Molvi Pe Eteraz Kyun?
مولوی پہ اعتراض کیوں؟
آخرہم مولوی ہی کو ہر چیز کا قصوروار ٹھہراتے ہیں، کیوں؟ آئے روز ہم میں سے کوئی نہ کوئی بشمول مرے لفظی، سطری تنقید اور اختلاف کی زد و کوب مولوی کے نام پہ کرتا آرہا ہے۔ اور اکثریتی ملا اسی تنقید کے حق دار بھی ہوتے ہیں، کیوں کہ مولویوں نے ماحول ہی ایسے بنایا ہوا ہے۔ اگر مدارس کا حال دیکھوتو کانوں کو ہاتھ لگانے کو بھی کبھی کبھی دل نہیں کرتا۔ مسجد میں مولوی صاحبان اکثر جلاد ہی ہوتے ہیں اور ننھے منھے پھولوں پہ اپنی فرسٹریشن ایسے نکالتے ہوتے ہیں کہ جیسے بھیڑ بکریاں ہوں۔ اور یہ منطق سمجھ سے بالا ہے کہ جس جگہ پہ استاد مارے وہاں قیامت کے دن پھول اگیں گے۔ تو پھر کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ مار مار کے لہو لہان کردو یا جان سے ماردو تاکہ پورے کا پورا جسم ہی اسکا قیامت کے دن گلستان ہی بن جائے۔ یہ اور کچھ نہیں مسجد اور مدارس کے چاردیواری کے اندر پالئ ہوئی وہ جہالت ہے جو ان سے دانستہ کہہ لو یا نا دانستہ کرواتی رہتی ہے۔
میں جب مدرسے میں پڑھتا تھا تو آج بھی یاد ہے کہ ہمارے استاد موصوف سے کبھی کبھی اتنا خوف محسوس ہوتا تھا کہ اتنا خوف شائد عزرائیلؑ سے بھی محسوس نہ ہو۔ اور مزے پہ دہلے کی بات تو یہ کہ ان مولویوں اور استادوں کو مشترکہ اک بیماری ہوتی ہے کہ وہ بلڈپریشر کے مریض ہوتے ہیں۔ غصہ ان کو صرف مسجد میں قرآن پڑھنے اور سیکھنے والے ان ننھے پھولوں پہ ہی آتا ہوتا ہے۔ ہمارے مسجد کے مولوی صاحب کو جب غصہ آتا تھا تو سارے مسجد میں سناٹا طاری ہوجاتا تھا حتی کہ نمازی مقتدی تک سارے چپ سادھ لیتے تھے۔
صرف غصہ ہی نہیں ہوتا اور بھی بہت سارے پہلو ہوتے ہیں جو ان مساجد اور مدارس کے اکثریتی ملاوں میں پائے جاتے ہیں مگرسر دست اس پہ یہاں تفصیل ذکر کرنا مقصود نہیں۔ اکثریتی بچے انہی جلاد نما رویوں سے بھی باغی ہوجاتے ہیں۔ اک بارمجھے اور میرے اک دوست کو استا محترم نے غصے کی انتہائی حالت میں جب کچھ نہ ملا تو جھاڑو اٹھا کے اسکے موٹے والے سائیڈ سے دھلائی کی، اس بات پہ کہ ہم مسجد قریب برساتی نالے پہ گاوں کے دوسرے بچوں کے ساتھ گئے ہوے تھے۔ تو مرے نزدیک یہ مولوی جہاں بہت ساری باتوں پہ تعریف کے قابل ہوتے ہیں وہاں اور بھی بہت ساری باتوں پہ تنقید اور لعن طعن کے بھی مستحق ہوتے ہیں۔
لیکن یہ ساری چیزیں اکثریتی مولویوں کے ذہن میں ان کے اردگرد پیدا کی ہوئی جہالت بھرے ماحول سے پیدا ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ علم صرف دینی کتابوں کو ہی سمجھتے ہیں جبکہ باقی علوم بھی تو دینی ہوتے ہیں۔ کیا حساب کتاب کا علم دینی نہیں ہے؟ ستاروں کا علم، موسمیات کا علم، طبیعیات کا علم، فزکس، تجارت، کمیونیکیشن کیا یہ سارے علوم غیر اسلامی ہیں؟ نہیں لیکن مولویوں نے خود ہی اپنے آپ کو مدارس کے چاردیواری کے اندر قید کرکے دولے شاہ کی چووں کی مانند اپنی حالت بنالی ہوتی ہے۔ لیکن اس میں اک اور قوی عنصر پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بھی یہ مدارس اور مساجد کے چاردیواری کے اندر دولے شاہ کے چووں کی مانند زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔
یاد رکھیں انسان کا حکمرانی کرنے کا وصف فطری ہے۔ یہ ہر وقت اسی تگ و دو میں رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح، کسی حد تک حکمرانی کرلے، اور حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ کسی سے کسی بھی چیز میں سبقت لے جاو۔ تو وہ چاہے علم میں ہو، دولت میں ہو، شہرت میں ہو یا پھر بدمعاشی اور بدکرداری میں ہو۔ اور ایسے لوگوں کے ماتحت اکثر احساس کمتری کے شکار لوگ اوریا پھر غریب و کمزور لوگ ہی ہوا کرتیہیں۔ وہ پشتو کے عظیم صوفی شاعر رحمان بابا مرحوم نے کیا خوب فرمایا ما غریب سڑے اوخیار لیدلے ندے۔ ترجمعہ، میں نے کبھی غریب شخص میں دانشمندی نہیں دیکھی۔
ایسے لوگ سوال کی جرات بھی نہیں کرتے اور کوئی اک آدھ سرپھرا سوال کرنے کی جرات کر بھی لے تو اسکو پھر اکیس فتووں کی سلامی دی جاتی ہے۔ کہ یہ بے ادب ہے، بد عقیدہ ہو چکا ہے یا اس کے عقیدے میں نقص پیدا ہوگیاہے۔ لیکن زرا سا دنیاوی مرتبت والا یا پیسے والا انسان دیکھ لے تو پھر چاپلوسی بھی ان کو بڑی اچھی آتی ہوتی ہے۔ یہ ساری باتیں میں نے اپنے ارگرد رہنے والے ماحول میں نوٹ کی ہیں۔ میں ان سب کا عینی شاید ہوں اور بہت سارے واقعوں کا میں شکار بھی رہا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود بھی میں سمجھتا ہوں کہ ایسے باضمیر اور اللہ کا خوف دل میں رکھنے والے مولوی بھی موجود ہیں ان کی حمایت، ان کی خبر گیری ہمیں کرنی چاہیے۔
پچھلے دنوں اک عجیب لیکچر سماعت کی نذر ہوا۔ جس کی وجہ سے اس نظریے کو اک اور رخ سے بھی دیکھنا، سوچنا اور فکر کرنا ںصیب ہوا، تو حیرت اور شرم کی انتہاء نہ رہی۔۔ بولنے والا کچھ ان الفاظ میں گویا ہوا، مجھے یقین ہے آپ میں سے بہت ساروں نے یہ سنا بھی ہوگا لیکن اگر نہیں سنا تو میں یہاں لکھ رہا ہوں۔ کہتے ہیں ہمارے معاشرے میں موجود مولوی پڑھا لکھا نہیں ان پڑھ ہے۔
اب یہاں مولوی کی اصطلاح اک تو واضح نہیں اور اسکی بناء پر سب اک ہی چکی میں پس جاتے ہیں۔ واقعتا اسمیں کوئی شبہ نہیں کہ آج ہمارا منبر فکری تعصب میں جکڑا ہواہے۔ لیکن پھر بھی ہمارا حق کم از کم یہ نہیں پہنچتا کہ ہم مولوی پہ ازخود اعتراض اٹھائے۔۔ کیوں؟
کیا ہم اس شخص کو ان پڑھ کہہ سکتے ہیں یا کہنا چاہیے جو 10 یا 8 سال اک مدرسے میں اک ڈسپلن میں اتالیقوں کے مابین گزاردیتا ہے۔ کیا وہ ان پڑھ کہلایا جانا چاہیے؟ اور پھر وہ جس ماحول میں جس حالات میں جن وسائل سے وہ گزرتا ہے کبھی سوچا ہے ہم نے؟
وہ زمین پر بیٹھ کر 16، 16 گھنٹے پڑھتا ہے اور پھر ہمیں چنداں یہ خیال نہیں آتا کہ ہمیں خود دس باتیں بمشکل یاد رہتی ہیں جبکہ ان کو کئی سو روایات زبانی یاد ہوتی ہیں۔
پھر اک اور رخ دیکھیں۔۔
ہم سے ہمارے مولوی بچے کے دینی تعلیم کے لیے 500 روپے مانگے تو ہم پہ قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ مگر مہینے کے اختتام پہ اپنی تنخواہ میں سے بچے کے او لیول اور اے لیول کے کمیسٹری و فزکس جیسے مضامیں کے ٹیویشن کے لیے بھی پانچ ہزار تک الگ سے نکال کے رکھتے ہیں یا بندوبست کرتے ہیں۔ کہیں سے بھی ہو لیکن بچے کی پڑھائی میں خلل نہیں آنی چاہیے۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پھر ہماری ترجیح میں دین تو رہا ہی نہیں نا؟ یہ اک بہت بڑا سوال ہے۔
اسطرح ہمارے دنیاوی اور سیاسی نظام کے کتنے کرپٹ اور مکروہ لوگ نکل کر آگے آتے ہیں، سود خور، رشوت خور، چور، کرپٹ اور نہ جانے کیسے کیسے کردار اتنے اعلی تعلیم کے بعد نکل آتے ہیں اسکا الزام کیوں ہمارے ہاں عصری تعلیمی نظام پہ نہیں لگایا جاتا؟ ہمیں اعتراض چاہے بے بنیاد ہو یا حقیقی، اعتراض کے لیے صرف مولوی ہی بچاری ملاہے؟
چلو مان لیتے ہیں اعتراض بھی اٹھانا چاہیئے تو ہماری ترجیحات میں دین کا کتنا حصہ ہے؟ کبھی اس پہ غور کیا ہے ہم نے؟ ہمارے تعلیمی نصاب میں اسلامیات کی کتاب کتنی ہے؟ یہ وہ نقط ہے میرے خیال میں جس کی وجہ سے دینی علوم اور دنیاوی علوم کے نظٓام میں اتنابڑا خلیج پیدا ہوا ہے۔
ان سب کے بعد آخری بات، شروع میری اپنی ذات سے ہونی چاہئے، اگر مولوی واقعی ان پڑھ ہے اور فسادی بھی ہے تو چلیں ہم خود منبر کو کیوں نہیں سنبھالتے؟ ہم نے دوسروں کے حوالے کیوں کیا ہوا ہے یہ منبر؟ خود کو اس قابل کیوں نہیں بناتے کہ منبر کو سنبھال لے اور اس کو تعصب سے پاک کردے؟ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے خوب فرمایا تھا۔۔
کہا اقبال نے شیخ حرم سے
تہہ محراب مسجد سو گیا کون؟
ندا مسجد کی دیواروں سے آئی
فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟
میں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتا ہوں اور سوال اٹھاتا ہوں کہ اپنوں کے جنازے پڑھانے کا وقت آتا ہے تو اوتاولے ہوکے اسی مولوی کے پیچھے ہی جانا پڑ جاتا ہے اور نکاح کا وقت آتاہے تو بھی اسی مولوی کے رحم وکرم پہ رہتے ہیں۔۔ ڈاکٹر اسرار صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے، ہم میں ہرکوئی خود کو اس قابل کیوں نہیں بناتے کہ اپنی بیٹی، بہن، بھایئ یا بیٹے کا نکاح خود پڑھائے۔ اپنے والدین یاکسی بھی خاندانی ممبر کی نمازہ جنارہ خود پڑھا سکے۔ کیا یہ ٹھیکہ اس مولوی نے خود لیا ہے یا ہم نے دے رکھا ہے اسے۔۔ ہم خود کو کیوں پیش نہیں کرتے؟
تو مطلب یہ ہوا کہ اس سارے معاملے میں قصور اس مولوی کا نہیں جس کے ہم محتاج ہیں اور اکثریتی اس محتاجی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور ہم سب اس کی آڑ میں پیدا ہونے والے اعتراضات سے شکوہ کناں رہتے ہیں۔ ہم خود ہی خودکو بنیادی طور ہر اس قابل کیوں نہیں بنا لیتے کہ ہم اپنے بچے کو قرآن کی ناظرہ۔ قاعدہ خود پڑھا سکیں، گھر میں نکاح ہو یا جنازہ وہ خود پڑھا سکیں۔ اور ویسے بھی مسلم شریف کے حدیث پاک کا مفہوم ہے، علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پہ فرض ہے۔ اور اس علم سے دین کی اتنی بنیادی علم فرض کی گئی ہے کہ جس کی روشنی میں ہر مسلمان مرد اور عورت اپنی روزمرہ زندگی گزار سکے۔
یاد رکھیں قیامت کے دن مولوی تو ہماری جوابدہی نہیں کرے گا اور نہ ہماری مولوی نے تباہ کیا تھا کا عذر قبول کیا جائے گا۔۔ آو مل کر سوچیں اس پر۔۔ علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے اس شعر پہ اختتام۔۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر