانی سین پر آپ کے ذہن میں فوراً اس انسان کی شبیہ ابھر آئے جس سے آپ محبت کرتے ہیں!
یا اکثر کسی مزاحیہ سین پر آپ کو اپنا کوئی دوست یا کزن یاد آگیا ہو جو ایسے چٹکلے چھوڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یا کسی ٹریجڈی سین دیکھتے ہوئے آپ کا دل پسیج اور گلا رندھ جائے اور آپ کی آنکھیں بنا برسات کے ساون کا روپ دھار لیں۔
ہم سب فلموں میں ایسے منفی، رومانوی اور مزاح سے بھرپور سین دیکھ کر اپنے جذبات کی رو میں کچھ اس طرح بہے چلے جاتے ہیں کہ جیسے کہ وہ واقعات ہمارے ہی ساتھ رونما ہو رہے ہوں۔
اسی لیے فلم ایک ایسے میڈیم کے طور پر جانا جاتا ہے جو بڑی آسانی سے انسان کے جذبات سے کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس پر مستزاد اگر فلم کسی اچھے اسکرپٹ، دل کو چھو لینے والی اداکاری اور بہترین ہدایتکاری پر مبنی ہو تو کیا ہی کہنے۔
فلمیں ہمیشہ سے لوگوں کی ذہن سازی کرنے اور ان کی نفسیات پر ایک گہرا اثر چھوڑنے میں بے حد معاون رہی ہیں۔ اس رجحان میں سوشل میڈیا کے بعد مزید تیزی آئی۔ کیونکہ لاتعداد ویب سائٹس نے لوگوں کو گھر بیٹھے ہی فلمیں یا اعلی پایہ کی سیریز دکھانے کا اہتمام کر دیا ہے۔ بہرحال سنیما میں فلم دیکھنے کا آج بھی اپنا ہی مزا ہے۔
لیکن کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ رومانوی، تھرلر، ہارر، مزاحیہ، ایکشن، ڈرامہ اور پیریڈ ڈرامہ فلموں کے علاوہ نہ جانے ہم کتنی ایسی فلمیں بھی دیکھتے ہیں جو بطور خاص "پروپیگینڈا فلمیں" کہلاتی ہیں۔
جیسا کہ پچھلے چند برسوں میں پاکستانی اور انڈین سنیما نے متواتر ایسی پروپیگینڈا فلمیں پرڈیوس کیں لیکن بڑے ہی بھونڈے انداز میں۔
ایسی فلمیں بنانے میں ہالی وڈ اور یورپین سنیما کو ملکہ حاصل ہے اور کیوں نہ ہو۔۔ ٹیکنالوجی ان کے گھر کی باندی جو ٹہری، مالی ذرائع کی ان کے پاس فراوانی، تجربہ کار عملے کی رہنمائی اور پھر بہترین حکمت عملی میں بھی ان کا طوطی بولتا ہے۔
جن موضوعات پر بے تحاشہ فلمیں بنیں ان کی چند مثالیں تو انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں، جن میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی کہانیاں، سرد جنگ کا دور لیکن ان سب پر بھاری ہولو کاسٹ ہے۔
جتنے سبک، نفیس اور غیر واضح انداز سے اب تک سینکڑوں ہولوکوسٹ پر فلمیں پرڈیوس کی جا چکی ہیں غالباً کسی اور سانحہ یا المیہ پر نہیں کی گئی ہیں۔ ان میں سے بیشتر فلموں کے ٹریلر یا نام سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ وار فلم ہیں یا ہولوکاسٹ کے سانحے کو اجاگر کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
"دی ریڈر" دیکھ لیجیے یا "گلومی سنڈے" یا "سوفیز چوائس" کہنے کو یہ صرف تین مثالیں ہیں ورنہ ایسی فلموں کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں فلم دیکھتے ہوئے محسوس ہوگا کہ ایک اچھوتی محبت کی داستان ہے اور پھر فلم کا اختتام ایک دل کو چھو لینے، اعصاب جھنجھوڑ دینے اور آنکھوں کو نم کر دینے والے ہولوکاسٹ سے وابستہ ایک واقعہ پر ہوتا ہے۔ اسی طرح فیملی ڈرامہ لائف از بیوٹی فل، دی پیانسٹ، ون لائف، شنڈلرز لسٹ اور اس جیسی بے شمار فلمیں ہیں جن میں کہانی ایک گھرانے یا ایک فرد کی تباہی پر مبنی ہوتی ہے اور پھر آگے چل کر ہولوکاسٹ اور یہودیوں سے تعلق نکلتا ہے۔ جہاں ایسی غیر واضح یا سَٹل پیغام والی فلمیں ہر سال بنتی ہیں وہیں"نازی کیمپوں میں یہودیوں کے خلاف بدترین تشدد، نسل کشی" اور باقاعدہ ہولوکاسٹ کے بارے میں دو ٹوک موقف رکھنے والی ہزاروں فلمیں بھی موجود ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً ہر سال کم از کم چار پانچ فلمیں اس موضوع پر ضرور بنتی ہیں اکثر اوسکر ایوارڈ سے بھی نوازی جاتی ہیں اور دنیا بھر میں ہولوکاسٹ پھر سے زندہ ہو جاتا ہے۔ بظاہر فلم رومانوی، ایکشن، ڈرامہ، سسپینس نظر آتی ہیں لیکن کہانی کا مطمع نظر یہودیوں کے ساتھ بہیمانہ زیادتی ہوتا ہے۔
یہ امر شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اکتوبر 2023 تک ہولوکاسٹ یہودیت کے لیے ہی نہیں بلکہ تاریخ کا بھی ایک انسانی المیہ تھا جو بے حد سفاک تھا۔
لیکن انگریزی کے اس محاورے
"Out of sight, out of mind"
کے مصداق لگتا تو یہی ہے کہ جتنے تواتر سے اس موضوع پر فلمیں اور ڈاکیومینٹریز بنتی ہیں واضح محسوس ہوتا ہے کہ "بے شک ہولوکاسٹ سے کئی گنا بدترین بربریت کہیں اور رونما ہو رہی ہو لیکن خبردار دوسری جنگ عظیم کے ہولوکاسٹ کو بھولنے نہیں دینا ہے"۔
حیرت انگیز بات ہے کہ مئی 2023 سے اب تک ہولوکاسٹ پر تقریباً سینکڑوں ویب سیریز، فیچر فلمیں، دستاویزی فلمیں اور ڈاکیو ڈرامہ بنائی جا چکی ہیں جبکہ اس وقت ہولوکاسٹ سے زیادہ بھیانک اور تاریخ کی ناقابل یقین نسل کشی جیسا المیہ غزہ کے انسانوں پر ڈھایا جارہا ہے اور اس بار سفاکیت کا جھنڈا اسرائیل نے اٹھا رکھا ہے۔
الجزیرہ کی ایک اسٹڈی کے مطابق، فلسطین دنیا کے نقشے پر وہ خطہ ہے جہاں 9 ماہ میں تقریباً ایک لاکھ چھیاسی ہزار انسانوں کو ختم کیا جا چکا ہے جن میں 30 سے 35 ہزار بچے ہیں اور فلسطین اکیسویں صدی میں دنیا کا وہ بد نصیب خطہ ہے جہاں اسرائیل کی بربریت سے بچ جانے والا ہر بچہ جسم کے کسی نہ کسی عضو سے محروم ہے۔
میں ہولوکاسٹ سے متعلق"اب" کوئی بھی فلم دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ مغرب اور بالخصوص جرمنی نے یہودیوں کے خلاف اندوہناک جرائم کیے۔ انھیں اپنے علاقوں اور گھروں سے بے دخل کیا، طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ گیس چیمبرز میں انھیں دم گھٹ کر مرنے کے لیے چھوڑا کہ آج پچھتر سال بعد بھی سینکڑوں فلمیں ان خوفناک مظالم پر بن رہی ہیں اور ہم ہر فلم دیکھ کر لرز جاتے ہیں۔
اور اب "آئرن اسٹنگ، اسپائک فائر فلائی، اسپارک ڈرون" جیسے اکیسویں صدی کے جدید اور مہلک ترین ہتھیاروں سے فلسطینی باشندوں کی نسل کشی جاری ہے۔ غزہ ملیامیٹ کیا جا چکا ہے اور اب مغربی کنارے کے صدیوں پرانے باسیوں کو اسرائیلی آبادکار تشدد کا نشانہ بنا کر بے دخل کر رہے ہیں۔
تب ایک خیال آتا ہے کہ نہ جانے اگلی کتنی صدیوں تک فلسطین میں ہونے والے مظالم اور ہلاکتوں پر کیسی کیسی خوفناک فلمیں بنیں گیں کہ برسوں دنیا پر لرزہ طاری رہے گا۔ جس طرح یورپ اور بالخصوص جرمنی کے سر آج بھی دوسری جنگ عظیم کے ہولوکاسٹ پر شرم سے جھکے رہتے ہیں، نہ جانے فلسطینیوں کے ساتھ اس جاری بربریت پر پوری دنیا اپنا سر کبھی اٹھا بھی پائے گی؟
پھر اپنا سر جھٹک کر سوچتی ہوں کہ، شاید یہ ایک دیوانے کا ہی خیال ہو!
بہ شُکریہ: وی نیوز