Heera Mandi
ہیرا منڈی
بھنسالی جی کی "ہیرا منڈی" کی hype پتیلے میں چڑھے اس دودھ کی مانند ہے جو تیز آنچ پر اچانک ابل کر چولہے کی آنچ بھی بجھا دے اور بالائی بھی غارت ہو جائے۔ کئی دوست ہیرا منڈی کے بارے میں طرح طرح کی تاویلیں دے کر اسے ایک شاہکار قرار دے رہے ہیں۔ کچھ احباب ناک بھوں چڑھا کر کہہ رہے ہیں"جناب کاہے کا شاہکار؟
کوئی کہتا ہے کہ، اسے تاریخ سے مت جوڑیں تو کسی کا موقف ہے کہ، اگر یہ سیریز پیریڈ ٹرامہ ہے تو حقائق کو اس بری طرح مسخ کیوں کیا گیا۔
خیر جو بھی ہے سیریز دیکھی خوب جارہی ہے جہاں مداحین اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہیں ہیں وہیں ناقدین نے کہانی اور ہدیتکاری سے لے کر ادکاری، موسیقی کے معیار کی ٹُھکا کر بینڈ بھی بجا دی ہے، لیکن یہی جمہوریت کا حسن ہے اور یہی سماج کی رنگارنگی ہے۔
سیریز میں پرتعیش سیٹس، چٹا پٹی کے غراروں، کمخواب کے ملبوسات، ہیروئنوں کے چہروں سے بڑی بڑی نتھنیوں اور سر تا پیر زیوارات لادنے پر دو سو کروڑ کی لاگت آئی۔۔ مجھے تو یہ گھاٹے کا سودا لگتا ہے۔
پیریڈ ڈرامہ ظاہر ہے تاریخ کو فکشن کی صورت قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اگر تاریخ ہی کو توڑ کر مڑوڑ کر دکھایا جائے تو پھر یہ باقی تو سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن پیریڈ ڈرامہ ہرگز نہیں کہلائے گا۔
چلیں وہ سب بھی درگزر کہ لکھنؤ کا کلچر لاہور میں کہاں سے آن ٹپکا؟ یا سیریز والی ہیرا منڈی کی ساخت اصلیت سے میل نہیں کھاتی۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
فکشن میں کئی ردوبدل ممکن بھی ہیں اور کیے بھی جاتے ہیں لیکن جب آپ مخصوص علاقہ، دور، کہانی اور کلچر کو دکھانا چاہتے ہیں تو اس بارے میں ریسرچ بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ورنہ تو دل کے بہلانے کو، کئی اور genres موجود ہیں۔
ہیرا منڈی دیکھتے ہوئے کسی بھی کردار سے ہمدردی یا الفت چھو کر بھی نہ گزری۔ جس طرح ہیرا منڈی massive دکھائی گئی اداکاری بھی over exaggerated تھی۔
ہیرا منڈی دیکھنے کے بعد غلام عباس کی کہانی پر مبنی اور شیام بینگل کی ہدایتکاری میں بنی فلم "منڈی" دیکھی۔ پھر امراؤ جان اور پھر پاکیزہ دیکھی۔ یہ تینوں فلمیں بھی طوائفوں، ان کے کوٹھوں اور خریدار نوابوں کے ساتھ ساتھ طوائفوں میں شاعری کا ذوق، چالاکی و معصومیت کا امتزاج، ان دیکھے مسائل، کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ پوری ہیرا منڈی سیریز میں صرف دو گھٹیا اشعار سے کام چلایا گیا جنھیں شعر کہنے اور یہاں لکھنے کا حوصلہ تو مجھ میں نہیں۔۔ اس سے کئی اچھے اور بامعنی شعر تو ٹرک اور بسوں کے پیچھے لکھے نظر سے گز جاتے ہیں۔
کہانی گھسی پٹی ہے۔ لیکن کہانی کی قابل غور بات یہ کہ "جو آپس کی دشمنی سات قسطوں میں ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے والی کیفیت لیے ہوئے تھی اچانک سے آخری قسط میں ساری طوائفیں ایسی شیر و شکر ہوگئیں کہ لگا کہ پچھلی اقساط تک خود ان بے چاریوں کو بھی علم نہ تھا کہ بھنسالی جی اگلی آخری قسط میں سب عجلت میں مُکانا چاہتے ہیں۔
ایک گانا یا کلام ایسا نہیں جو کچھ دیر بھی سماعت میں ٹہرا ہو اور زیر لب گنگنایا ہو۔۔
ان آنکھوں کی مستی میں
چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا
دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجیے
انہی لوگوں نے لے لیا دوپٹہ میرا
ان گانوں کا صرف ایک مصرعہ سنیے تو پورا گانا آپ کے لبوں پر خود گنگنانے لگتا ہے۔
ریکھا کی سٹل ادائیں، آنکھوں کا استعمال، مینا کماری کی اداس نگاہیں اور پھر موسیقی، آواز اور رقص کہ آج بھی بار بار دیکھنے سننے کا من کرے۔
بات اگر ایک طوائف کی misery کی ہو تو ذرا دھیان میں لائیے
یہ کیا جگہ ہے دوستوں یہ کون سا دیار ہے
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
ان دونوں سین اور گانے میں کوئی واویلا نہیں، بین نہیں، لفاظی نہیں لیکن دیکھتے ہوئے آج بھی آنکھ اور دل بھر آتے ہیں۔ اس کے لیے میز پر گوروں کے آگے لیٹ جانا چہ معنی دارد؟
ایسے سین فلمانے کے لیے بھی esthetic sense یا جمالیاتی حس کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر ایک عام عورت طوائف کی فریاد پر رو پڑے تو سمجھیں محنت اور لاگت وصول ہوئی۔
لفظ"طوائف" سیریز میں کوئی پچاس بار استعمال ہوا۔ اس پر مجھے وہ چرسی والا لطیفہ یاد آگیا۔۔ بھنسالی جی نے طوائفوں کے ساتھ وہی ہاتھ کردیا جو چرسی کے ساتھ تبلیغیوں نے کیا تھا۔
جبکہ پاکیزہ، امراؤ جان اور منڈی میں لفظ "طوائف" غالباً چند بار ہی استعمال کیا گیا۔ شیام صاحب نے تو ایک بار بھی اس لفظ کو اپنے اسکرین پلے کا حصہ نہیں بنایا۔
آخری بات۔۔ بھنسالی جی کی فلموں کے سیٹس، ڈانسز، گانے اور اسٹائلنگ میں یکسانیت اب اپنے عروج پر ہے۔ باقی عمیرہ احمد، میر کامل، دو ہزار بائیس میں عجیب و غریب نام سے چھپنے والے اخبار کی باتیں جانے دو۔۔