Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Muasharti Zawal

Muasharti Zawal

معاشرتی زوال

کہا جاتا ہے کہ جو شخص لوگوں کے ہجوم میں سب سے زیادہ ہنستا ہے، وہی شخص اپنی تنہائی کے لمحات میں سب سے زیادہ روتا ہے۔ یہ حقیقت کسی ڈرامائی بیان سے زیادہ انسانی جذبات کا ایک گہرا فلسفہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شخص مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہوگا یا دکھ کا مظاہرہ کرتا ہوگا، بلکہ وہ اپنی تنہائی میں اپنی روح کے ساتھ لڑ رہا ہوتا ہے، خود کو سنبھال رہا ہوتا ہے اور شاید اللہ کے حضور گلے شکوے اور فریاد کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ ہجوم کے سامنے آتا ہے، تو ہنسی کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ وہ ہنسی جو محض ایک اداکاری نہیں، بلکہ اس کے اندرونی طوفان کو چھپانے کی ایک مہارت ہے۔ ایسا شخص اپنے دکھوں کو قید رکھتا ہے تاکہ دنیا اس کی کمزوریوں کو نہ دیکھ سکے اور اس کی تنہائی کی چیخ و پکار کسی کے دل و دماغ تک نہ پہنچے۔

وہ بھی ایک عجیب زندگی جی رہا تھا، ہنسی چہرے پر سجی ہوئی، مگر آنکھوں کے پیچھے چھپی ہوئی کہانیاں کسی کو نظر نہ آتیں۔ ہماری پہلی ملاقات 2018 میں ایک ہی کمپنی میں ہوئی۔ جیسے زمین کی کشش ثقل ہر شے کو اپنی طرف کھینچتی ہے، ویسے ہی انسان کی روح اور فطرت بھی اپنی ہم آہنگی کو پہچان کر قریب آ جاتی ہے۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا۔ پل بھر میں ہم ایسے گھل مل گئے جیسے برسوں کے پرانے دوست ہوں، جنہیں وقت نے دوبارہ ملا دیا ہو۔

وہ ہمیشہ ہنستا مسکراتا دکھائی دیتا، ہر ایک سے خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتا۔ لوگ اسے قہقہوں کے ساتھ زندگی جیتے دیکھتے تھے، لیکن شاید کوئی نہ جانتا تھا کہ اس ہنسی کے پیچھے کیا راز چھپے ہیں۔ ایک دن میں نے اسے دیکھا کہ وہ کسی دوسرے سیکشن کے آفس میں گیا اور بلند قہقہوں کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ اس کی باتوں میں زندگی جھلک رہی تھی۔ جب وہ فارغ ہو کر میری طرف آیا، تو میں نے ہنستے ہوئے کہا، "ماشاءاللہ، تمہاری زندگی تو خوشیوں سے بھری ہوئی لگتی ہے"۔

میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اسے آفس کے بعد کافی پر چلنے کی دعوت دی۔ ہم ساتھ نکلے، اور میرے ذہن میں ایک ہی خیال تھا: یہ خوشی، یہ ہنسی، آخر کس حد تک حقیقی ہے؟

یہاں میرے دوست کو کافی پر مدعو کرنے کا مقصد صرف اس سے بات کرنا نہیں تھا، بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھنا تھا، اس کی وہ چھپی ہوئی تکلیف جو وہ اپنے ہنسی کے پیچھے چھپاتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، "کیسے اتنا ہنستے ہو اور وہ بھی ہر کسی سے؟" ہماری بے تکلفی کی وہ دیوار اب کم ہو چکی تھی، تو وہ بولا، "یار، کیا کروں؟ یہ ہنسی ہی ہے جو میرے دکھوں کو چھپاتی ہے۔ کیا میں سب کے سامنے اپنی تکالیف اور غموں کا رونا رو کر، مگرمچھ کے آنسو بہاؤں؟"

وہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولا، "یہ ہنسی ہی ہے جو میری عزت نفس اور خودداری کی پناہ بن کر مجھے بچاتی ہے۔ ورنہ میری تو حالت یہ ہے کہ میرے ہمسفر نے میری ذاتی زندگی کو ایسے سب کے سامنے رکھا ہے جیسے وہ میرا لباس تک اُتار کر دوسروں کو دکھا چکے ہوں"۔ اس نے جب یہ بات کہی، میری روح لرز گئی۔ اس وقت میری شادی کی بات چل رہی تھی، اور میں زندگی کے بارے میں گہرے سوالات سوچ رہا تھا۔

ہم سب اپنی پسند کی شادی میں خوش ہوتے ہیں، کیونکہ اس دوران ہم ایک دوسرے کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے۔ ہم زندگی کو ایک خواب سمجھ کر جیتے ہیں۔ مگر جیسے ہی معاشرتی حقیقت سامنے آتی ہے، وہ خواب بکھرنے لگتا ہے۔ ابلیسی معاشرتی نظام کی دستک ہمارے دروازے پر آ چکی ہوتی ہے اور وہ جنت جو کبھی ہماری تھی، اب عارضی مہمان بن کر رہ جاتی ہے۔

یہ ساری باتیں میرے لیے پیچیدہ تھیں، جیسے کسی فلسفیانہ معمہ کا حل تلاش کر رہا ہوں۔ لیکن جو حقیقت میں، میں نے سمجھا وہ یہ تھا کہ ہم میں سے ہر ایک وہی بن جاتا ہے جس کا ہم انتخاب کرتے ہیں۔ جو ہم اپنے اندر ڈالتے ہیں، وہی ہماری زندگی کی حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔

یہ سوچ کر مجھے ایک قول یاد آیا، "برتن میں وہی چیز آتی ہے جو اس میں ڈالی جاتی ہے"۔ رحمان بابا کے کلام میں بھی یہی فلسفہ چھپا ہے: "نارنج کے درخت کے شاخوں پر انار نہیں آ سکتا"۔ لیکن ہمارے معاشرتی رویے اور ذاتی انتخاب ایسے ہیں کہ ہم ان سچائیوں کو جان کر بھی ان پر عمل نہیں کرتے، اور نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہم نے بویا تھا۔

جب بچہ اپنے والد کو اپنی ماں کو مارنے یا گالیاں دینے کی حالت میں دیکھتا ہے، تو انسانی نفسیات یہ بتاتی ہے کہ وہ بچہ بڑھ کر اکثر یہی رویے خود بھی اختیار کرتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ انسانی فطرت میں وہی کچھ سیکھنا ہے جو وہ دیکھتا ہے، نہ کہ جو وہ سنتا ہے۔ بچہ نہ صرف باتوں سے بلکہ ماحول سے، عمل سے، اور غیرزبان طریقوں سے بھی اپنا سیکھنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔ اسی طرح، اگر بچی اپنی ماں کو اپنے شوہر یا ساس سسر کے ساتھ لڑائی جھگڑے کرتے ہوئے دیکھے، بے جا مطالبات کرتے، یا مسلسل بحث و تکرار میں ملوث پائے، تو وہ بھی اپنی زندگی میں یہی سب دہرائے گی۔

یہ وہ پیچیدہ حقیقت ہے جو دنیا کے ایک مشہور مصنف ڈیل کارنیگی نے بھی بیان کی تھی کہ بچے زیادہ تر وہ سیکھتے ہیں جو وہ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ بچے وہ سب کچھ یاد رکھتے ہیں جو ان کے ماحول میں ہوتا ہے، اور یہ ان کے ذہن میں ایسے نقش ہو جاتا ہے جیسے پتھر پر نقش کیا گیا ہو۔ وہ اس سے اثر قبول کرتے ہیں اور ان کے مستقبل کی بنیاد اس سیکھے گئے طرز عمل پر ہی رکھی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے، ہم نے اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا ہے اور ہم نے بولنے کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ باتیں کرنا ہی کافی ہے، مگر عمل کی اہمیت ہم نے تقریباً فراموش کر دی ہے۔

میرے اس دوست کی زندگی اس فلسفے کی تصدیق کرتی ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں جیتا تھا جو باہر سے جنت کی مانند دکھائی دیتی تھی، لیکن حقیقت میں وہ ایک بدترین اور کربناک زندگی گزار رہا تھا۔ وہ ایک فرضی جنت میں رہ رہا تھا، جہاں اس کا اندر ٹوٹ رہا تھا اور معاشرتی دباؤ کے تحت وہ اپنی عزت نفس کی قربانی دے رہا تھا۔ اگر مجھے اس کے جیسے جنت نظیر میں رہنے کا موقع ملتا، تو میں اس فرضی جنت کی بجائے اس جہنم کو اختیار کرتا جہاں کم از کم میری عزت نفس پامال نہ ہوتی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرتی طرز عمل اور روزمرہ کے افعال ہمارے بچوں کی تربیت پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اگلی نسل ایک بہتر، متوازن، اور اخلاقی طور پر مضبوط زندگی گزارے، تو ہمیں اپنے اعمال میں صداقت اور استقامت لانی ہوگی۔ ہمیں صرف باتوں میں نہیں، بلکہ عمل سے بھی ثابت کرنا ہوگا کہ ہمیں کس اصول کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔

ہمارے معاشرتی مسائل کی اصل جڑ والدین کی تربیت میں چھپی ہوئی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وہ طریقۂ تربیت جو آج کے والدین اختیار کر رہے ہیں، دراصل ایک خاموش طوفان کی مانند ہے جو نسلوں کے ذہنوں کو متزلزل کر رہا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو جو کچھ سکھاتے ہیں، وہ صرف الفاظ تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ ان کے کردار اور سوچ کا حصہ بن جاتا ہے۔ مگر یہ تربیت اگر سطحی اور بے جا ہو، تو یہ بچوں کے ذہنوں میں گمراہ کن تصورات اور رویے پیدا کر دیتی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بچوں کی تربیت معاشرتی مسائل کی بنیاد ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم، ان کے والدین کے طرزِ زندگی اور ان کے نظرئیے کا براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ یہ تربیت نہ صرف ہمارے آج کے معاشرتی حالات کو بلکہ آنے والی نسلوں کے طرزِ زندگی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ جب والدین اپنی تربیت کو صرف رسمی یا وقتی طور پر اپناتے ہیں اور اس میں گہرائی یا اصول نہیں ہوتے، تو ہم دراصل اپنے معاشرے کا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب ہم اپنے بچوں کو ایک غیر متوازن، مادی اور جھگڑالو ماحول میں پروان چڑھاتے ہیں، تو ہم دراصل ان کی نفسیات کو برباد کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے صرف باتوں کا سہارا نہیں لے سکتے، بلکہ ہمیں اپنے عمل، رویے اور اخلاقی قدروں کے ذریعے اس سبق کو ان تک پہنچانا ہوگا۔ جب تک ہم اپنی ذاتی زندگی میں تبدیلی نہیں لاتے، تب تک ہم بچوں سے اچھے رویے کی توقع نہیں کر سکتے۔

یاد رکھیں ماں کے قدموں کے نیچے اگر جنت لکھی گئی ہے تو اس جنت کو اپنے قدموں تلے حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اس ماں کے قدموں تلے جنت ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جس کی اولاد کے شر سے دوسرے لوگ پناہ مانگتے پھرے۔ اس تصور کو سمجھنے کی ازبس ضرورت ہے۔ ہم نے معاشرتی طور پر ٹی وی ڈراموں سے متاثر ہو کر یہ سوچ لیا ہے کہ ایک "اچھی ماں" وہ ہے جو اپنی اولاد کو ہر قسم کی آسائشیں دے، مگر حقیقی ماں وہ ہے جو اپنی اولاد کو اصول، اخلاق اور کردار کی بنیاد پر تربیت دے۔ اگر ماں اپنے بیوی کی حیثیت میں فاطمہ بنت محمد ﷺ اور رابعہ بصریؓ جیسا کردار نہیں اپناتی اور اگر وہ اپنے شوہر کی عزت نہیں کرتی، تو وہ کسی بھی حال میں حقیقی جنت حاصل نہیں کر سکتی۔

ایسی ماں جو اپنے قدموں تلے ہزار جنتیں لیے پھرتی ہوں مگر بطور بیوی اور اپنے مجازی خدا کی رضا حاصل نہ کرپائی۔ اپنے رجل جو اسکی کل کائنات کا قوام ہے، اسکا خیال نہ رکھ پائی، اس کی عزت نفس کی پاسداری نہ کی، اس کے حیاء اور پردےکا بھرم نہ رکھا۔ تو وہ جنتیں اس کو رب کے رضا دلانے کے کام کسی صورت نہیں آنی۔ ہمارے سامنے دو مسودے ہیں: ایک قرآن و حدیث کا، جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہر رشتہ، خاص طور پر بیوی کا رشتہ، ذمہ داریوں کے اصول پر استوار ہونا چاہیے، اور دوسرا، ہم ٹی وی کے ڈراموں کا، جو عورت کو مظلوم اور مرد کو ظالم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس مسودے کو اپنی زندگی کے لیے رہنمائی کے طور پر اپناتے ہیں۔

اگر ہم اپنے والدین کی نسل کے اعداد و شمار دیکھیں اور ان سے موازنہ کریں تو ہم پائیں گے کہ گزشتہ نسل میں طلاق کا تناسب کہیں کم تھا، جب کہ آج کے دور میں یہ تناسب بہت بڑھ چکا ہے۔ ہم کیوں بھول گئے کہ ہمارے والدین نے اپنی زندگیوں میں قرآن و سنت کو بنیاد بنایا تھا؟ انھوں نے یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لی تھی کہ اللہ کی رضا کے بعد، شوہر کی عزت اور اس کا خیال رکھنا ہی کامیاب زندگی کی بنیاد ہے۔ آج، جب ہم ٹی وی کی نمائشوں سے متاثر ہو کر سوچنے لگتے ہیں کہ عورت کو اپنے حقوق کی جنگ لڑنی چاہیے، تو ہم اپنے خاندانوں اور معاشرتی توازن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

اک دقیق نکتہ ہے جو عمیق فکر کا متقاضی ہے۔ کہ جتنا ہم قرآن و سنت سے ہٹ کر ٹی وی کے ڈراموں سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنی ہی ہم اپنی زندگیوں میں الجھاؤ پیدا کرتے ہیں۔ جو معاشرہ قرآن کے اصولوں کو چھوڑ کر کسی دوسرے مسودے کے پیچھے چلتا ہے، وہ کبھی بھی حقیقی سکون اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔

آپ آج دیکھ لیں آپ نے اپنے پڑؤس میں کتنے اس عمر کے طلاق یافتہ یا خلع یافتہ عورتوں کو دیکھا ہے؟ لیکن آج کے دور میں، خاص طور پر ہمارے معاشرتی اور ثقافتی تناظر میں، ہم ٹی وی ڈرامے اور غیر اسلامی میڈیا نے عورتوں کے ذہنوں میں ایک نیا تصور داخل کر دیا ہے۔ اس میں عورت کو اپنے جسم اور زندگی کے بارے میں خود مختار دکھایا جاتا ہے، اور اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ "میرا جسم میری مرضی" کے تحت وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتی ہے۔

اس سے بھی بدتر، میڈیا اور معاشرتی روایات نے عورت کو مظلوم بنا کر پیش کیا ہے، جبکہ مرد کو ظالم اور قابض کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس تصور کو مزید بڑھاوا دینے کے لیے مغربی ثقافت سے متاثر ہو کر طلاق اور خلع کو ایک قسم کا "تمغہ" یا "میڈل" بنا دیا گیا ہے، جسے عورتیں اپنی آزادی اور حقوق کے طور پر گلے میں سجا کر فخر محسوس کرنے لگتی ہیں۔

یہ تصور اور روایات نہ صرف عورت کے کردار کو کمزور کر رہی ہیں بلکہ معاشرتی استحکام کے لیے بھی ایک خطرہ بن چکی ہیں۔ جب ہم ٹی وی یا دیگر میڈیا کے ذریعے یہ سیکھتے ہیں کہ گھر کے چھوٹے چھوٹے مسائل اور اختلافات کے حل کے بجائے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا ایک معمول بن جائے، تو ہم اس بات کو نظرانداز کرتے ہیں کہ اس سے نہ صرف خاندان کے افراد کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ پورے معاشرتی تانے بانے میں دراڑ آتی ہے۔

اسلام میں طلاق ایک سنگین فیصلہ ہے جو اس وقت لیا جانا چاہیے جب تمام دیگر راستے آزما لیے جائیں اور جب دونوں فریقین کی طرف سے آپس میں سمجھوتہ اور اصلاح کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ اسلام میں شوہر اور بیوی کے رشتہ کو محض حقوق اور واجبات کا معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرتی و ثقافتی فریم ورک کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالیں تو ہم اپنی نسلوں کو ایک بہتر اور پائیدار مستقبل دے سکتے ہیں۔

لہٰذا، ہمیں ان غیر حقیقی اور سطحی نظریات سے بچ کر، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے معاشرتی اور عائلتی نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

اختتاماً، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نکاح محض ایک سماجی معاہدہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور الٰہی ذمہ داری ہے، جو محبت، عزت، اور قربانی کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے، "وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو" (البقرہ: 187)، یعنی میاں بیوی ایک دوسرے کی حفاظت، عزت اور سکون کا ذریعہ ہیں۔ اگر شوہر یا بیوی ایک دوسرے کی عزت نفس کو مجروح کریں، تو یہ نہ صرف اس رشتے کی روح کو ختم کرتا ہے بلکہ اللہ کی رضا سے بھی دور کر دیتا ہے۔

رشتۂ نکاح اس وقت جنت کا عکس بن جاتا ہے جب دونوں شریکِ حیات ایک دوسرے کے عیب چھپانے والے، دکھ بانٹنے والے اور دل کا سکون بن جائیں۔ لیکن جب اس رشتے میں خود غرضی، بے حسی اور انا داخل ہو جائے، تو یہ جنت نہ صرف برباد ہوتی ہے بلکہ اللہ کے دیے گئے احکام کی کھلی خلاف ورزی بن جاتی ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا، "تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے بہترین ہو" اور یہی اصول ہر رشتے کی بنیاد ہونا چاہیے۔ بیوی کی سب سے بڑی خوبی اس کی خاموش قربانی اور شوہر کے وقار کی حفاظت ہے اور شوہر کی سب سے بڑی خوبی بیوی کے لیے عزت اور محبت ہے۔ جب دونوں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنی حدود میں رہیں، تو یہ رشتہ جنت کی مانند بن جاتا ہے۔ لیکن اگر ذاتی معاملات کو دوسروں کے سامنے لے جایا جائے، تو یہ نہ صرف اس رشتے کو برباد کرتا ہے بلکہ اللہ کی ناراضی کا بھی سبب بنتا ہے۔

یاد رکھیں، میاں بیوی کا تعلق دنیا کے سامنے دکھانے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ عزت، محبت، اور راز داری وہ ستون ہیں جن پر اس رشتے کی عمارت کھڑی رہتی ہے، اور انہی ستونوں کو مضبوط رکھنا ہی نکاح کی اصل روح ہے۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra