Tarik e Quran
تارک قرآن
بڑھتی ہوئی اس دنیا کے ساتھ جس طرح ہر چیز اپنی بہتات کی طرف گامزن ہے وہاں مذہب دین اسلام بھی اپنی اشاعت میں آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جہاں مساجد، مدارس بڑھ رہے ہیں اسی طرح حفاظ کرام، قارئین اور علمائے کرام بھی بڑھ رہے ہیں۔ قرآن خوانی، ختم القرآن کا سفر بھی آگے کی طرف جا رہا ہے لیکن ان سب کے باوجود بھی ہماری زندگیوں میں کوئی شاہکار تبدیلی رونما نہیں ہو رہی۔ ہماری زندگی اسکے باوجود بھی امن اور سکون سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
اسکی اک ہی وجہ ہے کہ ہم نے قرآن کو اسکے اصل فہم اور حکمت کے ساتھ عملی طور پر زندگی میں اپنایا نہیں۔ ہم قرآن کو روزانہ پڑھتے ہیں قارئین میں آئے روز اضافہ تو ہوتا جا رہا ہے۔ ہم ہر کام کے شروع کرنے سے پہلے، چاہے کاروبار ہو، گھر کی تعمیر ہو، نئے بندھنوں میں بندھنا ہو، نئی جگہ ہجرت کرنا ہو یا کسی مقصد کی غرض پہ عازم سفر ہو ان سب سے پہلے قرآن خوانی کا اہتمام لازم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے کاروبار نہیں چلتے اور نہ ہی برکت ہوتی ہے، ہمارے نئے گھر تعمیر تو ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی ویران ہوتے ہیں۔ نئے رشتے بندھ جاتے ہیں مگر پھر بھی تنہا ہوتے ہیں۔
اگر کہیں ہجرت کر جاتے تو بھی حرکت میں برکت ہوتی ہے کا عہد ادھورا رہ جاتا ہے اور عازم سفر ہو کر بھی اک عجیب خوف دل پہ طاری رہتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا معاذ اللہ قرآن اپنی اصل طاقت اور برکت سے خالی ہو گیا ہے اس لیے اب ہماری زندگیوں پہ کسی بھی طرح سے اثر نہیں ڈال رہا؟ کیا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ قرآن اپنے سارے وعدوں میں جھوٹا ہو گیا؟ نہیں ہرگز ایسا نہیں بلکہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے اسکو صرف دکھاوے اور قرات کرنے اور کروانے کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ ہم نے اسکو اوپر اوطاق میں رکھ دیا اور نزدیک بھی نہیں جاتے بلکہ دور سے ہاتھوں کے اشاروں سے بوسا پاس کر دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے قرآن کا حق ادا کردیا۔
بس صبح تلاوت کردی اور دور سے سارا دن جب بھی اس جگہ کے سامنے سے گزرتے ہوئے بوسا دے کر ہم اپنے فرض سے خود کو مبرا سمجھتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہمارا معاشرہ صحتمندی کے ساتھ فروغ نہیں پارہ۔ جیسے کہ اک سچا مسلمان معاشرہ ہوا کرتا ہے۔ ہمارے آج کے اس حالت کی عکاسی علامہ اقبالؒ نے کس خوبصورتی سے اپنے اک شعر میں فرمائی ہے۔
وہ معزز تھے زمانے میں صاحب قرآن ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
ہمارا خوار و زلیل ہونے کی اصل وجہ ہی یہی ہے کہ ہم نے قرآن کو ترک کردیا ہے۔ یقیناً زہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہم نے قرآن کیسے ترک کر دیا ہے؟ جبکہ آئے روز ہمارے ہاں چھوٹے چھوٹے عمر کے بچے خفظ قرآن کر لیتے ہیں۔ ہم روزانہ تلاوت بھی کرتے ہیں مسجدو میں قاریوں کا بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تو پھر ہم تارک قرآن کیسے ہوئے؟ یاد رکھیں روزانہ جوہم قرآن پڑھتے ہیں اسکو قرات کہتے ہیں تلاوت نہیں۔ تلاوت کے معنی ہے پیچھے پیچھے چلنا، عمل پیرا ہونا۔ روزانہ قرآن کی قرات کرنے سے ہم ثواب حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں جبکہ قرآن ثواب کی کتاب نہیں بلکہ ہدایت و رشد کی کتاب ہے اور اس کا تذکرہ قرآن خود پہلے پارے کے دوسرے ہی آیت میں بیان فرماتا ہے۔ "ھدی للمتقین" اسمیں ھدایت ہے متقین کے لیے۔
قرآن کا منبع اور مقصد تو ہدایت و رشد دینا ہے جبکہ ہم اس سے صرف ثواب کے لیے اپنائے ہوئے ہیں۔ اور اسی کو ہی ترک قرآن کہلاتے ہیں۔ جب ہم قرآن سے صرف ثواب حاصل کرنے کی جستجو کرتے رہیں گے تو ہدایت و حکمت کون حاصل کرے گا؟ جبکہ ہم ہدایت اور حکمت کے لیے نام نہاد اعتقادیوں کے پیچھے بھنبھنا رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ خالق کائنات اپنے اس عظیم کتاب میں فرماتا ہے۔ "کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جس کا ہم نے اس میں تذکرہ نہ رکھ چھوڑا ہو"۔
دوسری جگہ فرماتا ہے۔ "ہم نے اس کتاب کو آسان نازل فرمایا اور اس میں ہم نے آپ ہی کے لیے نصیحت رکھ چھوڑی ہے۔ تو ہے کوئی جو اس سے نصیحت حاصل کرسکے") یہ دونوں الگ الگ آیات کریمہ کے مفہوم ہے(اور اس کے باوجود بھی ہم قرآں کو صرف ثواب کے لئے پڑھ رہے ہیں۔ ہم نے قرآن سے صرف انفرادی زندگی میں نہیں بلکہ پورے معاشرے میں تبدیلی لانی ہے۔ جب ہم قرآن کا اس جہت سے مطالعہ شروع کریں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرے پہ اسکے اثرات نمودار نہ ہوں۔
ہمیں اپنے رویوں میں اخلاص پیدا کرنا اور سیکھنا ہو گا کہ ہم جو بھی نیک کام کریں تو خالص اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے ہو اپنے کسی ذاتی مفاد یا کسی انسان کی خوشنودی کے حصول کے لیے نہ ہو۔ کیونکہ بغیر اخلاص کے ہم دکھ تو اٹھا سکتے ہیں اضطراب میں مبتلا رہ سکتے ہیں مگر خالق کی خوشنودی حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ ذرا غور کریں ہمارا نماز کا طریقہ بھی وہی ہے جو میرے آقا ﷺ کا طریقہ مبارک تھا۔ لیکن کیا ہماری نماز آقا کے نماز کے قریب بھی پہنچ سکتی ہے۔ ہرگز نہیں، کبھی سوچا ہے کہ کیوں؟ کیونکہ اخلاص کا جو معیار میرے آقا کو میسر تھا وہ بنی آدم میں کسی کو حاصل نہیں۔
اگر ہم واقعی میں سرکار دو جہاں اور رب کائنات کے قربت کے خواہاں ہیں تو پھر ہمیں اپنے اخلاص کا معیار بڑھانا ہو گا۔ اخلاص کا یہ نمونہ سب سے پہلے والدین سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اکثر ہمارے ہاں گھرانوں میں والدین اخلاص کا کوئی نمونہ اپنے بچوں کے سامنے پیش ہی نہیں کرتے۔ یاد رکھیں بچے والدین کی نقل اتارے ہیں تعقل نہیں۔ آج اپ دیکھ لیں ہمارے ہاں کتنے ہی گھرانوں میں بد نیتی، تعصب، نفرت اور بد کلامی بچوں کے سامنے نمونے کی صورت میں پیش کرتے رہتے ہیں کل جب یہی بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں وہ بھی انہی نقول کو اپنے اعمال میں اتارتے جاتے ہیں۔
والدین کو کبھی بھی اپنے بچوں کو نصیحت کی ضرورت نہیں پڑے گی اگر وہ اپنے بچوں کے سامنے خود کو اک اچھے نمونے اور مثال میں پیش کریں۔ آج ہم اگر اپنے ہی ارد گرد گلی محلے اور مسجد میں بچوں کا احوال ملاحظہ فرمائیں بچوں کی اس قدر بد اخلاقی، بے قدری و بے ادبی اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہے کہ ان کو اپنے گھرانوں میں کوئی اچھے عملی نمو نے میسر نہیں آئے۔
والدین کے بعد دوسری باری اساتذہ کرام کی آتی ہے۔ پہلے پہل مدارس اور سکول میں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی برابر ملا کرتی تھی۔ انہی اساتذہ کرام سے ہی بچے کو اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے، ملنے، بڑوں کے سامنے بات کرنے اور ان کا ادب و احترام کا درس ملا کرتا تھا، یعنی سکول میں اساتذہ کرام بچے کو مکمل سانچے میں ڈھل کر تربیت دیتے ہوتے تھے، صرف پڑھائی نہیں کرواتے تھے۔ آج تو صرف تعلیم کا نوحہ بجایا جا رہا ہے جبکہ تربیت کا لفظ تو غائیب ہی ہو گیا ہے۔
آج ہمارے بچے جتنا علم حاصل کرتے جا رہے ہیں اتنا ہی وہ بد تہذیب، بد تمیز اور بد اخلاق ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ کیوں؟ کیونکہ آج کے استاد صاحب نے بس یہاں تک اپنی ذمہ داری محدود کر رکھی ہے کہ سکول جانا ہے، اپنا پیریڈ لینا ہے اور بس جلدی سے مقررہ وقت بمشکل گزار کے گھر لوٹنا ہے۔ کیا عجیب حال بن گیا ہمارا کہ اب تو ہمارے استاد صاحب کو بچے سے زیادہ گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ بچوں کو کیا تربیت دے گا اور کیا علم؟
استاد کی قوت تو اتنی ہے کہ وہ کسی کی زندگی مکمل بدل کے رکھ سکتا ہے۔ اسی لیے خالق نے اپنے تمام انبیاء کرام علیھم السلام کو استاد کا درجہ و قوت عطا فرمائی۔ استاد کا کردار تو ایسا ہی ہے جیسے کہ اک مجسمہ ساز کا ہوتا ہے۔ جتنا بڑا مجسمہ ساز ہو گا اتنا ہی خوبصورت شاہکار تراشے گا۔ اور معاشرے کو اخلاقی اصول پہ استوار کرنے اور ترک قرآن سے بچانے میں تیسری زمہ داری علمائے کرام پہ عائد ہوتی ہے۔ علمائے کرام بغیر کسی تفریق اور مسلکی تحریف کے معاشرے میں یہ درس عام کرے کہ قرآن ہمیں کسی مخصوص چیز کے بارے میں درس نہیں دیتا بلکہ قرآن عبادات، معاملات، سیاسیات، معاشیات غرض زندگی کے مکمل ضابطہ حیات کے اصول سکھاتا ہے۔
ہم قرب قرآن تب بن سکتے ہیں جب ہم قرآن سے ثواب نہیں بلکہ اس کے شان کے مطابق حکمت و ہدایت حاصل کرنے کی جستجو اور لگن رکھیں گے۔ اس کے لیے علمائے کرام خود کو معاشرے کے سامنے اک عملی نمونہ کے طور پر پیش کریں۔ ایسا نہیں کہ ہم خود تو برائیاں کرتے پھریں، قرآن کے احکامات سے مخالفت رکھیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو وعظ و نصیحتیں بھی سناتے رہیں۔ تب تو کوئی وجہ نہیں کہ تبدیلی معاشرے میں رونما ہو جائے۔ ہمیں ہر حال میں ترک قرآن کا یہ رویہ چھوڑنا ہو گا ورنہ دوسری صورت میں اسی ہی طرح ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے۔ نہ ہمارا ماضی رہے گا، حال کی بدحالی بھی بیزار کرتی رہے گی اور مستقبل بھی تاریک ذلالت کے سوا کچھ نہ دے گا۔
اللہ ہم سب کو صحیح معنوں میں قرآن سے رشد و ہدایت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا شرف عطا فرمائے۔