Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Pak Kazakhstan Taluqat

Pak Kazakhstan Taluqat

پاک قازقستان تعلقات

اسلامی دنیا کا سب سے زیادہ رقبہ رکھنے والا ملک قازقستان ہے۔ یہ ملک شمال مشرقی حصے میں روس، جنوب میں کرغیزستان، ازبکستان، تاجکستان، اور ترکمانستان سے ملحق ہے۔ آستانہ اس کا دارلحکومت ہے۔ قازق زبان میں لفظ آستانہ کا مطلب بھی دارلحکومت ہے۔ قازقستان کا کل رقبہ تقریباً 27,24,900 مربع کلومیٹر ہے، جو اس کو دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک بناتا ہے۔ ملک میں کئی ندیاں اور دریاؤں کا سلسلہ پایا جاتا ہے۔ ارال، آمو، سردریا، اور ارگن ڈیلٹا مشہور دریا ہیں جو ملک کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہیں۔ ملک کا بلند ترین نقطہ خان تینگری ہے جو سطح سمندر سے 22 ہزار 999 فٹ بلند ہے اور یہ قراقرم کےعلاقہ میں واقع ہے۔ مشہور جھیلوں میں بلخش، مرکاکول، اوزیرو ٹینگز، الاکول، کینڈی، زیسان وغیرہ ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی زمینی سرحد قازقستان اور روس کے درمیان موجود ہے۔ دنیا کی سب سے بلند چمنی بھی اسی ملک میں موجود ہے جس کی لمبائی 420 میٹر ہے۔ یہ چمنی ایفل ٹاور سے بھی بلند ہے۔ دنیاکا دوسرا بڑا یورینیم کا ذخیرہ بھی قازقستان میں ہے۔

رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 9واں بڑا ملک ہے جبکہ یہ سب سے بڑ املک ہے جس کی سرحد کسی سمندر سے نہیں ملتی۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا لینڈ لاک ملک ہے۔ یہاں دنیا کا سب سے اونچا سٹیکنک رنک ہے اور یہاں 170 ریکارڈ ز قائم ہوچکے ہیں۔ سب سے بڑی سپیس لانچینگ بھی ادھر ہی ہے۔ سویت روس نے یہاں قریبا 500 نیوکلئیر ٹیسٹ کیے تھے۔ لفظ قازک کا مطلب آوارہ ہے اور قازقستان کا مطلب آوارہ یا آزاد گھومنے والوں کا ملک ہے۔ یہاں کی سب سے مشہور ڈش بیشمامک ہے۔ یہ بیف سے بنتی ہے۔ یہاں جنگلی سیبوں کے درخت بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ گھوڑے کا گوشت بھی کھانے کا حصہ ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ یہاں کے لوگوں نے سب سے پہلے گھوڑے کی سوار کی۔ اس ملک میں قریبا 120 قبائل آباد ہیں۔

قازقستان کے وسطی ایشیا میں ہونے سے اس کی زمین نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ملکی حکومتیں اقتصادی راہداریوں کوڈویلپ کرنے میں مصروف عمل ہیں جس سے ملک کے مختلف حصوں کو آسانی سے جوڑا جا سکے اور تجارتی روابط بہتر کیے جا سکیں۔ قازقستان معدنیاتی ذخائر سے مالا مال ہے۔ اس ملک میں گندھک، زنک، اور دیگر معدنیات کی وافر مقدار موجود ہے۔ ان معدنیات کی ایکسپورٹ سے ملک کی معیشت کو بہتر ہورہی ہے۔ قازقستان ایشیا کے ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں ہے۔ ملکی ترقی کی سب سے بڑی وجہ اس کے معدنیاتی ذخائر ہیں۔

قازقستان کا خصوصی جغرافیہ اس کو اہم بین الاقوامی راستوں کا مرکزی نقطہ بناتا ہے۔ یہ ملک آسٹریا، روس، چین، اور بھارت وغیرہ کے ساتھ راستے کا نقطہ عبور ہے، جو علاقائی اور بین الاقوامی تجارت کیلئے نہایت موزوں ہے۔ اسکی جغرافیائی اہمیت اس کا خوبصورت میدانی علاقہ اور حسین نظارے ہیں۔

ملک میں اہم بجلی پیدا کرنے والے ہائیڈروپاور پراجیکٹس بھی موجود ہیں۔

ملکی رسمی زبان قازق ہے جبکہ روسی بھی وسیع حدود میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ قازقستان معمولی معیار زندگی اور بہتری کے لحاظ سے تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس کی معروف تاریخی شہر االماٹی، قریبی زائرین کی مشہور یحی جگہ ہے۔ اس کی اہمیت صنعتی مشینیں، تیل کی کھدائی، گندھک اور معدنیات کی وجہ سے ہے۔ یہ مختلف ثقافتی رنگوں کے ساتھ بھری تاریخی وراثت رکھتا ہے، جو اس کو مزید دلچسپ بناتی ہے۔

قازقستان کا جغرافیہ اس کو باقی دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ یہ ملک دیگر ممالک سے کئی مختلف معدنی مصنوعات کی فراہمی کرتا ہے۔ ملکی مقاصد میں سب سے زیادہ امن و امان ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک سے مختلف نوعیت کے تعلقات قائم ہیں جن میں سیاسی، تجارتی، اقتصادی اور خارجہ شامل ہیں۔ قازقستان ایشیا، یورپ، اور امریکہ جیسے مختلف ممالک اور تنظیموں کے ساتھ مضبوط جڑا ہوا ہے۔ اس کے ایشیا ئی ممبر ترقی پذیر ممالک اور روس کے ساتھ دوستانہ رابطے بھی ہیں جواسکی اقتصادیات کیلئے اچھے ہیں۔ قازق ریاست دنیا بھر میں مختلف بین اقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون میں مصروف عمل ہےجیسے کہ ایکانومک کوآپریشن آرگنائزیشن، اقوام متحدہ، شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر اکانومک منصوبےا ور معاہدے وغیرہ۔ قازقستان مختلف دوستانہ و سیاسی رابطے بھی رکھتا ہے جو بین الاقوامی سطح پر اہم ہیں۔ اس کا تعلق اور تعاون برطانیہ، امریکہ، روس، چین، اور دیگر ممالک کے سیاست دانوں اور حکام کے درمیان ہوتا ہے جن میں مختلف مسائل اور قومی تنظیموں پر بحث اور تبادلہ خیال شامل ہے۔

1991 میں سویت روس کے ٹوٹنے سے آزادی حاصل کرنے والا قازقستان 1992 کو پاکستان سے سفارتی تعلقات قائم چکا تھا۔ یہ تعلقات تب قائم ہوئے جب نور سلطان نے پاکستان کا اپنا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں کئی اعلامیے پر دستخط ہوئے جن میں پاک قازق حکومتی سطح کے تعلقات کا قیام، جوائنٹ کمیشن برائے پاکستان قازقستان سرکاری تعلقات، معاشی و تجارتی تعلقات وغیرہ۔ اس کےاگلے سال پاکستان اور قازقستان کے درمیان فضائی خدمات کے حوالے سے ایک اگریمنٹ ہوا جس میں پاک ایوی ایشن کے قازق فضائیہ کی مدد کی۔ سال 2018 میں دونوں ممالک کے وفود نے قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے ایک یادداشت پر بھی دستخط کیے جن سے دونوں ممالک میں قدرتی آفات کے نقصانات سے بچنے اور تعاون کرنے کیلئے ایک دوسرے کو مدد ملے گی۔

قازقستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات مختلف شعبوں میں موجود ہیں۔ دونوں ممالک ایشیا کے مختلف حصوں میں واقع ہیں اور ان کے درمیان تعلقات کو بڑھانے کے لئے مختلف معاہدہے موجود ہیں۔ قازقستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بہتر بناتے ہیں۔ دونوں ممالک کا مختلف مصنوعات، زرخیز معدنیات، اور علاقائی زرعی مصنوعات کا تجارتی تبادلہ ہوتا ہے۔ دونوں ممالک قومی اور بین الاقوامی محافل، مجالس، اور تنظیموں میں اکٹھے شراکت دار ہیں۔ تعلیمی میدان میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے سے تعاون کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان اور قازقستان کے طلباء ایک دوسرے کے ممالک میں تعلیمی سلسلے میں ہجرت کرتے ہیں۔

قازقستان ایک بڑا تیل و گیس پیدا کرنے والا ملک ہے جبکہ پاکستان کے پاس بجلی کی ضرورت ہے۔ اس لئے دونوں ممالک کے درمیان انرجی سے متعلق تعاون بھی درکار ہےجس سے پاکستان کے برقی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ ثقافتی تعلقات میں بھی دونوں ملک ایک سے دوسرے کےقریب ہیں۔ دونوں ممالک فلموں، ڈراموں، اور فن و ثقافت کے میدان میں تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ آستانہ اور اسلام آباد میں ثقافتی میلے اور نمائشیں لگی رہتی ہیں جس سے عوام کو ثقافت کے بارے میں علم منتقل ہوتا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان زراعت کے میدان مین تعاون موجود ہے۔ قازقستان کی زرعی مصنوعات جیسے کے گندم، چاول، اور مکئی پاکستان کے لئے اہم ہیں جبکہ پاکستان کے میوے اور سبزیاں قازقستان کے لیے اہم ہیں۔ قازقستان اور پاکستان دونوں ممالک خوبصورت سیاحتی مقامات رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کے سیاح ساحتی مقامات سے لطف اٹھانے کیلئے ان مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی قازقستا ن میں ہے لیکن اسکی تعداد چند سو ہے جو مختلف شہروں میں آباد ہیں۔ ان میں بیشتر پاکستانی تجارت اور بزنس کی غرض سے آباد ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بڑھے تو تعلقات مزید مضبوط اور بہتر ہوسکتے ہیں۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Shaam, Bashar Raft o Hayat Ul Tahrir Aamad (12)

By Haider Javed Syed