Naya Aur Purana Pakistan
نیا اور پرانا پاکستان
ابھی خان صاحب نئے اور پرانے پاکستا ن کا نظریہ لے کر جلسہ گاہوں میں اپنے آنے والے الیکشن میں اپنا راستہ ناپ رہے تھے۔ انہی دنوں میں میں نے کراچی سے تعلق رکھنے والے موٹیوشنل سپیکر کے الفاظ کو اپنے آرٹیکل میں کوٹ کیا تھا کہ نئے پاکستان کا خواب پرانے پاکستان سے بھی برا معلوم ہو رہا ہے/ ہو سکتاہے۔ تب مرےاپنوں نے بھی کوسا اور دوست احباب پی ٹی آئی جیالوں نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ میں نے خان صاحب کے متعلق کچھ زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ لیکن اس وقت تو مرے پاس اپنے لکھے ہوئے کے حق میں کوئی مدلل جواز موجود نہیں تھا۔ مگر خدشات کے نگرپہ میں اپنے خیالوں اور الفاظوں کے ساتھ آوارا گردی کر رہا تھا۔ درحقیقت ہرپاکستانی آنکھ اقتدار کے کرسی کے گرد رچائے جانے والے " راونڈنگ چئیر " کے اس ناٹک کو دیکھ دیکھ کر آشوب زدہ ہو چکی تھی۔ ایسے میں ڈوبتے کو تنکے کا سہا را بھی کافی ہوتا ہے کے مصداق خان صاحب لوگوں کے دلو ں میں گھر بناتے جا رہے تھے۔ اسکی بظاہر سب سبے بڑی وجہ یہ تھی کہ اقتدار کے گرد اس بار رچانے والے " راونڈنگ چیئر " کے ناٹک میں اک بلکل نئے چہرے اور عزم کی انٹری ہونے جارہی تھی جو قحط الرجال فی السیاست میں اک نئی صبح کی کرن بن کر ابھر رہی تھی۔ خان صاحب کے نیا پاکستان کے نظریے میں کئی نکات تھے، مگر جس میں زیادہ زبان زد عام گردش کرنے والا نکتہ تھا کہ چوروں لٹیروں کو نہیں چھوڑنا ان سے نہ صرف احتساب کرنا ہے بلکہ لوٹی ہوئی ساری دولت بھی واپس لانی ہے، میرٹوکریسی کا نفاذ ہوگا، کرپشن کا خاتمہ کرینگے، اور امن عامہ کو نافذ کرنے واالے ادارو ں میں سے "پولیس " میں ریفارم لائی جائے گی۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں اور 60ء کی دہائی میں پائے جانے والے پرانے پاکستان کی ا ک جھلک دیکھ لیں اور اس کے بعد عصر حاضر کے نئے پاکستان کو دیکھ لیں تو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوگی کہ کونسا پاکستان بہتر تھا پرانا پاکستان یا نیا پاکستان؟
افسوس کہ نئے پاکستان میں ہم آج بھی اسی ایک ذہنی بیماری یا انتشار کا شکار ہیں۔ کہ ہم غلط، غیر قانونی اور غیر اسلامی کام کرنے پہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ جیسے کہ سفارش پہ بھرتیاں، سرے عام پیسوں کے عوض نوکریوں کا سودا طے کرنا، سیاسی عمائدین کا لٹو اپنے ہی اقرباء کے گرد گھومنا وغیرہ وغیرہ، یہ سب پرانے پاکستان میں بھی تھا اور نئے پاکستان میں بھِی ہو رہا ہے۔ پھر یہ نیا پاکستان کس زاویے سے ہوا؟ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ خان صاحب اپنے جیب سے آلہ دین کا چراغ نکال کر رگڑ لیں اور پاکستان کے وجود سے منسلک پشت درپشت سے آتے ہوئے ان گھمبیرمسائل کو حل کرادیں۔ مگر دوسال سے زائد عرصہ اقتدار میں رہتے ہوئے نئے پاکستان کے تعمیر کی طرف لیے ہوئے اقدامات کی جھلک بھی کہیں نہ کہیں نظر تو آنی چاہیے۔ کسی بھی ادارے یا جگہ پہ نئی تبدیلی کا احساس تو محسوس ہونا چاہیے۔ میں یہاں سردست یہ بات واضح کرتا جاوں کہ میں بھلے ہی تبدیلی حکومت کے کارکردگی پہ معترض ہوں لیکن خان صاحب بلا مبالغہ مانتا اور لکھتا ہوں کہ " ذاتی طور پر چور، کرپٹ اور بے ایمان نہیں ہیں۔" میں اپنے خلقہ احباب میں کئی بار اس بات کا اظہار کر چکا ہو ں کہ گر خان صاحب ڈیلیورنہ کرسکے پھر بھی اس بات کا یقین بلا شک و شعبہ پاکستان کے ہر بچے اور بوڑھے کو کرنا چاہیے کہ یہ ملک کا پیسہ لو ٹ کر نہیں جایئنگے۔
اب میں خان صاحب کے اقتدار پہ اعتراض کا قلم اٹھانے کے بابت کچھ عینی مثالیں سامنے رکھتا ہوں جس کے بعد خان صاحب کے ٹیم کی کارکردگی اور مرے اعتراض کے متعلق فیصلہ آپ لوگوں پہ چھوڑدونگا کہ میں اپنے اعتراض میں کہاں تک درست ہوں اور خان صاحب کی ٹیم کہاں تک اور کس طرح پر فارم کرچکی ہے یا کر رہے ہیں۔
میرے علاقے کے لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ خان صاحب کے ٹیم کا اک کھلاڑی مرے حلقہ سے تعلق رکھنے والے موصوف صوبائی حکومت میں اک اچھے وزارتی کرسی پہ براجمان ہیں۔ موصوف خاندانی امیر ہیں اور ان کے خاندان کی ایمانداری میں کوئی شعبہ نہیں۔ یہ پچھلے دور میں بھی خان صاحب کے ٹیم کاحصہ رہے ہیں جب خان صاحب صرف خیبر پختونخواہ میں برسر اقتدار آئے تھے اور اس بار بھی یہ ان کے ٹیم کا حصہ ہیں۔ خان صاحب کے الیکشن کمپین کے منشور کے مطابق میرٹوکریسی کوقائم کیا جائے گا۔ مگر خان صاحب کے الفاظ صرف خان صاحب کے تھے اس سے خیبرپختونخواہ میں موجود خان صاحب کے ٹیم کا کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی کوئی واسطہ و تعلق۔ کیونکہ خان صاحب کے ٹیم سے جڑے مرے حلقے کے ممبران و جملہ اراکین نے اپنے ان لوگوں میں ایسے بندوں کو بھی صوبائی حکومت میں سرکاری پوسٹ پہ بھرتی کراچکے ہیں جن کی واحد قابلیت الیکشن کمپین میں پی ٹی آئی کے لیے ان تھک مخنت اور بھاگ دوڑ تھی۔ جو بظا ہر تو قو م کے وسیع تر مفاد کی خاطر تھا مگر برسراقتدار آنے کے بعد وہ قومی مفاد اپنے ذات کے وسیع تر مفاد میں ضم ہوگیا۔ جو کہ درپردہ حقیقتا وہ بظاہر دکھائی دینے والا قومی مفاد ذاتی مفاد ہی تھا۔ انکی تعلیمی قابلیت، عمر کی حد، سابقہ یا متعلقہ شعبے میں کام کا کوئی تجربہ وغیر ہ وغیرہ جیسی کوئی بھی چیز ان کے بھرتی ہونے یا کرانے میں مانع واقع نہ ہوسکا۔ اسی قسم کی میرٹوکریسی پرانے پاکستان میں بھی رائج تھی اور نئے پاکستان میں بھی چل رہی ہے۔
اب آپ دوسری مثا ل لیجئے، پچھلے مہینے اک جوان صبح گھر سے گن (اے کے 47) لے کر پہلے مرے کزن کے گھر پہ اور پھر ہمارے گھر کے بالائی منزل کے دیوار کے بیرونی سمت پہ فائرنگ کردی۔ فائرنگ کرنے والا نہایت بدقسمتی سے رشتے میں میرے سیکنڈ کزن لگتے ہیں۔ فائرنگ کی وجہ موصوف کا ہمارے دادا کی وراثتی زمین میں بلاجواز اور نا حق حصے کا مطالبہ تھا۔ ہمارے گھر کے بڑوں نے واقعے کے فورا بعد قریبی پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرادی۔ پولیس جائے وقوع پہ آکر، وقوعہ کے متعلق مطلوبہ شہادتیں اور تصاویر اکھٹا کرکے چلے گئے۔ آ پ یقین مانیئے نئے پاکستان کے ریفارم شدہ پولیس کا حال یہ ہے کہ قریبا مہینہ ہونے کو آیا اور پولیس اب مفرور شدہ شخص کی تصویر مانگ رہی ہے کیونکہ بقول پولیس کے وہ مفرور شدہ شخص کو شکل سے نہیں جانتے۔ اور مہان تعجب یہ کہ ہمارے رپورٹ کرنے سے پہلے ہی اسی مفرور کے خلاف اسی تھانے میں اسکی سگی ما ں نے بھی اسکے خلاف تخریبی سرگرمیوں کی آڑ میں رپورٹ لکھوا چکی تھی۔ اک ہی شخص کے دو بار رپورٹ کرانے کے بعد بھی پولیس اب تک اس کی شناخت کا تعین نہ کرسکی تو آگے وہ اس مفرور کو کب پکڑیں گے اور کب کاروائی عمل میں لائی جائے گی واللہ اعلم۔
اب اس کے علاوہ پاکستان کے سب سے کرپٹ ترین اک اور ادارے کا حا ل دیکھ لیں۔ میں قریبا جولائی ۲۰۱۹ میں بیرون ملک ملازمت حاصل کرنے کی غرض سے میں روالپنڈی کمیٹی چوک میں موجود اک اوورسیز ریکروٹمینٹ ایجنسی کے سرپرستی میں دوبئی کے کسی کمپنی میں اکاونٹس کے انٹڑوئیو ہو رہے تھے۔ میں بھی انٹروئیو میں اپیئر ہوا اور مری سلیکشن ہوگئی اور ساتھ ہی پاسپورٹ رکھ لیا اور کچھ دن کے وقفے کے بعد کچھ رقم بطور ایڈوانس جمع کرانی تھی۔ قصہ مختصر میں نے پراسیجر کے مطابق پاسپورٹ کے بعد ۲۵۰۰۰ پاکستان روپے جمع کرادیے۔ اور یوں اک مہینہ کے بعد کچھ لڑکوں کو فون آگئے کہ باقی ماندہ رقم بھی جمع کرا دیں۔ کہ جن کے ورک پرمٹ یا کانٹریکٹ ایشو ہو گئے ہیں اور ساتھ میں انٹرنیٹ پہ اپنے ہی آفس میں بیٹھ کر دوبئی کےمنسٹری آف لیبر کے ویب سائٹ moh.ae پہ کانٹریکٹ پیپر بھی دکھانا شروع ہوگئے۔ بس اسکے ٹھیک ایک ہفتہ بعد میں نے آفس کا چکر لگایا تو معلوم ہوا کہ پورا عملہ رفو چکر ہو چکا ہے۔ یہ سب کچھ پرانے پاکستا ن میں بھی ہو رہا تھا اور نئے پاکستا ن میں بھی بدستور جاری ہے۔ اب کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، ہم مرتے کیا نہ کرتے بالآخر روالپنڈ ی، رحمان آباد میں موجود پروٹیکٹر آفس ڈاریکٹوریٹ میں اپنی شکایت اس ادارے کے خلاف جمع کرادی۔ ہمارا کیس ایف آئی اے کے پاس بھیج دیا گیا، اور دومہینہ کا وقت دے کر ہمیں رخصت کردیا۔ مر ے اللہ کے فضل سے مجھے کچھ دن بعد اپنی مدد آپ کے تحت اسی ایجنسی کے چھوٹے بھائی کی مدد سے ان کے گھر سے ہی پاسپورٹ مل گیا مگر رقم کی آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا اور نہ اسکا کسی ادارے کی طرف سے ازارلہ کیا گیا۔ اسکے بعدمیں دسمبر ۲۰۱۹ کو میں دوبئی کی اک اورکمپنی میں ملازمت حاصل کر کے آگیا۔ مرے دوبئی آنے کے کوئی چھ ماہ بعد جبکہ ڈاریکٹوریٹ میں کیس فائل کرنے کے اک سال بعد مرے گھر پہ ایف آئی اے کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ میں کل ایف آئی اے آفس آکر کیس کی سنوائی کے لیے اپنا بیان ریکارڈکروالیں۔ جب ایف آئی اے کو مرے بھائی نے فون کرکے بتا یا کہ وہ ملک سے چھ مہینے ہوگئے ہیں کہ باہر ہے۔ اور اسکے بعد بھی ایف آئی اے کی طرف سے بدستو ر نوٹس آنے شروع ہوگئے اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مصداق ڈراتے رہے۔
اس ادارے سے کوئی یہ تک پوچھنے والا نہیں کہ دومہینے سے بھی کم وقت میں حل ہونے والے کیس کی سنوائی اور شہادتی بیانات کے ریکارڈنگ تک اک سال میں نہ ہوسکی، کیوں؟ کچھوے کی رفتار سے رینگنے والے پراگراس دنیا کے کونسےملک میں سوائے وطن عزیز کے پائے جاتے ہیں۔
ان سے یہ تک پوچھنے کی ہمت کسی میں نہیں کہ حد درجے کی نالائقی اور سست روی سے پراگرس دینے والے ادارو ں کے بیانیوں اور فیصلوں کے انتظار میں مدعی کے پیسو ں اور وقت کے ضیاں کا ذمہ دار کون ہوگا؟ جی ہاں یہ سب کچھ نئے پاکستان میں ہورہا ہے۔ اور یہی کچھ مرے ساتھ بدقسمتی سے پرانے پاکستان میں بھی ہواہے۔ جب سن ۲۰۱۲ میں اسی طرح بیرون ملک کی ملازمت کے حصول کی خاطراک ادارے میں اپنا پاسپورٹ اور ویزا کے اجراء کے بعد ۳ لاکھ پاکستا نی روہے جمع کر چکا تھا کہ اس کے ۳ دن پہلے ایف آئی اے نے اپنی کمیشن کی خاطر ادارے پہ راتو ں رات چھاپہ مارکر ۴۸۰ پاسپورٹ ضبط کر لیے۔ اور پھر اک طویل جنگ آزادی برائے پاسپورٹ لڑنےکے بعد اپنے ہی پاسپورٹ کی بازیابی کے لیے باجود کورٹ کے آرڈر کے ۲۸ رمضان المبارک کے دن شام ۵ بحے ایف آئی اے کی ڈیمانڈ پہ ۱۰۰۰ پاکستانی روپے چائے پانی والے کھاتے میں بادل ناخواستہ دینے پڑے۔ یہ تھا پرانا پاکستان۔
یہ تبدیلی جسکا واویلا مچایا جا رہا ہے خدارا مجھے بھی کوئی دکھائے تاکہ میں بھی اپنے زخموں پہ کسی حد تک تبدیلی سرکار کے دریافت کردہ نیا پاکستان کے نا م کی مرہم پٹی رکھ دوں۔ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ ایسے میں نئے پاکستان کا خواب کیا ہوگا؟ ہم چند ہندسے عدد کی محدود سوچ رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں کچھ آتا ہو یا نہیں مگر ہمیں کم از کم ا یک وائٹ کالر کی نوکری اپنی سیاسی چاپلوسی کے عوض چاہیے ہوتی ہے اور مزے و تعجب کی بات کہ سیاسی چاپلوسوں کو مل بھی جاتی ہے۔ مگر کبھی ان سے پوچھیں کہ ملک و قوم کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ جواب الٹا ملے گا ہمارے قائد اور پارٹی نے پاکستان کے لیَے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ پوچھیں کرپشن کیوں کرتے ہیں؟ تو بولیں گے سب کرتے ہیں مگر ہماری پارٹی اور ہمارے قائد کے خلاف ہر دور میں یہ سازشیں چلتی رہی ہیں مگر اللہ نے ہمیں ان سے نکلنے میں سرخرو کیا، جبکہ درحقیقت اس سیاسی چاپلوس لٹو کے علم میں نہیں ہوتا کہ ان کے قائد نے پیسوں کی آشیر باد سے عارضی طور پر سرخرو ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی سوچ، یہی ذہنیت ہمارے اندر بچپن سے پلتی اور وارثت میں منتقل ہوتی آرہی ہے۔ ہم زیر تربیت بچوں کو سکھاتے ہی نہیں کہ ملک اور وطن کیا ہوتے ہیں؟ ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟ ہمیں صرف سکھایا جاتا ہے کہ پیسے کیسے کمانے ہیں اور اک اچھی وائٹ کالر کی جاب کیسے حاصل کرنی ہے، کیونکہ پیسہ اور عہدہ ہی ہماری اصل کامیابی ہے اور زندگی کا مقصد بھی۔
ایسی سوچ، فکر کے ساتھ نیا پاکستان بننے کا خواب تو دور کی بات، بلکہ پرانا ٹوَٹا پوٹا پاکستان کا دھاگہ بھی خدانخواستہ ہاتھ سے کہیں سرک نہ جائے۔ اللہ کریم ہمارے وطن عزیز کو بیرون ملک دشمن سے پہلے اندرون اپنوں کے لبادے میں چھپے لٹیروں سے اپنی امان میں رکھے۔ آمین۔