Awam Ya Be Lagam Mushtail Hajoom
عوام یا بے لگام مشتعل ہجوم
سورج ڈھلنے پر بھی آسمان ابھی تک آگ برسا رہا تھا۔ تپتی ہوئی زمین سے بھاپ کے بھبھکے نکل رہے تھے۔ سیالکوٹ کے محلہ پاک پورہ کے ایک گھر کے چھوٹے سے باورچی خانے میں اماں چاول ابالتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم تھیں۔ محلے میں خبر اڑی ہوئی تھی کہ سلیمان قمر ملائیشیا سے آیا ہوا ہے اور سیالکوٹ آنے کے بجائے سوات کے پرفضا مقام مدین چلا گیا ہے۔
چولہے میں جلتی آگ کی لو اماں کی طرف لپکی تو بے ساختہ ان کے منہ سے " یا اللہ خیر " نکلا اور دفعتاً انھوں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ ہاتھ جلا نہیں تھا صرف چمڑی جھلس کر سکڑ گئی تھی۔ معمولی جلنے کی جلن بھی کتنی تکلیف دہ تھی۔
چولہے کی آنچ مسلسل بھڑکتی جارہی تھی۔
عین اسی وقت مدین کے پولیس اسٹیشن کے باہر بھی آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ لوگوں کا ایک جم عفیر موجود تھا جو ایک انسان کو بھڑکتی ہوئی آگ میں جلتا اور اس کے جسم سے اٹھتے شعلوں کو دیکھ کر نعرہ تکبیر کے نعرے لگا رہا تھا۔ کچھ لوگ قہقہے لگاتے ہوئے تو کچھ بے حسی سے اس ہولناک منظر کو اپنے موبائیلوں میں قید کر رہے تھے بالکل ایسے کہ جیسے یہ ان کے لیے ایک تفریح کا سامان ہو۔
آگ میں دہکنے والا یہ فربہ جسم سیالکوٹ کے محلے پاک پورہ کا سلیمان قمر ہے جو گھومنے پھرنے کی غرض سے سوات آیا اور" مبینہ" طور پر قرآن پاک کی بے حرمتی کی پاداش میں پولیس کے حوالے کیا گیا جہاں اسکے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔
لیکن لوگوں کا جوش ایمانی ٹھنڈا نہ پڑا اور جتھے نے تھانے پر دھاوا بول کر پولیس کی حراست سے سلیمان کو نکال باہر کیا۔ بہیمانہ تشدد کرنے پر بھی دلی تسکین نہ ہوئی تو جسم کو آگ میں جھونک دیا۔ مشتعل ہجوم میں کم عمر لڑکے، درمیانی عمر کے مرد اور عمر رسیدہ افراد سبھی شامل تھے لیکن سب کے چہروں پر " بے حسی، ظالمانہ قہقہے اور درندگی ایک سی تھی۔
دوسرے ہی لمحے اس بربریت کو جواز فراہم کرنے کی خاطر بنا ثبوت اور تحقیق کے پورے سوشل میڈیا پر سلیمان قمر کو ملعون قرار دے دیا گیا۔ الزام لگانا ہمارے جیسے معاشروں کا ہی طرہ امتیاز رہا ہے۔
سلیمان قمر کی اماں نے اپنے معمولی سے جھلسے ہوئے ہاتھ کو دیکھا جس میں ابھی بھی جلن اور درد کی چبھن تھی۔ یہ سوچ کر کہ سلیمان کو جلتے ہوئے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی، ماں نے ایک جھرجھری لی۔ ڈبڈباتی آنکھوں سے سلیمان کی بیوہ ماں نے کیمرے کے سامنے اپنے بیٹے سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔
جہاں معاشرے خود ہی قاتل اور خود ہی منصف بن جائیں تو اپنے خاندان کو بچانے کا غالباً یہی واحد رستہ بچتا ہے۔
ایک قوم سے ہم کب، کیوں اور کیسے ایک مشتعل اور بے لگام ہجوم میں تبدیل ہوئے، اکثریت کو شاید خود بھی نہ یاد ہے نہ ادراک۔
عوام کو ایک ہجوم میں بدلنے کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہماری اپنی ریاستی پالیسیاں ہیں۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معاشرے کو رفتہ رفتہ ایک بڑے قید خانے میں تبدیل کیا جہاں ہر سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کی روایتوں کو رد کرکے سانس لینے کے تمام رستوں کو مسدود کر دیا گیا۔
مکالمے کی جگہ " مار دو، کاٹ دو، جلا کر بھسم کردو " کی بے سمت راہ اپنائی گئی۔
مذہب کی آڑ لے کر پہلے ایسے مشتعل ہجوم پاکستان میں بسنے والی غریب اقلییتوں کے لیے موت کے فرشتے ثابت ہوئے۔ جب ہمارے کرتا دھرتا خاموش تماشائی بنے رہے تو ہجوم کے منہ کو لہو لگ گیا اور ایسے درندگی کے کھیل کُھل کر کھیلنے میں مزہ آنے لگا۔ اس کے بعد چاہے وہ سری لنکا سے آیا ہمارا مہمان پریانتھا کمارا ہو یا سرگودھا کے متمول گھرانے کا نذیر مسیح یا جامعہ کا ہونہار طالبعلم مشال خان۔
مشتعل ہجوم ریاست کی رٹ اور قانون کی دھجیاں ہر سانحہ پر بُری طرح بکھیرتا، ان دھجیوں کو سمیٹنے کا مرحلہ شروع بھی نہیں ہو پاتا کہ ایک نئے لرزہ خیز واقعے کی بازگشت پورے ملک میں دوبارہ سنائی دینے لگتی۔ پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہمارا مقدر بننے لگی لیکن نہ کسی ادارے کے کان پر کوئی جوں رینگی نہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی سنگین کاروائی ہوتی نظر آتی ہے۔ کیونکہ یہ معاشرہ بے شرم و بے حس ہجوم بن چکا ہے۔ اور ایک ہجوم کے لیے
کیسا قانون اور کس قانون کی پاسداری؟
اس ہجوم نے پہلے مذہب کارڈ کو ملک کی غیر مسلم کمیونٹی کے خلاف استمعال کیا اور اپنے لاگو کیے قانون کے مطابق سزا اُن کی پوری پوری آبادیوں کو تہس نہس کرکے دی۔
اب اس مشتعل ہجوم کے سامنے کون غیر مسلم اور کون مسلمان؟ سلیمان قمر اور مشال خان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
اس سے قطع نظر کہ سلیمان بلاسفیمی کا مرتکب ہوا یا نہیں یہ فیصلہ کرنا قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے، جسے عوام یا ہجوم کے ہاتھوں یرغمال بننے کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور آگے نہ جانے کیا کیا اور ہونا باقی ہے یہ سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک حضرت لڑکیوں اور بچیوں کے درسگاہوں میں جانے اور ملازمت کرنے پر انھیں گندی گالیاں اور فتوی گانے گا کر دیتے نظر آرہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست کب ایسے فتنہ پرور کو سزا سناتی ہے؟ کیونکہ ایسے ہی افراد ہجوم کو مشتعل کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
اس ملک کو بچانا ہے تو اس بے لگام مشتعل ہجوم کو نکیل ڈالنے میں مزید دیر نہ کریں ورنہ خوف سے کتنی مزید مائیں اپنی ہی اولاد سے لاتعلقی کا اعلان کریں گیں یہ کوئی نہیں جانتا۔
بہ شُکریہ: DW