Elahi Bakhsh Jhalla Ho Gaya
الہی بخش جھلا ہو گیا

الہی بخش کے رخساروں کا گوشت سکڑ چکا ہے اور جبڑے کی مضبوط ہڈیاں اوپر کو اٹھ آئی ہیں۔ روتے ہوئے اس کے سیاہی مائل موٹے ہونٹوں کے درمیان اچھڑے پچھڑے میلے دانت باہر امڈے چلے آتے ہیں۔ غصے کی حالت میں اس کا جبڑا مضبوطی سے بھچ جاتا اور گالوں کی ہڈیاں مزید ابھر کر چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں معلوم ہوتیں ہیں۔ چہرے پر مینڈک جیسے گول گول باہر کو اُبلتے ڈیلوں پر منقش خون کی باریک رگیں پھیل کر آنکھوں کو لال انگارہ بنا دیتی ہیں۔ اس کا گھٹا ہوا جسم اب کمزور پڑ چکا ہے اور پستہ قد مزید جھک گیا ہے۔ وہ رات بھر اپنے گاؤں کی گلیوں میں آوارہ پھرتا ہے اور اچانک دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیتا ہے۔
الہی بخش جب پیدا ہوا تو کسی کو رتی بھر بھی خوشی نہ ہوئی تھی۔ حتی کہ اس کی ماں کو بھی نہیں۔
غربت و افلاس کے مارے گھرانے میں دسویں بچے کی پیدائش پر بھلا کون خوشی کے شادیانے بجاتا، بے شک اولادِ نرینہ ہی کیوں نہ جنی ہو۔ الہی بخش ایک بن بلائے مہمان کی طرح اپنے گھر میں پلا۔ نومولود الہی بخش کے نصیب میں قدرت نے ماں کا دودھ خوب اُتارا تھا۔ ڈھائی سال تک تو اس نے رج کے پیا۔ لیکن پھر ایک دن ایسا آیا کہ بھپرا ہوا دریا یکدم سوکھ گیا۔ الہی بخش گھنٹوں ماں کی چھاتیوں سے چمٹا رہتا لیکن ایک بوند بھی اس کا حلق تر کرنے کو باقی نہ تھی۔ تب وہ اپنی ایڑیوں سے کچی زمین زور سے رگڑتا اور روتا لیکن کوئی معجزہ رونما نہ ہوتا۔ لڑکپن آیا تو بھوک بھی ٹوٹ کر لگنے لگی لیکن گھر کی سُونی رسوئی دیکھ کر اس نے پیٹ کی آگ بھجانے کے لیے پہلے آس پاس کی دکانوں اور گھروں سے کھانے پینے کی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کسی بھی گھر کی منڈیر پھلانگ کر چوری چکاری کرکے پھرتی سے نکل جانا اس کا معمول بنتا گیا۔
جیسے جیسے الہی بخش کے ہاتھ کی صفائی اور پھرتی بڑھی گئی، اعتماد میں اضافہ بھی بے حساب ہوتا چلا گیا۔ الہی بخش کا ہمسایہ لمبا تڑنگا بلبیر سنگھ اس کے بچپن کا یار تھا۔۔ دونوں کے گھریلو حالات کم و بیش ایک جیسے ہی تھے اسی لیے دونوں کی گاڑھی چھنتی تھی۔ الہی بخش نے ہی بلبیر سنگھ کو اس دھندے سے متعارف کروایا تھا۔ محلے کے چند بیکار لڑکوں میں ایک سوکھا سڑھا رام نارائن بھی تھا جو ہمہ وقت بلبیر اور الہی بخش کا دم چھلا بنا رہتا تاکہ ان ہٹے کٹوں کی معیت میں اس مریل کا کوئی بال بیکا نہ کر سکے۔ باالاخر الہی بخش اور بلبیر نے اسے بھی اپنے گروہ کا حصہ بنا لیا۔ تینوں ڈکیتی یا چوری کی وارداتیں اب مل جل کر کرنے لگے تھے۔ رام نارائن کا کام باہر گلی میں پہرہ دینا تھا۔ گھر کی دہلیز پر بلبیر سنگھ چاک و چوبند چھپ کر نگرانی کرتا۔ باقی گھر کے اندر جانے اور مال چرانے کی ذمہ داری پھرتیلے الہی بخش کی تھی اور اگر دوران واردات کسی سے مڈبھیڑ ہو جائے تو بچاؤ کے لیے بلبیر سنگھ کی مداخلت ضروری ہوتی تھی۔ بلبیر اور الہی بخش کے درمیان پیشہ وارانہ تعلقات سے زیادہ دوستانہ مراسم تھے۔۔ دوسرا ڈکیتی کے دوران دونوں کا بروقت تال میل ان کی ہر واردات کو کامیاب بنانے میں بے حد معاون ثابت ہوتا تھا۔
ان تینوں کا گروہ چینیوٹ کے مختلف گاؤں کے مکھیاؤں، چوہدریوں، جاگیرداروں کے علاوہ ان گھروں میں بھی ڈکیتی کی وارداتیں کیا کرتا جو صدیوں سے چھوٹے مزارعوں اور مزدور طبقے کا خون نچوڑ کر اپنی تجوریوں کا منہ بھر رہے تھے۔
ایسی وارداتیں کرتے کرتے الہی بخش اور بلبیر سنگھ اب چنیوٹ کے نامی گرامی بدمعاش بن گئے تھے اور پورے علاقے میں ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔
گو کہ تینوں کے نیفے میں چاقو اور خنجر ضرور اُڑسے ہوتے تھے لیکن نوبت کبھی ہاتھا پائی یا خون خرابے تک نہ پہنچی تھی۔ ان بدمعاشوں کا مقصد صرف ڈکیتی ہی ہوتا تھا قتل و غارت گری نہیں۔
ملک کے حالات اب کسی اور ہی سمت نکل پڑے تھے، بٹوارے کی افواہیں زوروں پر تھیں جس نے بڑی اسامیوں کو چوکنا کر دیا تھا۔ اب الہی بخش اور ساتھیوں کی ڈکیتی کی وارداتیں اکثر خالی جانے لگی تھیں۔
ایسی ہی ایک رات جب تینوں نے قریبی گاؤں کے ایک جاگیردار کو لوٹنے کا منصوبہ بنایا لیکن عملی جامہ پہناتے ہوئے نہ جانے کہاں چوک ہوئی کہ الہی بخش کا خنجر جاگیردار کے بیٹے کے پیٹ میں کُھپ گیا۔ الہی بخش سونے کے زیورات کا بکسا سنبھالے جب ہانپتا کانپتا باہر نکلا تو اس کے ہاتھ خون سے لت پت تھے اور کپڑے انسانی خون کے چھینٹوں سے بھرے ہوئے۔ حواس باختہ الہی بخش کو بلبیر سنگھ نے اپنے چوڑے کاندھوں پر ڈالا اور بھاگم بھاگ محفوظ مقام تک پہنچایا۔
انسان کی ناحق جان لینے کی ہچکچاہٹ جو برسہا برس سے الہی بخش کے اندر زندہ تھی وہ اس لمحے مردہ ہو چلی تھی۔
دوسرے دن جاگیردار کے بیٹے کی قتل کی خبر پورے چنیوٹ میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ الہی بخش کا رتبہ ایک ہی رات میں ڈکیت سے قاتل میں بدل چکا تھا۔ اس کے بعد الہی بخش کے ہاتھوں کئی جانیں گئیں۔ لیکن خوف کے سبب سب کے منہ پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ الہی بخش، بلبیر سنگھ اور رام نارائن کے گھر کے حالات اب سدھر گئے تھے۔ غربت کی چکی میں بڑے سے بڑا جرم بھی پِس کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔
ملک کی صورتحال پل پل گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہی تھی۔ جلاؤ گھیراؤ، دنگے فساد اب بڑھتے بڑھتے مار کاٹ اور قتل و غارت گری کی صورت اختیار کر گئے تھے اور کوئی روکنے والا نہ تھا۔ سیاسی جماعتوں کے پُرامن کارکنوں کو جیسے زمین نگل گئی تھی اور ان کی جگہ غنڈوں اور بدمعاشوں کا راج ہو چلا تھا جنھیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے گھروں کو لوٹنے، آگ میں جھونکنے اور گردنیں کاٹنے کے روپیے ملنے لگے تھے۔
سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کی رنگارنگی سے بھری سرزمین لہو کے رنگ سے رنگی جارہی تھی۔ ابھی ملک کو تقسیم کرنے والی لکیر نہیں کھینچی گئی تھی البتہ بندر بانٹ کا فیصلہ بالا بالا کیا جا چکا تھا۔
الہی بخش کا ٹھنڈا پڑتا دھندا تقسیم کی ریشہ دوانیوں سے دوبارہ چمکنے کو تیار تھا۔
الہی بخش، بلبیر سنگھ اور رام نارائین کے درمیان ایک عجب سا تناؤ پیدا ہو چلا تھا۔ تینوں اپنے تئیں نہ جانے کن لوگوں سے تنہائی میں ملتے اور پھر کئی دنوں کے لیے غائب ہو جاتے۔ واپسی پر ان کے ہاتھ مال و زر سے بھرے اور خون سے رنگے ہوتے تھے۔ حالات بد سے برتر ہوئے چلے جارہے تھے۔ چنیوٹ کے کئی گاؤں ہندؤں اور سکھوں سے خالی ہوتے جارہے تھے۔ ایک صبح گاؤں والوں نے رام نارائین کا گھر بھی مکینوں اور سامان سے بے نیاز دیکھا۔
پر الہی بخش اور بلبیر سنگھ تو اسی زمین کے سپوت تھے۔۔ دونوں پنجابی۔۔ جن کی کئی پشتیں اسی گاؤں میں پل کر جوان ہوئیں اور یہیں انہیں موت آئی تھی۔ بے شک دونوں ہم زبان تھے پر اب کی بار دھرم اور مذہب کا کھیل کھیلا جارہا تھا جو دونوں کے الگ الگ تھے۔
پورے ملک میں افواہوں کا بازار گرم تھا۔ ایک جگہ سے سینکڑوں کے مارے جانے، گھر، مال و اسباب پر قبضہ کرنے، عورتوں کی آبروریزی کے قصے دوسری جگہ پہنچتے تو وہاں اس سے کئی گنا زیادہ ظلم برپا کیا جاتا۔
"گردنیں اڑاؤ انعام پاؤ"
الہی بخش اور بلبیر اسی انتظار میں گھات لگائے بیٹھے تھے کہ یہ گاؤں پاکستان میں شامل ہوتا ہے یا ہندوستان میں۔
17 اگست کو سرحدوں کا حتمی فیصلے کا اعلان ہوا۔ اپنی گلی میں تو کتا بھی شیر ہوتا ہے۔
الہی بخش کے سامنے بلبیر سنگھ اور اس کے گھر والوں نے جان بخشی کے لیے رو رو کر منتیں کیں، پاؤں پکڑے، ماں بہن کے واسطے دیے لیکن سب بے سود رہا۔
بلبیر سنگھ کا سارا کنبہ الہی بخش کے ہاتھوں مارا گیا۔ اب بلبیر سنگھ کا گھر اور تمام مال و زر پر الہی بخش کا قبضہ تھا۔
لکیر کھنچ چکی تھی۔ بٹوارا ہوگیا تھا۔ اس معرکے میں الہی بخش کے ہاتھ خوب دولت لگی تھی۔
لُوٹے ہوئے زیورات اور پیسہ اس نے احتیاط سے ایک صندوق میں بھر کر اپنے سرہانے رکھ چھوڑا تھا۔
کئی ماہ وہ اپنی جیت کی سرشاری میں مگن رہا۔
الہی بخش کا معمول تھا کہ روز رات کو صندوق کھولتا، مال و زر ٹٹولتا، گھنٹوں تکتا، ایک ایک چیز گنتا اور پھر قفل لگا کر حفاظت سے بند کر دیتا اور کسی کو صندوق کے قریب بھی پھٹکنے نہ دیتا۔
اب اکثر اس کی آنکھیں صندوق میں رکھے زیورات کو ٹٹولتے ہوئے بھر آتیں اور وہ پہروں سسکتا۔
"اپنے یار کی جان لینے کی قیمت۔۔ یہ ہار، چوڑیاں، گلوبند، ست لڑا؟"وہ سسکتے ہوئے خود کلامی کرتا۔
الہی بخش کے کمرے سے آنے والی سسکیاں اور آہ و زاریاں اس کے گھر والوں کو پوری پوری رات نہ سونے دیتیں۔
آج شام سے بادل خوب گرج رہے تھے لگتا تھا طوفان سر پر کھڑا ہو۔ الہی بخش کا کمرہ اس کی ہذیانی چیخوں سے لرز رہا تھا۔ وہ مسلسل بین کر رہا تھا۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ دیواروں سے سر پٹخ رہا تھا۔
اگلی صبح پورے چنیوٹ میں یہ خبر بھی آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ "الہی بخش جھلا ہوگیا"!
بہ شُکریہ: وی نیوز