Ramzan Kareem, Sarapa Rehmat (2)
رمضان کریم ، سراپا رحمت (2)
لیکن ہمارے ہاں تو اللہ معافی سے رمضان کے مہینے میں الٹا صحتیں بگڑ جاتی ہیں۔ معاذا للہ اکثر اوقات جسم کی حالت قابل رحم حد تک آجاتی ہے۔ کیونکہ ہم نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ ر وزہ پراٹے اور پکوڑوں کے بغیر ہوتا ہی نہیں۔ ہم نے روزے کامطلب یہ ذہن نشین کرا چکے ہیں کہ اس میں کھانے پینے کی کھلی چوٹ ہے جو چاہے اور جیسے چاہتے بس کھاو کیونکہ اس مہینے میں حسا ب کتاب کوئی نہیں، جبکہ ہم بد بخت بھول گئے ہیں کہ روزہ سے اگر ہمیں جسمانی صحت کی توانائی روحانی بالیدگی نصیب نہ ہوئی تو پھر روزے کا کوئی مقصد نہیں بچتا اور اج یہی کچھ ہمارے حالات ہوتے ہیں رمضان کے مہینے میں اور اکثر اوقا ت تو اس سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں۔
اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ روزے کا احترام کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرنے سے اخلاقی بیماریاں بھی دور ہوتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں حالات بالکل ہی اسکے بر عکس ہیں۔
(۶) اس ضمن میں کمال حکمت کی بات غور و فکر کے حوالے سے، کہ محبو ب پاک علیہ الصلواۃ والسلا م غور و فکر کے لیے غار حرا تشریف لے جایا کرتے تھے اور " حرا " کے معنی بھی غور و فکر کے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں محبوب پاک علیہ الصلواۃ والسلام کے طریق مبارک کو اپنا کر خاموشی کو اختیار کرنے سے شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے، شخصیت میں چھپی تمام خوبیاں، مہارتیں، ٹیلنٹ و قابلیت ابھر کر بھر پور طریقے سے سامنے آتے ہیں۔ خامو شی کوعبادت کہنے کی وجہ اک یہ بھی ہے کہ یہ محبوب پاک علیہ الصلواۃ والسلام کی سنت مبارکہ بھی ہے۔ مرے کملی والے ﷺ کی گفتگو کے اختصار کا اندازہ اس سے لگائیں کہ آپ علیہ الصلوات والسلام کا سب سے لمبا خطبہ حجتہ الوداع تھا جو بارہ منٹ کے دورانیے کا تھا۔ یعنی جتنی خاموشی اختیار کی جاتی ہے کام میں نکھار اتنا ہی پیداہوتا ہے۔
آج اگر عہد حاضر کے ترقی یافتہ ممالک پہ نظر ڈالیں تو وہ لوگ بھی باتیں کم کرتے ہیں اور کام زیادہ او ر موثر طور پر کرتے ہیں۔ اور اس کے مقابلے میں اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جتنی فضول اور لایعنی الاپیں ادھر ہمارے ہاں بجائی جاتی ہیں شائد ہی دنیا کے کسی اور ملک میں بجائی جاتی ہوں۔
(۷) تراویح کی عبادت بھی اسی مہینہ میں دی گئی ہے تاکہ مشترکہ طور پر جماعت کی صورت میں کلام پاک کو سنیں اور اس سے برکت و ثواب حاصل کر سکیں جو کہ انفرادی طور پر کھڑے ہوکر سننا یا پڑھنا شائد ہر کسی کے لیے اتنا آسان اور باعث برکت و ثواب نہ ہو جتنا کہ باجماعت کھڑے ہو کر ادا کرنا ہوتا ہے۔
(۸) اب سب سے بڑھ کر نعمت لیلۃ القدر عطا کی ہو جو ہزار مہینوں سے افضل و برتر ہے۔ اسکی عظمت بیان کرنے کے لیے رب کائنات نے اپنے کلام مجید میں ا س کا تذکرہ فرمایا کہ یہ اک رات ہزار راتوں، مہینوں سے زیادہ مکرم، معزز اور محترم ہے۔ اور اس رات رحمت خداوند کی جوش کا نظارہ تو دیکھیں کہ اس رات کوئی مغفرت مانگے تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ جل شانہ اسکی مغفرت نہ فرمائے ورنہ وہ کریم ذات لیلہ القدر کی رات عنایت نہ فرماتے۔
(۹) اعتکاف، رمضان کریم کے آخری حصے میں اعتکاف کی رحمت عطا کی۔ یہ عمل اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔ کہ اللہ کا بندہ اپنی ساری چیزیں، رابطے، تعلقات کو ان دنوں میں چھوڑ کر اک کونے میں معتکف رہتا ہے۔ تاکہ غور و فکر کرسکیں جیسے کہ محبوب پاک علیہ الصلواۃ والسلام بذات خود رمضان کریم میں اعتکاف فرماتے تھے۔ اور بیچ میں اک سال محبوب پاک ﷺ اعتکاف نہ کر سکے تو اسکے اگلے سال محبو پاک نے ۲۰ (بیس) دن اعتکاف فرمایا۔ صر ف اس بات کو سمجھانے کہ غرض کہ غور و فکر کتنی اہم عبادت ہے اور اس کے بڑھ کوئی عبادت نہیں۔ لیکن ہمارے مسجدوں اور گھروں میں ہونے والے اعتکاف کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہمارے اعتکاف بھی اک فیشن اختیار کر چکا ہے۔ عہد حاضر میں اعتکاف غور و فکر کے لیے نہیں بلکہ بسیار خوری، نیند پوری کرنے کا اک بہترین موقع بن چکا ہے۔
(۱۰) اور پھر اس سے بڑھ کر نیکی اللہ کی سخاوت تو دیکھیں کہ ہر نیکی کا بدل 70 گنا ہ کر دیا۔ یعنی اک نیکی کا بدلہ ۰۵ کی بجائے 70 گنا ہ ملے گا۔ جیسے کہ اک روزہ 70 روزوں کے برابر ہوگا۔ ہر نیکی کو 70 کے عدد سے ضرب دی جائے گی۔ اور یاد رہے عربی میں عدد 70 کا مطلب لیا جاتا ہے لاتعدا د جیسے کہ ہم اردو میں بولتے ہیں بے شمار۔ تو آسان لفظوں میں مطلب یہ بن جائے گا کہ اللہ تبار ک و تعالی فیوض و برکات بے شمار(70) دیتے ہیں۔
(۱۱) جہاد کی فرضیت کا حکم بھی رمضان کے مہینے میں نازل ہوئی تھی اور سب سے پہلا جہاد بھی رمضان میں ہوا تھا۔ جنگ بدر؛ جنگ بدر رمضان میں ہی لڑی گئی تھی اور تب تمام صحابہ روزے سے تھے۔
تو درجہ بالا انعامات خدواندی سے بخوبی جوش رحمت باری تعالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے کہ خزانے کا منہ کھلا ہو اور بانٹنے والا بے حساب بانٹ بھی رہا ہو اور پھر بھی دامن حالی لے کر لوٹا جائے۔ اس سے زیادہ بدبختی کچھ اور ہو نہیں سکتی۔ لیکن نہایت اور افسوس کا مقام ہے ہم پھر بھی اسی قسم کی بدبختی کا شکار ماہ رمضان میں رہتے ہیں۔ رمضان کے ابتداء میں مسجدیں ہماری بھری ہوتی ہے، بالخصوص فجر کی نماز میں اور یوں باقی نمازوں میں بھی جگہ ملنا محال ہوتا ہے وضو خانوں پہ قطار لگے ہوتے ہیں مگر جیسے ہی جیسے کچھ روزے گزر جاتے ہیں تو پھر یہی اچھی عادت بسیار خوری کے بابت ماند پڑھ جاتی ہے اور پھر آغاز اول تروایح کے چھوڑنے سے کرتے ہیں۔ اور یوں کرتے کرتے باقی نمازوں میں گھٹتے چلے جا رہے ہوتے ہیں اور بالآخر وہی پہ آپہنچ لیتے ہیں جہاں سے ہم نے رمضان کریم شروع کیاتھا۔ اور اسی لیے ہم رمضان کے مہینے میں بھی ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔
رمضان کے گزرنے کے بعد رتی برابر تبدیلی نہیں آئی ہوتی سوائے جسمانی نقاہت کے۔ ہم رمضان میں بس فقط اک ہی کام کر لیتے ہیں کہ بھوکے پیاسے رہ کر وقت گزار لیتے ہیں جبکہ باقی ساری چیزیں اور معاملا ت من وعن رہتے ہیں۔ ہمارا رمضان کامہینہ گزارنے کا اسلوب نہ ہمیں اس دنیا میں کچھ فائدہ دے جاتا ہے اور نہ اخرت میں کام آئے گا۔ روزے سے مقصود تقویٰ ہے فقط بھوکا رہنے سے کیا حاصل؟ کیا آج تک جبکہ کتنی سالوں سے ہم روزے رکھتے چلے آرہے ہیں ہم پہ تقویٰ کا گرد بھی پڑا ہے؟ نہیں اسلیے کہ ہم نے رمضان کریم کے اصل مقصد کو پس پشت ڈال دیاہے۔ بس اک بھوک اور پیاس کی حالت میں رمضاں کی ساعتیں گزار دیتے ہیں جو کہ صرف جسمانی نقا ہت سے نواز دیتی ہے اور باقی ماندہ رویہ اور معاملات جوں کے توں رہتے ہیں۔
اللہ ہماری حالت پہ رحم فرمائے اور ہمیں رمضان کو اسکے حقیقی معنوں میں سر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔