Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Kundistan

Kundistan

کنڈستان

پاکستان اک ایسا عجبوبہ ملک ہے کہ جس کے بارے میں کویی پیش گوئی نہیں دی جاسکتی کہ اگلے لمحےکیا ہوگا یا کیا ہوسکتا ہے۔ یعنی کسی بھی ایرے غیرے سیاسی لیڈر، جج صاحب کا دماغ پھر گیا تو بس سارے پاکستان کی قسمت ہی پھر جاتی ہے۔ جیسے کہ عدم اعتماد کی ووٹنگ کامیاب ہونے کے بعد زبان زد عام یہ بات گردش کر رہی تھی کہ اگر ان کو (عمران خان) نکالا نہیں ہوتا، تو پاکستان ڈیفالٹ کرجاتا، ڈوب جاتا۔

اگر دیکھا جائے تو ٹایٹینک بھی شاید اتنے گہرے پانیوں میں نہیں ڈوبا ہوا ہوگا جتنے گہرے اقتصادی سمندر میں پاکستان بدقسمتی سے غرق ہوا پڑا ہے۔ یہ سارے کرتے دھرتے ان 13 جماعتی اتحاد نے کیا بشمول ان طاقتور حلقوں کے چند نفوس کے جو نعرے، ترانے اور گانے حب الوطنی کے گاتے ہیں مگر کماتے اپنے مفاد کے لیے ہیں۔ لیکن بات وہی آکے رک جاتی ہے کہ غلطی مانے گا کون؟ قصوروار کس کو ٹھہرایا جایے گا اور ٹھہرایے گا کون؟

اب یہ عبوری حکومت کو ہی دیکھ لو جس نے بجلی کے تاروں میں کنڈیاں ڈالنے والوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کردیا ہے۔ بظاہر یہ اقدام بہت ہی خوش آئند ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اک دم سے بیٹھے بٹھایے ان کویہ الہام یا وحی کہاں سے آئی کہ کون کون کنڈیاں ڈالتا ہے اور کون نہیں؟ یعنی وہ کہاوت درست ہے کہ چوروں کے ساتھ گھر کی ہی کھوتی ملی ہوتی ہے۔ اور پھر ان کو اتنے بڑے چور ایوان میں، پارلیمان میں، جی ایچ کیو میں اور پورے ملک کے کاروباری حلقوں میں نظر نہیں آتے؟

جو آج عام عوام پہ پہاڑ جتنے بجلی کے بلوں کے بم گرا رہے ہیں۔ ان بجلی چوروں کے ساتھ ایوان اقتدار میں بیٹھے نام نہاد عوامی لیڈر برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ یہ لوگ ان بجلی چوروں سے مہینہ وصول کرتے ہیں۔ یہ وزیر اور افسر کاغذوں میں ہوتے اصل میں تو یہ بھتہ خور ہیں۔ ان بجلی کے تاروں میں لگے کنڈلیوں میں سیاستدانوں کے جیب لٹک رہے ہوتے ہیں اور کنڈے میں عوام بچاروں کے گلے پھنسے ہوتے ہیں۔

پاکستان کے جھنڈے کے رنگوں کے تقسیم کے متعلق مشہور اک مزاحیہ لطیفہ یاد آیا جو موجودہ حالات پہ بڑا فٹ بیٹھتاہے۔ مجھے پورا یاد تو نہیں مگر اس کا آخری حصہ یاد ہے، کہ جھنڈے میں سفید رنگ ملک میں امن کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن امن میں ہم نے خود ڈنڈا دیا ہوا ہے۔ اور جس ملک میں امن ڈنڈے کی زد میں ہو، جہاں امن خود امن سے نہ رہ سکتا ہو تو وہاں کے باشندوں کے پاس امن خود کہاں سے آئے گا؟

دراصل مسلہ ہمارے ملک کے خمیر کا ہے بلکہ ملک کا نہیں ہم سب کے خمیر کا ہے۔ پاکستان اک ایسا ملک ہے جہاں ہر چیز بناوٹی دستیاب ہے اور وہ بھی بازار سے بارعایت۔ ہم سب محب وطن ہیں مگر ذاتی مفاد کے لیے۔ اگر ہمارے اپنے کسی رشتہ دار نےپاکستان کو کچھ بھی نقصان پہنچایا تو اس کو سزا سے بچانے کے لیے ہم خود ذاتی حیثیت میں اپنی بناوٹی حب الوطنی کو طوق میں رکھ کر میدان میں اپنا کردار نبھانے اتر جاتے ہیں۔ اور اپنے رشتہ دار بھائی، بہنویی، بیٹا وغیرہ کو بچانے کے لیے کسی کے ترلے منتیں کرنی پڑے، اپنا ضمیر اور خودداری کو کسی کے قدموں میں رکھنی پڑ جایے تو اس سےبھی گریز نہیں کرتے۔ صرف یہی نہیں ہمارے ہاں عاشقان دین و رسول محمد ﷺ بھی بناوٹی اور نام کے توک کے حساب سے ملیں گے۔ کام کے حوالے سے ان کی زندگی ابوجہل سے بھی شاید بدتر گزر رہی ہوگی۔ مگر دعوے عشق کے آپ کو آسمان سے باتیں کرتے ہوئے ملیں گے۔

ہم دنیا داری میں دنیا پوری میں ہر اک سے ہر چیز میں بہت پیچھے ہیں۔ باقی دنیا کے ممالک میں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو موجودہ محکمے کا سربراہ، وزیر اس کی زمہ داری قبول کرتا ہے۔ اور اگر معاملہ سنگین نوعیت کا ہو تو وہ قوم سے معافی مانگتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی بھی ہو جاتے ہیں۔ جبکہ کنڈستان میں جو بھی نام نہاد عوامی نمایندہ بن کر پارلیمان تک پہنچتا ہے۔ تو یہ دنیا پوری میں گویا ایسا انوکھا کام یا انہونی ہو جاتی ہے۔ جس کی پاداش میں اس صاحب کا، ڈی آئی جی و آئی جی صاحب کا، وزیر صاحب کا، ایم این و ایم پی اے صاحب کا اور نہ جانے کون کون سے صاحب کے پورے خاندان، اولاد، دادکے و نانکے غرض پورے ٹبر کو قانون سے قانونی استثنا حاصل ہو جاتا ہے۔ یعنی ان میں کسی کو بھی کسی بھی قانون کے تحت کوئی مائی کا لعل بھی چھو نہیں سکتا ہے اور نہ پوچھ سکتا ہے۔

اس کی مثال ہر پل ہر دم اور تازہ دم اس ملک میں ملے گی۔ جیسے کہ عبوری حکومت کو دیکھ لو ان کو اب یاد آیا کہ ملک میں عرصے سے جاری و ساری کرنسی سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی کو روکنا ناگزیر ہوگیا۔ اور اس کی پاداش میں انصاف کی دیوی کا راج تو دیکھو کہ ہرنام نہاد محب وطن کا زور بس غریب عوام پہ ہی نکلتا ہے۔ وزیروں، سیاسی رہنماؤں، پارٹی رہنماؤں، زرداروں، نوازوں جیسے عظیم چوروں کے گریبان تک کسی کے ہاتھ نہیں جاتے، ہاتھ تو دور کی بات ان کا نام تک زبان پہ لینے سے ان کی حالت ہلکی ہوتی ہے۔ جبکہ اصل سمگلر، ذخیرہ اندوز، بھتہ خور، رشورت خور اور نہ جانے کیا کیا خور یہی ہیں۔

بس یہی پہ نہیں، ہمارا ملک اس اشرافیہ اور نام نہاد محبین وطن کے لیے اک چراہ گاہ بنا ہوا ہے۔ جہاں یہ لوگ اپنے عیال بلکہ پورے ٹبر کے ساتھ چرتے رہتے ہیں۔ اقتدار کے مزے لوٹنے، حکومت کرنے پاکستان پہنچ جاتے ہیں اور صرف پہنچ ہی نہیں جاتے بلکہ اک اعلٰی و ارفع محبِ وطن بھی بن جاتے ہیں۔ اور صرف یہی نہی بلکہ یہ قرض اتارو و ملک سنوارو کے نام پہ اپنے خزانے بھرنے کے لیے بھاری بھاری قرضے لیتے ہیں۔ ہر سیاسی لیڈر، جتنا بڑا سرکاری افسر ہوتا ہے، جس کے پاس جتنی طاقت ہوتی ہے وہ اتنا ہی بٹورتے رہتے ہیں۔ اور اپنے دورانیے کے اختتام پہ ہی ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ عوام کے لیے ان کے حصے میں بڑے قرضوں کے پہاڑ چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ بہت ہی عام فہم اور مشاہداتی بات ہے کہ آج تک جتنے بھی یہ سیاسی لیڈر، وزیر، افیسر اور جرنیل اپنے دورانیے کے اختتام پہ ملک میں رہے ہوں۔ یہ دورانیہ ختم ہوتے ہی ملک سنوارو کی جگہ ملک سے بھاگو کا فارمولہ اپنالیتے ہیں۔ سوائے ان کے جو اپنا ضمیر و ایمان بیچ نہ چکے ہو اور ان کی بھی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔

ان لوگوں کا ایمان پیسہ ہوتا ہے اور ان کا مقصد قومی مفاد پہ ذاتی مفاد کو فوقیت و ترجیح دینا ہوتا ہے۔ نہ جانے یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے یا پھر ہم عوام کی، کہ آج تک پاکستان کی قسمت کی دیوی کسی ایماندار کے ہاتھوں میں نہیں پہنچی جو اس کی بے سمت بیڑی کو صحیح پار لگا دے۔ دنیا کے ہر ملک میں پارلیمان کے ممبران کی تعیناتی کے لیے ان کی تعلیمی قابلیت کے ساتھ پروفیشنل مہارت کو بھی خاطر میں لایا جاتا ہے۔ جبکہ وطن عزیز میں یہ معیار دنیا پوری سے بلکل ہی الگ تھلگ ہے۔ پاکستان اس کائنات کا وہ خطہ ہے جہاں پر قومی اسمبلی کے ممبران کی تعیناتی کے لیے تعلیمی قابلیت نہیں، بلکہ خاندانی وراثتی صلاحیت کو ناگزیر سمجھ کر مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس کنڈستان میں سب سے بڑے کنڈی چور یہی لوگ ہیں جو ان جیسے احمقوں کو اس قابل سمجھ کر آگے لاتے ہیں جن کو یہ علم تک نہیں کہ انڈے درجن کے بھاؤ بکتے ہیں یا کلو کے حساب سے؟ آلو کو کس پیمانے کے حساب تولے اور بیچے جاتے ہیں۔ جب کسی کو اتنی بنیادی باتوں کو علم نہ ہو اس کو ملک کے نازک معاملات کا علم کیا ہوگا؟ اور اس کے لیے متعلقہ حل پیش کرنا تو دور کی بات۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج نایجیریا جیسے ملک سے بھی نیچے ہوگیا ہے۔ سری لنکا جیسے ڈیفالٹ شدہ ملک سے بھی ہماری کرنسی سستی ہوگئی۔ اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس قسم کےقابل اور ایماندار، عالم و فاضل لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی قسمت کی ڈوری گردش کررہی ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم عوام ہر کسی کو اس کی اوقات دکھا کر ان کو انکے ہی حدود میں رکھا جایے۔ چاہے وہ کسی سیاسی پارٹی کے رہنما ہو، کوئی وزیر ہو، کوئی سرکاری افسر ہو۔ ہم نے ہی ان کو سر پہ چڑھا رکھا ہے۔ ان کو اگر آج ان کی اوقات نہ دکھائی، ان کے گلے میں لگام نہ کسے، تو ان کی آنے والی نسلیں یونہی ہماری آنے والی نسلو ں کو غلام بنا کر حکمرانی کرتے رہیں گے۔

اللہ کرے ہم سب کو ان باتوں کی سمجھ آجایے اور ان چور لٹیروں سے وطن عزیز کو چھٹکارا مل جائے۔

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq