Kuch Bhi Karo Likhna Mat Chorna
کچھ بھی کرو لکھنا مت چھوڑنا
میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جو اچھی بات چاھے کوئی بھی کہے اسے سن کر یا پڑھ کر عمل کی کوشش ضرور کرتی ہوں، لیکن یہ بھی سچ ہے کے بعض اوقات کوشش، ایک مسلسل عمل کی پٹڑی سے اترتی، چڑھتی بھی رہتی ہے، بہت دن ہوئے اپنے احساسات کو الفاظ نہیں دے پا رہی تھی، سیاسی، سماجی، معاشرتی، اور معاشی غرض یہ کہ ہر جانب سے ہی، بہت سے مسائل تھے، دل چاھتا لکھوں پھر، سوچتی، ابھی نہیں، لیکن آج ایک دوست نے کہا، کہ آپ نے جاوید چوہدری کا کالم پڑھا میں نے کہا کونسا، جواب دیا جس میں طارق عزیز سے ملاقات کا تذکرہ ہے، ناجانے یہ بات کہنے کی ہے یا نہیں لیکن طارق عزیز یقینا کئی لوگوں کے ہر دل عزیز تھے لیکن میں نے تو بہت کچھ ان سے سیکھا تھا، میرے بچپن کا ایک خاص حصہ، نیلام گھر کی کاپی کرتے گزرا ہے، محلوں کے بچوں کو جمع کرکے یونین کے بسکٹ، کہانی کی کتابیں جمع کرکے میں، گھر کے کسی بھی ایک حصے میں سب بچوں کو بٹھا کر بلکل طارق عزیز صاحب کے انداز میں نیلام گھر سجاتی بچوں کو بٹھاتی بھی، زینوں پر تھی اور خود اینٹوں کے بلاکس پر کھڑے ہوکر، سوال کرنا، اور انعام دینا، ، مجھے بہت مزہ آتا تھا، لیکن میں سوالات ظاہر ہے اس انداز سے معلوماتی نہیں کرتی تھی، البتہ کورس کی کتابوں سے چھوٹے چھوٹے سوال کیا کرتی تھی، عین ممکن ہو، یہ بات پڑھے والوں کو میری، خود ستائش محسوس ہوں، لیکن میرا نظریہ یہ ہرگز نہیں، اماں اکثر کہتی تھیں، کیا تم یہ تماشہ لگاتی ہو، بچوں کے ساتھ لیکن میرا کھیل یہی تھا، ابہرحال، پھر اماں ابا نے مائیک بھی خرید کر دے دیا، اور مجھے تو جیسے، حقیقت میں اسٹیج مل گیا ہو، بہرحال، یہ سلسلہ یہی روکتی ہوں کبھی اور سہی، دوست نے جس کالم کو پڑھنے کا کہا اس نے یہ بھی کہا کہ وہ آپکے لئے ہی لکھا ہے، لازمی، پڑھ لیں، میں نے بھی دیر نہیں کی اورفورا تلاش کر کے پڑھ لیا، اب اگر میں جاوید چوہدری کے طرز تحریر کو کچھ کہو، تو، وہ سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ہوگا، لیکن کالم پڑھ کر لکھنے کی جو تحریک ملی، میں اسکے لئے سب سے پہلے اپنے دوست، پھر جاوید چوہدری، اور ہمیشہ کی طرح طارق عزیز، صاحب محروم کے بے حد مشکور ہوں، بہت بہت شکریہ، سچ ہے، رائٹینگ ایک وفادار اور کسی محبوب سے کم نہیں (میں نے محبوب لکھا ہے، جاوید صاحب نے، طارق عزیز صاحب سے دوسری ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے، محبوبہ لکھا ہے)۔
اپنی سوچ کو لفظوں میں ڈھالنے کا عمل جیسا تیسا ہی کیوں نا لیکن بہت تقویت دیتا ہے، ڈائری لکھنے کا شوق بھی اگر آپ میں ہے تو یہی آپکی تحریری صلاحیت بن جاتی ہے، پاکستان میں پچھلے تین ماہ سے تعلیمی ادارے کورونا وائرس کی وباء کے باعث بند ہیں، لہذا بچے ایک مخصوص دورانیئے، اور ماحول جس انداز سے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ سلسلہ رکا ہوا، آن لائن نظام تعلیم، سے میرے نظریہ میں صرف 10فیصد بچےہی استفادہ کررہے ہیں، مجھے معلوم ہے یہ ایک اور موضوع ہے، لیکن میں صرف اتنا کہنا چاھتی ہوں کہ، بچوں کی تربیت، اور بڑوں کو اپنی اصلاح کا اس سے اچھا موقع نہیں ملا گا، اللہ کرے کورونا کل پاکستان سے ختم ہوجائے لیکن، حالات یہ نوید نہیں دے رہے، اس وقت پاکستان میں کورونا سے اموات کی تعداد چار ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے، جبکہ ایک لاکھ تیرانوے ہزار تصدیق شدہ کیسز ہیں۔ ویراعظم نے 25 جون 2020 کے قومی اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا میں نے پہلے دن سے جو کہا وہی آج کہہ رہا ہوں، یہاں میں یہ واضح کردں کہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو بہرحال وہ اپنے پیر جمانے کے لئے ہر طرح کی پالیسی اپنانا چاھتی ہے، اور شاید ایسا ہی، پی ٹی آئی بھی چاھتی ہے، لیکن یا تو انکی قسمت بہت اچھی، یا شاید کسی ایک کے ستارے گردش میں ہیں۔ بس ایسا نا ہوکہ اسکی پاداش میں سزا عوام پاکستان بھگتیں جو ہمای تاریخ بھی رہی ہے۔
بس کہنا یہ کہ دامن وقت میں گنجائش نہیں علامہ طالب جوہری، کہ اس جملے کو قصدا لکھ رہی ہوں، بہت کچھ تیزی سے بدل رہا، بہت سے قابل ذہین اورناقابل فراموش شخصیات، جاتی جارہی ہیں، مجھے یاد ہے، ابا اور اماں، طالب جوہری کی مجالس لازمی دیکھاتے تھے یہ بھی میرے بچپن کا زمانہ تھا، اس وقت کورونا وائرس نہیں تھا، کوئی لاک ڈاون نہیں تھا، لیکن، والدین تربیت کے ہر سنجیدہ اصوال کو اپناتے تھے، میری درخواست ہے، آج موقع ملا ہے تو اپنے مستقبل کی آبیاری کریں۔ ویسے تو بہت سے لوگ دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن جو اپنی محنت سے اس دنیا میں اپنا نام بناتے ہیں، کم ازکم انکے بارے میں اپنے بچوں کو ضرور بتائیں، اور میری مانیں لکھنے کی عادت اپنا لیں۔ آج بہت عرصے بات لکھا ہے، عجیب سا سکون ملا ہے، لگ رہا ہے کوئی کھویا ہو ملا گیا، علامہ طالب جوہری اور طارق عزیز کو دعا کے ساتھ کہ اللہ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے آمین، اور میرے اچھے دوستوں کا ساتھ رکھے جنکی بدولت کئی عرصے بات میں نے لکھا۔