Majburistan
مجبورستان
منگول تاریخ اس وقت کی جنگی تاریخ میں سب سے زیادہ بھیانک اور تاریک تر تاریخ کے نام سے جانا و پہچانا جاتا ہے۔ منگول کا کوئی بھی لیڈر ہو چاہے ہلاکو خان ہو، چنگیز خان یا تیموجن ہو۔ یہ سب اپنے وقت کے سفاک ترین لیڈر تھے جو شہر کو فتح کرنے کے بعد اپنی فوج کو کھلی چھٹی دے دیتے تھے کہ جو لوٹ سکتے ہیں لوٹ لیں۔ وہ پھر مال ہو، دولت یا عورتوں کی عصمتیں ہو، لوٹ لیتے تھے اور ان سب میں وہ اتنے سفاک تھے کہ ظلم و سفاکیت ازخود شرما جاتی ہوگی۔
عین اسی ہی قسم کی منگولزم و سفاکیت ہمارے ملک میں موجودہ منگول لیڈروں نے اپنے فالتو سکیورٹی اہلکاروں (بالخصوص پنجاب پولیس) کو جو کھلی چھوٹ ملی ہے کہ جو لوٹ سکتے ہو لوٹ لو اور وہ بھی منگول سپاہیوں کی طرح دولت ہاتھ آتی ہے مال یا پھر چادر و چاردیواری میں موجود عصمتیں، لوٹ رہے ہیں۔ لیکن ہمارے منگول اک درجہ آگے ہیں چنگیز خان و ہلاکو خان کے سپاہیوں سے وہ کچھ بھی کرتے تو کم از کم وہ اس کی ریکارڈنگ نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کو یہ سہولت میسر نہ تھی لیکن ہمارے منگول تو عصمتیں لوٹنے کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کر لیتے ہیں اور پھر اسکو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یہ قوم و وطن کے وہ بغیرت سپوت ہیں جن کو اپنے ہی ادارے کے لوگ عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کی غرض سے پیچھے سے گولی مار لیتے ہیں اور پھر فتوے تو پاکستان میں تھوک کے حساب سے میسر آتے ہیں تو شہید کا لیبل لگا لیتے ہیں اور قوم کو شہدائے وطن کا چورن بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سارے ایسے نہیں استثنا ہر جگہ ہر چیز میں موجود ہوتی ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ جو حال ان سکیورٹی اہلکاروں نے اپنے آقاوں کے کہنے پہ 9 مئی کے بعد لوٹ کھسوٹ شروع کی ہوئی ہے اس کے بعد میں ان کی قربانی کی عزت کروں تو یہ مرے لیے گالی کی مانند ہے۔
جو کچھ بھی وطن کے پتہ نہیں کونسے سپوت ہیں جب اپنے سکیورٹی اداروں و نام نہاد جمہوری پارٹی کے لیڈروں کے انتقامی و من مانیوں کی ضمن میں روا رکھتے ہیں وہ بطور مسلمان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہونے کی صورت میں انتہائی شرمناک ہے۔ اور ایسے نام نہاد سپوتوں پہ فخر کرنا حماقت ہے۔ جس انداز میں یہ لوگ، پی ٹی آئی کے لوگوں کو اٹھائے جا رہے ہیں، یا صحافیوں کو، ان کی بات نہ ماننے پہ ان کے بیوی بیٹیوں کو اٹھایا جا رہا ہے اور پھر ان کی عصمت دری کرا کے یا کرانے کی دھمکی دینے پہ لوگوں کو اپنے بیانیے پہ لاکھڑا کر رہے ہیں۔
اور مہان کسمپرسی کی حالت یہ کہ ملکی عدالتیں لوگوں کو یہ کہہ رہی ہیں کہ نیوز کانفرنس کر دو ورنہ یہ لوگ ایسے نہیں چھوڑیں گے۔ یعنی اک نیوز کانفرنس پہ وہ لوگ جو 9 مئی کے بعد دہشت گرد بھی تھے، غدار وطن بھی تھے اور شرپسند بھی آج وہ اک نیوز کانفرنس کے بعد ان سارے الزامات سے بری ہوگئے یا ہو جائیں گے۔ کیا کمال معیار ہے انصاف کا، عدل کا، محب وطن و پاک فوج ہونے کا، ملکی تنصیبات سے انس رکھنے کا۔
میں اوائل میں تمام سکیورٹی اداروں اور بالخصوص فوجی اداروں کا بہت دل و جان سے فدا تھا۔ مشرف کے دور میں اسکے ہر ناروا ظلم، غیرآئینی و غیرشرعی کام کا دفاع اکثر دوستوں کی محفلوں میں کرتا رہتا تھا۔ میں بذات خود عوامی نیشنل پارٹی سے نظریاتی اختلاف رکھتا ہوں اور نفرت بھی کرتا ہوں مگر اس کے لیڈر کی اک دہائی پہلے سنی ہوئی وہ تقریر آج بھی یاد ہے جس میں اس نے مطالبہ کیا تھا کہ مرے اثاثوں کے احتساب کے ساتھ آرمی کے جرنیل کو بھی احتسابی کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھا جاے کہ جنرل تم تو تنخواہ دار ملازم ہو تو پھر یہ دولت و جائیداد تم لوگوں کی کہاں سے آئی؟
تب میں اسکو غلط سمجھتا تھا لیکن آج اپنی اس بے وقوفی پہ اتنا پشیمان ہوں کہ دل کر رہا ہے کہ پریس کانفرنس ہی کر لوں۔ اسی طرح میرے جماعت اسلامی کے اچھے دوست ہوتے تھے اور ہیں، وہ فوج کے متعلق گفتگو چھیڑتے تھے تو میں ان سے بھی الجھ پڑتا۔ اور وہ لوگ مجھے کہتے تھے کہ تم کنویں کے مینڈک ہو اور آج میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہاں میں مینڈک تھا۔ یہ تو جب ملک کو معاش کی خاطر چھوڑا پاکستان کے مقابلے میں نسبتاََ آزاد فضاوں میں رہنے لگا تو حقیقت آہستہ آہستہ اشکار ہونے لگی۔
زندہ باد کے نعروں اور ملی نغموں کے آگے جہاں اک اور بھی ہے۔ جو اس سے بہت مختلف اور آزادانہ ہے۔ تب معلوم ہوا کہ ملکی خزانے کو انسانی شکلوں میں گدھ اکٹھا ہو کر حرام خوری کرنے میں لگے ہوے ہیں۔ کسی نے تسبیح کے دانوں پہ گن گن کے کھانے کو حلال کر رکھا ہے، کوئی ملی نغموں اور زندہ باد کے نعروں کی آڑ میں ہضم کرنے کو روا رکھا ہے اور کوئی جمہوریت کا چورن بیچ کر کھانے میں اپنا حق خودارادیت دکھا رہے ہیں۔
میں عدنان کاکاخیل کے اس مکالمے کو بھی طنز بھری نگاہوں سے دیکھا کرتا تھا اور اس میں مشرف کی تعریف اور عدنان کاکاخیل پہ لعن طعن کرتا تھا۔ جب اس نے پوچھا کہ ہال میں آپ کے پیچھے لگی بابائے قوم کی تصویر یہ چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہے، جرنل تم تو سرحدوں کے رکھوالے تھے اقتدار کی راہ آپ کو کس نے دکھائی؟ اور اس سوال پہ موجود لوگ اک منٹ تک داد دیتے ہوئے تالیاں بجاتے رہے۔
آج کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ کوئی وردی پوشوں کے متعلق بات کر سکے، ان سے سوال کر سکے۔ کیونکہ اسکی قیمت انسان کو اپنی چادر اور چار دیواری کے قدموں تلے روندنے اور پامالی کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ لیکن اس میں قصور ہمارا ہے بطور قوم ہم اس میں پورے قصوروار ہیں۔ ان سیاستدانوں کو زندہ باد و مردہ باد کے نعروں کی آڑ میں سر پہ چڑھایا ہوا اور وردی پوش اہلکاروں کو بیجا سلوٹ، بیجا محبت، بےجا ماتھے کا جھومر بنانے میں ان کے دماغ خراب کیے رکھے ہیں۔
اگر ہم نے ان کو انکی مقرر کردہ حدود میں رکھا ہوتا تو آج ہم ایسی لازوال زلت بھری زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔ ہم غلام ابن غلام جنمے ہوۓ ہیں۔ ہمارے خمیر میں غلامی ابن غلامی بھری ہوئی ہے۔ اور غلامی کبھی بہادری کا جامہ نہیں پہن سکتی۔ غلامی میں دکھائی جانے والی بہادری اس کتے کی بہادری کی مانند ہوتی ہے جو اپنے گھر کے چوکٹ پہ شیر کی طرح دھاڑتا ہے۔
میں اپنی ہم عمر جنریشن کو دیکھ کر آج شکر ادا کر رہا ہوں کہ مولا کریم نے آزادیِ پاکستان 1947 کے دور میں ہمارے والدین اور ہم کو پیدا نہیں فرمایا تھا۔ اگر ہوتے تو میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کا آزاد ہونا ناممکن تھا۔ کیونکہ اس وقت کی آزادی لازوال اور بے لوث قربانی مانگ رہی تھی اور قربانی میں چوائس کوئی نہیں ہوتی۔ اور اس قربانی دینے کا جگرا نہ تو ہمارے والدین میں ہے اور نہ ہم میں۔
اس وقت بھی ہمیں یہ سکھایا جا رہا ہوتا کہ بیوقوف نہ بنو، کوئی گورا سرکار کے خلاف بھی بولتا ہے۔ کیوں اپنے اور اپنے خاندان کا دشمن بنا ہوا ہے اور پھر تو اکیلا کیا اکھاڑ لے گا وغیرہ وغیرہ؟ اور آج بھی ہر والدین اپنے بچوں کو یہی سمجھا رہے ہیں کہ بیوقوف نہ بنو تم ان طاقتوروں کا کیا بگاڑ لو گے اور قربانی ایسے موقع پرست لوگوں کے نصیب میں نہیں ہوا کرتی۔
میں ساتھ ساتھ یہ شکر بھی ادا کر رہا ہوں کہ اس وقت ہم پہ اسلامی امرا، اور علماء کی طرف سے کفر (باطل) کے خلاف جہاد کی فرضیت کا حکم نہیں آتا۔ کیونکہ ہم اس میں بھی انشاءاللہ پورے عقل و فہم کے ساتھ فیل ہونگے۔ اس پہ بھی ہمارے والدین اور بزرگ یہ بیانیہ لے آئینگے کہ یہ فلاں فرقے والوں نے غیر شرعی جہاد کا حکم جاری کیا ہے وہ تو خود مرتد ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی گستاخ ہیں تو انکے جہاد کے حکم کو کیسے مانا جائے۔
ہم لوگ کامیابی و آزادی یا تو فقط دعاؤں سے مانگ رہے ہوتے ہیں یا فقط محنت سے، جبکہ کامیابی و آزادی پہلے محنت (قربانی) اور پھر دعا کے مجموعے سے حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ہم کوڑ دماغوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ محنت اور دعا اک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ ہم آج بھی حالات بدلنے کیلیے نوافل پڑھ کر دعا مانگ رہے ہیں کہ یااللہ کرم فرما جبکہ اللہ ہم کو کسی اور طرح کا درس دے چکا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ اللہ کریم اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس قوم کو خود خیال نہ ہو اپنی حالت آپ بدلنے کا۔ (مفہوم سورہ الرعد)
ہم سوچ رہے ہیں کہ وقتی چپ سادھ لینا اعلیٰ درجے کی عقلمندی ہے اور باطل کے خلاف آواز اٹھانا اور ملک و قوم کی بقاٰ و آزادی کی خاطر وقت کے فرعون کے خلاف بولنا حماقت عظیم ہے۔ ہمیں شرم بھی نہیں آتی کہ جب یوم الشہداء کا دن یا یوم آزادی کا دن آتا ہے تو سینے پہ، گھروں کے دہلیزوں پہ جھنڈے لگا کرپوری بے شرمی اور ڈھٹائی سے اس دن کو منا رہے ہوتے ہیں اور یہ یکسر بھول جاتے ہیں کہ ہم تو ان لوگوں میں شامل تھے جو وقت کے یزید، فرعون کے خلاف پیٹھ دکھا کر بیٹھے تھے۔
یہ اک عظیم لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اپنے اور ہمارے والدین نے ایسی تربیت کی ہے یا کر رہے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو بس ظلم کیخلاف آواز بلند کرنا جیسے گناہ کے مترادف ہے۔ اور تب معاشروں میں سر اٹھاتی ہوئی برائیاں دیکھتے ہی دیکھتے اک ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں لیکن اسکا راستہ روکنے کے لیے کوئی محمد بن قاسم بن کر سامنے کھڑا ہونے کی ہمت نہیں کرتا کیونکہ ہمیں سکھایا اور پڑھایا ہی یہی جاتا ہے کہ وقت کے فرعون کے سامنے موسیٰ کے حواری بننے اور یزید کے سامنے حسین کے لشکرکے سپاہی بننے والے احمق ہوتے ہیں۔ اور ہم آج بطور قوم اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔