Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Taleem Aur Zindagi

Taleem Aur Zindagi

تعلیم اور زندگی

تین چیزوں کا تعین کاتب تقدیر نے ہر انسان کے لیے پہلے سے مختص کی ہوئی ہوتی ہے۔ اس پر انسان کو اختیار حاصل نہیں باقی اختیار کل سے نوازا گیا ہے۔ ایک زندگی اور زندگی بھی چار چیزوں کا مجموعہ ہے (پیدائش، عمر، رزق اور جیون ساتھی)، علم اور موت۔ یہ چیزیں انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ باقی انسان اک حد کے اندر اپنے معاملات، عبادات، رسومات وغیرہ وغیرہ سب میں مکمل طور پر بااختیار ہے۔

ان تین چیزوں میں اک علم بھی ہے جو کہ قدرت کی عطا سے نصیب ہوتا ہے۔ علم بھی رزق کی طرح اذن ربی سے اپنے مقررہ وقت، مقررہ مقدار اور اپنی مقررہ جگہ پہ ملا کرتا ہے۔ یہ کبھی بیاباں صحرا میں کسی اجنبی سے ملتاہے، کبھی چرواہے کی صورت میں بابے سے ملتا ہے، تو کبھی گلی کے خوانچہ فروش سے مکئی کے دانے لینے والے لفافے میں چھپا ہوتاہے تو کبھی سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر گندھی پٹھی پرانی اخبار کے ٹکڑے میں چھپا ہوتا ہے۔ قدرت اسکو اپنے مقررہ ہدف تک ہر حال میں اپنے وقت پر پہنچاتا ہے۔ جس طرح اک ماں خوب جانتی ہے اپنے بچے کے بارے میں کہ کس ٹائم پہ اسکے لیے کیا مناسب ہے او ر کیا نہیں۔ کونسی چیز کب اور کتنی دینی ہے۔

ماں کی طرح قدرت ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار فرماتا ہے تو وہ کیسے اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بنی آدم (مخلوق) کے ساتھ ناانصافی یا ظلم کر سکتے ہیں؟ درراصل غنی وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی حاصل کردہ علم پر عمل کی استطاعت رکھتاہو۔ کیونکہ یاد رکھیں علم اگر پہاڑ جتنا بھی ہو مگر بے عمل ہو تو وہ ذہنی ناسور بن جاتا ہے۔ اسکے برعکس اگر علم چند فقروں تک ہی محدود کیوں نہ ہو لیکن بالعمل ہے تو وہ بھی آفاقی کتاب بن جاتا ہے۔ تعلیم کی اک ہی خوبی ہے اور وہ یہ کہ تعلیم شعوری طور پر جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے۔ اخلاق و عادات مزین شدہ راستہ دکھاتی ہے، زمانہ یا وقت ایک باپ یا اک استاد کی طرح انگلی پکڑ کر زمین پر رینگنے سے اٹھا کر اپنے قدموں پہ چلنا سکھاتی ہے۔ اور زندگی یا دنیا اس کے حصول اور چلنے کا ذریعہ بنتی ہے۔

علم چاہے عصری ہی کیوں نہ ہو اگر فائدہ دے رہا ہے تو وحی کی مانند ہے اور اگر دینی علم بھی ہو مگر فائدہ نہیں دے رہا تو وبال جاں بنتا ہے۔ بلکل ایسے جیسے کہ نیم حکیم خطرہ جاں اور نیم ملا خطرہ ایماں، لیکن بدقسمتی سے آج کل کے دور میں اسلامی بلکہ پوری مشرقی دنیا میں علم کو بہت ہی محدود معنوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ تعلیم کو فقط کاغذی ڈگریوں کی حد تک پڑھا اور پڑھایا جانے لگا ہے۔ جوکہ خوشحالی، امن اور سکوں کا ذریعہ بننے کی بجائے معاشرتی، سماجی، معاشی ناسور بنتا جا رہے اور دیمک کی طرح معاشرے کے مزین چوکھٹوں کو اندر ہی اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر رہاہے۔

تعلیم کے نام پہ دیے جانے والی اعلیٰ کاغذی ڈگریاں اس آگ کے لیے مرغوب ایندھن کا ساماں بنتا جارہا ہے۔ تعلیم وہ جو سوچ بدل دے، کیونکہ سوچ کے بدلنے سے ہی زندگی بدلتی ہے۔ لیکن یہاں پر تو گنگا الٹا بہتی ہے اور نہ ہی سیدھا۔ جس میں علم، سوچ اور زندگی کی جیسی معصوم اور گراں قدر مچھلیاں آکسیجن کے مسدود ہونے کی وجہ سے سسک سسک کر زندگی کی اپنی آخری سانسیں گن رہی ہیں۔ ہم سب انسانیت میں بے حسی کے اس معراج پہ پہنچے ہوئے ہیں جو بجائے اسکے کہ ہم تڑپتی، بلکتی ہوئی ان مچھلیوں اور جمود ہوئے اس بدبودار پانی کا کوئی سدباب اور مسیحا ڈھونڈ کر پانی سمیت اسکے باسیوں کی زندگی کو بچا لے۔ ہم لوگ اپنے ڈی پیز اور فیس بک سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے، چندکھوکھلے کمنٹس اور لایئک کرنے کے لیے سیلفیز اور لائیو اپ ڈیٹس کی خباثت میں غرق ہوئے زندگی کو ہونٹوں کے سرے سے آخری ہچکی کی صورت میں سرکنے کا تماشہ کررہے ہوتے ہیں۔

وطن سے منہ زبانی محبت میں مجنونیت ہمارے رگ وپے میں سرائیت کرچکی ہے لیکن عملی طور پر وطن سے محبت کے اظہار اور سچی قربانی دینے میں ہمارا حال اس مرد طوائف جو ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کا بہانہ کے مترادف ہے بنا کر نالائقی کو چھپانے کے لیے وطن پر بے معنی اور نالائقی کے الزام تراشی کرتے رہتے ہیں۔ ترقی کامیابی، انقلاب اور تبدیلی الہ دین کے چراغ سے نہیں آتی اور نہ ہی یہ معجزات کا وقت ہے اور نہ ہماری اتنی اوقات ہیں کہ معجزہ نمودار ہوجائے۔

دنیا کے کسی بھی دور میں جھانک کر دیکھیں تو ترقی یوں چٹکی بجانے سے نہیں آئی بلکہ یہ باقاعدہ اپنے ارتقائی مراحل سے گزر کے آئی ہے اور اس کا اہم جز تعلیم ہی رہا ہے۔ وقت کی خزاں کی خشک ہوائیں آج تک اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ جاپان کو ہی دیکھیں آج جاپان دنیا کے اس مقام پہ کیسے اور کیوں ہے؟ اس کے بادشاہ کی عرضداشت پہ غور تو کریں کہ جب امریکہ نے جاپان کے دونوں شہر پوری طرح سے شمشان گھاٹ میں بدل دیا تھا۔ جاپان کے بادشاہ کو امریکی جنرل کے سامنے پیش کرنے کے لیے لایا گیا۔ جنرل نے کہا سرینڈر کردو، ہار مان لو۔ جاپان کے بادشاہ نے ہاتھ اپنے اوپر کر لیے اور امریکی جنرل سے کہا کہ میں ہار مانتا ہوں اور سرینڈر کر رہا ہوں۔ آپ جو چاہو میرے ملک کے ساتھ کر لو، فوج ختم کرلو، اسلحہ، معاشیات، صنعت سب کچھ تباہ کردو لیکن بس مری اک گزارش قبول کر لو۔ جنرل نے پوچھا کیا؟ بادشاہ نے عرض کیا بس اک تعلیم مجھے دے دو اسکو مرے پاس رہنے دو۔

جنرل آخر جنرل تھا بندوق کے میگزین اور گولیاں چلانے والے کی ذہنیت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جنرل نے مانتے ہوئے کہا ٹھیک ہے تعلیم تمہاری ہوگئی۔ بادشاہ باہر نکلا اور کہا کہ اب ہم جیت کر دکھائینگے۔ جاپان نے بغیر ہتھیار، بغیر کسی فوجی یا جنگی سامان کے امریکہ کو مات دی۔ آج جاپان جس مقام پر ہے اس میں اسکی علمی کاوش کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ تعلیم آخر کونسی تعلیم کیا یونیورسٹیوں، کالجوں اور گلی گلی میں سکولوں کی بھونچال میں دی جانے والی سطحی تعلیم؟ کیا کاغذی ڈگریوں کے گونگے اور اعلیٰ معیار کے رٹو طوطنے والی تعلیم؟ کیا تعلیمی اداروں کی تعداد کے کندھے پہ بیٹھ کے تعلیمی ترقی کے پل صراط طے کیے جاسکتے ہیں؟

یاد رکھیں تعلیمی میدان میں ترقی کا تعلق اداروں کی بہتات سے نہیں بلکہ علم کا معیار بڑھانے سے آتی ہے۔ آئیے آج اس کا بات کا ادراک کرلیں کہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے زریں اصول کیا ہوتے ہیں؟ اور کسی بھی ادارے یا ملک میں تعلیمی معیار کو پرکھنے کے لیے کونسے پانچ چیزوں کا مشاہدہ کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی بھی ادارے یا ملک میں دی جانے والی تعلیم مطلوبہ پانچ تنائج دے رہی ہو تو وہ تعلیم، تعلیم کہلانے اور وہ ادارہ تعلیمی درسگاہ کہلانے کا حق رکھتا ہے۔ آئیے ان نتائج پر اک نظر ڈالیں۔

٭ کسی بھی ادارے میں دی جانے والی تعلیم اپنے بڑھنے ولے طلباء میں ڈیویلپمنٹ اور گرومنگ کی صلاحیت پیدا کرتی ہو۔

٭ تعلیم و سائل کو مینج کرنا سکھاتی ہے۔ وسائل سے مراد وقت، دولت اور انرجی (توانائی) وغیرہ کا صحیح استعمال کرنا۔

٭تعلیم وژن دیتی ہے، یعنی مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔

٭تعلیم کردارساز ہوتی ہے۔ وہ اچھے اور اعلی اخلاق کی ضامن ہوتی ہے۔

٭ اور تعلیم Progression یعنی زندگی میں آگے بڑھنے کا جذبہ اور صلاحیت پیدا کرتی ہے۔

کسی بھی ادارے میں دی جانے والی تعلیم اگر درجہ بالاپانچ نتائج دے رہی ہو تو وہ تعلیم تعلیم نہیں کہلاتی۔ اور نہ وہ ادارہ تعلیمی درسگاہ کہلانے کا حق رکھتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں اس معیار پہ اترنے والی درسگاہیں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ یہاں تو دو ہی چیزیں ملتی ہے۔ اک تعلیمی اداروں کے مالکان کو اقتصادی امارت جو دن بدن امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف طلباء تعلیمی، اخلاقی، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے غربت کی لکیر پہ رول رہے ہیں۔ جب کسی بھی ملک میں درجہ بالا معیار کی تعلیمی قلت پیدا ہوجائے اس انفرادی اور اجتماعی دونوں زندگیوں پہ درج ذیل نتائج مرتب ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کی معاشرتی زندگی کے لیے وبال جاں بن جاتی ہے۔

٭ ڈگری یافتہ اور رٹو یافتہ پڑھے لکھے جہلا کی فوج پیدا ہوتی ہے۔ جو نہ تو کسی کام کے ہوتے ہیں اور نہ کاج کے بس دشمن صرف اناج کے ہوتے ہیں۔

٭خواندگی کا گراف بڑھتا ہے لیکن روزگار کا گراف تیزی سے نیچے گرتا ہے جو بدترین غربت کے لیے بہترین بیچ کا کا م دیتی ہے۔

٭امن اور غربت دوا ایسی سوکن ہوتی ہے جو جنت کو جہنم بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔ جہاں غربت پڑاؤ ڈالے وہاں امن کا جینا محال ہوجاتا ہے۔

٭جب کسی زمین پہ امن کے کھلیان اجڑ جائے پھر وہ جگہ جانوروں اور زہریلے جانداروں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔

٭ امن کی شکست یافتہ ہیروشیما پہ ہریالی کے لوٹنے میں نسلیں گزر جایا کرتی ہیں۔

کتنی نسلوں کے قربانی دینے کے بعد کہیں جا کے ان کے چڑھاوں کو قبولیت کا شرف نصیب ہوتا ہے۔ آج بھی کچھ نہیں بگڑا، ابھی اتنی دیر نہیں ہوئی۔ واپسی کے راستے ابھی بھی کھلے ہیں۔ آئیں مل کے فیصلہ کرتے ہیں اور یہ طے کرلیں کا ماضی کا شکستہ یافتہ ہیروشیما بننا ہے یا پھر آج کا ترقی یافتہ ہیروشیما بننا ہے۔ یہ سب ہمیں خود ہی کرنا پڑھے گا اسکے لیے آسماں سے کوئی فرشتے نازل نہیں ہونگے۔ اسکا واحد یہی حل ہے کہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جائے نہ کہ تعداد پہ زور دیا جائے۔ بات کبھی کوانٹٹی پہ نہیں بلکہ کوالٹی سے بنے گی۔

ہمیں اپنے اداروں کو تعلیمی نظام کو نمبروں، جی پی ایز اور پرسنٹیج کی قید سے آزاد کرانا ہوگا۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب اور امتحانی ڈھانچوں کی نیلام گری کے تحت کو تاراج کرنا پرے گا۔ ورنہ ہم ہر سال نیلام گھروں سے سٹے باز ماہر افرادی قوت پیدا کرتے جائیں گے جو کہ عملی زندگی کو قسمت کے پتے آج یہ عزم کرنا ہوگا کہ ہیروشیما کے مثل اپنے اس اجڑے دیار کو پھر سے آباد کرنے کے لیے علم کے نئے تازہ بیچ بونے ہونگے ورنہ دوسری صورت میں ہم دوسروں کی تفریح طبع کا ساماں بنتے رہیں گے، جرنلوں کے میگزینوں کے چڑھاوں کے بھینت چڑھتے جائیں گے اور وہ ہماری حالت سے محفوظ ہوتے رہیں گے۔

Check Also

Thanda Mard

By Tahira Kazmi