Tum Dialogue Karo
تم ڈائیلاگ کرو
حضرت علیؓ کا وہ قول مبارک تو اب ہر زی شعور کو شاید ازبر ہو چکا ہوگا، کہ کفر کے ماحول میں معاشرے زندہ تو رہ سکتے ہیں مگر ظلم اور ناانصافی کے ماحول میں معاشرے اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتے۔ میرے ساتھ جو لوگ یورپ میں مکین ہیں ان میں چندہ اک یہ دہائی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ غزہ کے مسلمانوں پہ ظلم ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فلسطینی اور کشمیری اس وقت کی تاریخ ساز بربریت سے گزر رہے ہیں مگر پاکستان بھی اس فہرست میں ان سے کم نہیں۔ جو ظلم کی داستان اور سلسلہ 9 مئی کو شروع ہوا تھا وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
قصاص کی اک ایسی آگ طاقتور اور پوش لٹیروں نے جلا رکھی ہے کہ کتنے گھرانوں کی عزتیں، چاردیواری کے ناموس کو خاکستر کر چکی ہے۔ کتنے لوگوں کو اپنے ہی عیال کے سامنے ننگا کرچکے ہیں، کتنے بے گناہوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال چکے ہیں اور اصل چور ڈاکووں تو اقتدار کے مزے حب الوطنی کے سائے تلے لوٹ رہے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ جتنا کوئی بڑا عامل بابا ہوگا اتنا بڑا خنزیر اسکے اندر چھپا ہوگا۔ اگر میں اس کو ترادف میں یوں بیان کروں، کہ جتنا بڑا حب الوطنی کا دعویدار ہوگا اتنا بڑا رذیل ہوگا، اتنا بڑا چور اور ملک دشمن ہوگا، تو کہنا غلط نہیں ہوگا۔
کتنا ہی کوئی عجیب ملک ہے، یہ تو نہ ملک کہلانے کا لائق ہے اور نہ وطن، کیونکہ یہاں آج بھی شخصیت پرستی کی پرستش ہوتی ہے اور خداکے ذات کے علاوہ کسی اور کی پرستش کرنا کفر ہے۔ پاکستان اس وقت تک کی معلوم تاریخ میں شاید وہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پہ وجود میں آیا تو ہے مگر شرک اس میں ڈنکے کی چوٹ پہ کی جاتی ہے اور جو کوئی بھی، شخص یا شخصیت پرستی کے خلاف صدا بلندکرتا ہے تو اسکا حال ویسے ہی کیا جاتا ہے جیسے کہ 4 سو سال پہلے بادشاہ کے دربار میں بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے وقت جھک نہ جانے پہ کسی کا کیا جاتا تھا (اس کو کوڑے مارے جاتے تھے)۔ بلکہ یہاں تو اس سے بھی زیادہ ذلیل رویہ برتا جاتاہے۔ اس کو یا تو نفسہ ننگا کر دیتے ہیں یا پھر اس کو اسکے ماں بہن کو ننگا کرنے اور اسکی ویڈیو بنانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس ملک کو کیا نام دوں؟
ایسا ذلیل اور رذیل نظام شاید ہی اب تک کی تاریخ میں کہیں پایاگیا ہو، کہ جہاں انصاف کا معیار یہ ہو یا تو پریس کانفرنس کر لو یا تم ڈائیلاگ کرلو۔ کتنا عجیب ہے کہ ملک کے سب بڑے ادارے، منصف ادارے کا سربراہ جب مدعی سے یہ کہے کہ تم ڈائیلاگ کرو۔ یعنی اس بات کی صداقت پہ نام نہاد چیف جسٹس بھی مہر ثپت کر رہا ہے کہ اب تک ملک کے سابق وزیراعظم اور وقت کے سب سے بڑے لیڈر کو جو قید تنہایی میں رکھا گیا ہے اور نامعلوم مدت تک کے لیے مزید رکھا جاے گا، و ہ سارے الزامات بے بنیاد تھے۔ جو اک گناہ ہے وہ یہ کہ تم ڈائیلاگ نہیں کررہے ہو اور تم چور کو چور اور لٹیرا کیوں کہہ رہے ہو اور پھر اسلام میں تو قصاص کا حکم ہے ہی، تو بس قصاص کی آڑ میں ذاتی مفاد کی خاطر قید تنہائی کی انتقامی سزا بھگت رہا ہے۔
جب سے عمران خان کے سیل کی تصویر سوشل میڈیا پہ دیکھی تو بہت دکھ ہوا، اس لیے نہیں کہ میں عمران خان کو پسند کرتا ہوں۔ لیکن اس تقابل نے رلایا کہ دوسرے وزرا اعظم کو کیا پروٹوکول ملتا رہا جو کہ زندگی میں ان کے کارنامے صرف ملک کے خزانے سے لوٹ کھسوٹ کی ہیں اور حب کہ الوطنی اور راہ حق کے شہادتوں کے بڑے دعوایداروں پہ تو کسی مائی کا لعل ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ جن کے کارستانیاں بس اپنے لوگوں کو بیچنے اور ملک کے انتخابی نظام میں غاصب بن کر من مانی دھاندلی کرنے، اور یہ کام جب عوام رات کو سوتے ہیں تو یہ جاگ کر یہ کارنامے انجام دیتے ہیں کیونکہ یہ کارنامے تبھی ممکن ہوسکتے ہیں۔
یہ دراصل سیپی سیلر ہیں جو غلطی سے سپہ سالار پڑھا اور لکھا جا رہا ہے۔ جو ہر دم راہ حق کے شہادتوں کے نعرے آلاپتے ہیں دراصل یہ مفاد راہ کے مریض تھے اور چل بسے۔ وہ اک سینٹر نے کیا خوب کہا کہ موجودہ حکومت اور کابینہ کی مثال گدھوں جیسی ہے جو کہ غریب کی اک حلال لقمے پہ اپنی حرام کی نظر ٹکائے بیٹھے ہیں اور یہ طوائف کوٹھے کی رکھوالیوں کی مانند عمران خان سے نفرت میں اس حد تک گر چکے ہیں وہ عمران خان سے انس رکھنے والوں کو عبرت کا نشان بنانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ کیونکہ عمران خان جس کا نام کا پوری دنیا میں چرچا ہے۔ اور صرف اس مفاد پرست ملک کا وزیر اعظم ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ خان نے دنیا کے جس فیلڈ میں بھی قدم رکھا تو اس میں نام کمایا، عزت کمائی۔
آج بھی دنیا کے بڑے بڑے ادارے اور یونیورسٹیز اسکو اپنے ہاں اعلی عہدے پہ رکھنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ دنیائے کرکٹ میں دیکھ لو، یا خیراتی کام میں دیکھو تو شوکت خانم، تعلیمی میدان میں دیکھو تو نمل جیسے نگینے اس وطن عزیز کو دے رکھے ہیں۔ سیاسی میدان میں کوئی دو رائے نہیں غلطیاں کیں لیکن اس سے بھی منہ نہیں موڑنا چاہے کہ سفارتی مخاز پہ پاکستان اور پاکستانیوں کی شناخت اجاگر کر چکا تھا و ہ آج تک کوئی نواز، کوئی بھٹو، کوئی زر داری، کوئی حافظ اور کوئی محافظ نہیں کرسکا۔ عمران خان جتنی وزڈم، اس کی جتنی حب الوطنی، اس کے لیول کی خود اعتمادی، اس لیول کی ایمانداری نوازوں زر داروں، حافظ اور محافظوں کے سات نسلوں تک بھی کسی میں نہیں آسکتی۔
یہ مادر پدر چور تھے اور چور رہیں گے اور پھر آخر میں ملک کے وسیع تر مفاد میں بس ڈائیلاگ کر لیتے ہیں اور اللہ للہ خیر سلہ۔ اور عمران خان کی کتاب میں چور کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں۔ چور کی سزا ہاتھ کاٹنے کی ہے، ناک کے بدلے، کان کے بدلے اور سر کے بدلے سر۔ لیکن یہ ارض کل میں واحد ایسا نام نہاد اسلامی ملک ہے جہاں پہ قوانین صرف پرلے درجوں، کمی کمینوں کے لیے بنائے جاتے ہیں اور اعلی طبقہ اس سے بری رہتا ہے۔ اور اسی ہی وجہ سے قومیں تباہ ہوتی ہیں اور وہ دن دور نہیں پاکستان بھی ماضی کا قصہ پارینہ بن جائے گا۔