Shab e Barat Aur Hamara Tarz e Amal
شب برات اور ہمارا طرز عمل
روئے زمین پہ موجود ہر قوم اپنے مخصوص روایات اور تہوار سے پہچانی جاتی ہیں۔ اور اسی میں ہی قوموں کی بقاء مضمر ہوتی ہے۔ ہر قوم اورہر مذہب میں موجود تہوار اک خاص دن پہ معین ہوتے ہیں اور اس دن کا اس تہوار سے اک اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے۔ وہ دن اور وہ تہوار اپنے ا ندر پوری تاریخ کے ساتھ ساتھ تہوار سے منسوب مخصوص پیغام بھی لیے ہوتی ہے۔ کوئی ثقافت یا تہوار فقط اک کھیل تماشے یا چند رسومات کی ادائیگی تک محدود نہیں ہوتی۔ جو کہ بد قسمتی سے عہد حاضر میں تہوار اور ثقافت اپنا اصل کھو چکی ہے۔ اور ہم مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ بڑی تیزی سے اس دوڑ میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔ جدید دور کے جدید ذرائع ابلاغ نے جہاں انسانی زندگی میں طلسماتی بدلاو لاچکی ہے وہاں انسان کے ہاتھ اپنے ہی اقدار، روایات کے خون سے رنگ دیئے ہیں۔
دوسرے مذاہب کی طرح ہم مسلمانوں نے بھی اسلامی تقریبات اور تہواروں کا مذاق اڑانا شروع کیا ہوا ہے۔ جیسے رمضان کے مہینہ کی آمد ہوتی ہے۔ تو اک مہینہ پہلے من گھڑت احادیث (جو رمضان کی خوشخبری جو کسی دوسرے مسلمان کو سب سے پہلے دے گا وہ جنت میں جائے گا) کو اٹھا کر سوشل ابلاغی راستوں سے پھیلانا شروع کردیتےہیں۔ نہ کوئی تحقیق کی زحمت اٹھاتے ہیں اور نہ کسی سے تصدیق کرواتے ہیں بس چل سو چل نیکیاں اکھٹے کرنے کے چکر میں کیے ہوئے اعمال کا بھی ستیاناس کررہے ہوتے ہیں۔
آج اک دوست نے بڑا خوبصورت سٹیٹس لگایا یہی سٹیٹس ہی دراصل مری اس تحریر کا سبب بنا، لکھنے والے نے پوسٹ کیا تھا جس کو میں نے کچھ یوں مدون کیا، " اگر حقیقت میں کسی کا دل دکھایا ہے تو جاکر ان سے فزیکلی معافی مانگیں۔ شب براءت کی غرض سے سٹیٹس لگانے سے نہ تو معافی ہوتی ہے اور توبہ و ایجاب۔"۔ علامہ صاحب نے کیا خوب ترجمانی فرمائی ہے۔۔
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
ہم مسلمان آج اپنے ہر اسلامی روایت اور تہوار کو بس اک کھیل کود سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ہمارے ہر عمل میں دانستہ نا دانستہ طور پر ریاء شامل حال ہوچکی ہے۔ بکرا عید آتی ہے تو سیلفیوں کی نظر ہوجاتی ہے، رمضان کا مہینہ ناجائز منافع کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، ربیع الاول ایسے محافل و سماع میں رنگ جاتا ہے کہ قرب وجوار میں موجود ہر زی روح پہ وہ ساعتیں نہایت کوفت و اذیت میں گزرتے ہیں، اور شب براءت پہ ڈیجیٹل معافیاں تلافیاں بانٹھنی شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ سارے اسلامی تہواریں اور دن اک خاص پیغام و اصلاحی اقدار لے کر آتی ہیں۔ مگر ہم سوشل میڈیا پہ ریاکاری کرنے کے سوا کچھ اس دن سے حاصل نہیں کرتے۔ اب جبکہ شعبان کا مہینہ شروع ہوچکا ہے اور ڈیجیٹل دور کے مسلمانوں کے ڈیجیٹل معافیوں و تلافیوں کا سلسلہ بھی عنقریب شروع ہوجائے گا۔ ان میں سے آدھے سے زیادہ شاید شب براءت کا مطلب۔ بھی جانتے ہوں۔
براۃ کے معنیٰ ہیں نجات، اور شبِ برات کا معنیٰ ہے گناہوں سے نجات کی رات۔ گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے۔ یہ رات مسلمانوں کے لئے آہ و گریہ و زاری کی رات ہے، رب کریم سے تجدید عہد کی رات ہے، شیطانی خواہشات اور نفس کے خلاف جہاد کی رات ہے، یہ رات اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے زیادہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کی رات ہے۔ اسی رات نیک اعمال کرنے کا عہد اور برائیوں سے دور رہنے کا عہد دل پر موجود گناہوں سے زنگ کو ختم کرنے کاموجب بن سکتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
حٰم وَالْکِتٰبِ الْمُبِيْنِ اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـهُ فِیْ لَيْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِيْنَ فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِيْمٍ
حا میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں) اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے۔ بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کردیا جاتاہے۔ الدخان، 44: 1تا4
جاراللہ ابو قاسم زمخشری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
نصف شعبان کی رات کے چار نام ہیں: لیلۃ المبارکہ، لیلۃ البراۃ، لیلۃ الصک اور لیلۃ الرحمۃ۔
اور کہا گیا ہے کہ اس کو شب برات اور شب صک اس لئے کہتے ہیں۔ کہ بُندار یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ میں وہ پیمانہ ہوکہ جس سے ذمیوں سے پورا خراج لے کر ان کے لئے برات لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس رات کو اپنے بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیتا ہے۔ اس کے اور لیلۃ القدر کے درمیان چالیس راتوں کا فاصلہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ رات پانچ خصوصیتوں کی حامل ہوتی ہے۔
اس میں ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے۔اس میں عبادت کرنے کی فضیلت ہے۔اس میں رحمت کانزول ہوتا ہے۔اس میں شفاعت کا اتمام ہوتا ہے۔ اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رات میں یہ عادت کریمہ ہے کہ اس میں آب زمزم میں ظاہراً زیادتی فرماتا ہے۔
شب برات بھٹکے ہوئے اور سرکش لوگوں کے لئے ایک دستک ہے۔ جو آخرت کی زندگی کو بھول کر دنیاوی زندگی کے گورکھ دھندوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ رات ان کے لئے اپنے رب کی طرف بلاوہ، اور اسے منانے کی رات ہے۔ جب کوئی شخص کماحقہ اس رات کو اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں بسر کرتا ہے، تسبیح و تہلیل کرتا ہے، درود و سلام کے گجرے پیش کرتا ہے، گناہوں سے معمور دامن ذکر الہٰی سے صاف کرتا ہے۔ تو یہ رات اسکے لئے بہت سے انعام و اکرام لاتی ہے۔ تقدیریں بدل جاتی ہیں، زندگی کے حالات بدل جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس ایک عظیم رات کو اس میں کار فرما روح کے مطابق گزارنے کے ہی بدولت ممکن ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔
یَمْحُوا اﷲُ مَا یَشَآئُ وَ یُثْبِتُ وَ عِنْدَه اُمُّ الْکِتٰبِ
ﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہ۔۔۔ الرعد، 13: 39۔ (بحوالہ دارالافتاء)
شب برات ہمارے احوال کو بدل دیتی ہے۔ اگر انسان احسن طور پر اس کے لوازمات پورے کرے تو یہ رات گناہوں کے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر اس رات اپنے رب کے حضور ندامت اشک کے آنسو بہائے اور نالہ و فریاد کرے، اپنے صغائر و کبائر گناہوں کے لئے معافی کا خواست گار بنے تو اس وقت بدحالی، خوشحالی اور تنگی، آسانی میں بدل جاتی ہے۔
مگر افسوس کی بات کہ ہم نے اس میں بھی من گھڑت کہانیاں گھڑ لیے ہیں۔ اس رات نہ تو کسی قسم کے پکوان پکانے کا کوئی ثبوت شریعت میں ثابت ہے اور نہ کوئئ خاص طرز پہ عبادت (نوافل یا اذکار) ثابت ہیں۔ ہم نے اس دن کے مناسبت سے اپنے طرف سے عجیب قسم کے عوامل منسوب کرلیے ہیں۔ جیسے کہ اس دن قبرستان میں اپنے عزیزوں کے قبروں پہ پانی کا مٹکا لے کر حاضری دینا۔ مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں۔
اس رات میں ایک اور عمل ہے۔ جو ایک روایت سے ثابت ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے اب چونکہ حضور اکرم ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برات میں قبرستان جائیں، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ علیہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے فرماتے تھے۔ کہ جو چیز رسول اللہ ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیات طیبہ میں رسول اللہ ﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے۔ کہ آپ شب برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا، اور اس کو ضروری سمجھنا اور اس کو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔
مگر ہم نے شب براءت کے دن قبرستان میں جانے کی ایسی روایت گھڑ لی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ اس دن قبرستان جانے میں جوان لڑکے اور لڑکیوں کی بونچال زیادہ نظر آتی ہے۔ کیونکہ یہ دن شب براءت کی مناسبت سے قبرستان میں حاضری سے زیادہ ڈیٹنگ اور ملاقاتیں چل رہی ہوتی ہیں۔ ہم پٹھانوں کے ہاں گاوں اور پہاڑ ی علاقوں میں ڈیٹنگ کا تصور نہیں پایا جاتا تو جدید دور میں پھلتے ہوئے نئی جنریشن نے اس اسلوب کا اک نیا اور انوکھا حل نکالا ہے کہ اس دن عمومی طور پر دور سے سہی پر لیلی کے دیدار و ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لیے قبرستان سے بہترین جگہ اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اور ایسے ہی اک آدھ واقعے کا تو میں عینی شاھد بھی ہوں۔
اسکے علاوہ اس دن پکوان پکانے کا رواج بھی ہمارے ہاں عام ہو چکا ہے جس کی کوئی دلیل یا سند موجود نہیں۔ اس دن حلوہ پکانا، پٹاخا چھڑانا، قبرستان میں چراغاں کرنا، قبروں پر اگربتی موم بتی جلانا، مسجدوں میں جمع ہونے کا اہتمام کرنا وغیرہ رسوم بدعت ہیں۔ خدارا اسلام کے ساتھ اور دین محمدی کے تمام تہواروں اور روایتوں کا جدیدیت اور لبرل ازم کی آڑ میں مذاق اڑانا بند کریں۔