Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Junglistan

Junglistan

جنگلستان

اس میں کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ پاکستان اب اک جنگلستان بن چکا ہے۔ اک ایسا علاقہ اک ایسا ملک جہاں جنگل کے قانون کی راج دھانی ہے۔ جہاں طاقت اور عیاری و مکاری کا بول بالا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر بندر کے ہاتھ میں ماچس تھما دی جائے تو وہ پورے جنگل کو ساڑ دیتا ہے۔ اور ارض پاکستان کی بدنصیبی یہ ہے کہ جناح صاحب کی وفات سے لے کر اب تک یہ ماچس بندروں کے ہاتھ میں ہی رہا ہے۔

انہی نے جناح صاحب کو راستے ہٹایا تھا، اور انہی نے ملکر تقسیم بنگال کے وقت اس جنگل کو آگ لگائی تھی۔ اور انہی کے مرضی سے اس وطن عزیز کے اقتدار ایوان میں کرسی کی رکھوالی کی جارہی ہے اور چہرے اپنے مرضی کے بدلوائے جاتے ہیں۔ پاکستان جب بھی ترقی کی راہ کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو اسکے دیرینہ دشمن بندر کے ہاتھ میں ماچس تھما دیتے ہیں اور بندر آن ہی آن میں جنگل کو نظر آتش کر دیتا ہے اور پھر مسیحا بن کر میدان میں اتر کر ساڑے ہوئے جنگل کے راکھ پہ بندر ناچ دکھا کر عوام کا دل بہلانے لگ جاتے ہیں۔

میں نے جب یہ کہاوت سنی اور پچھلے 9 مئی کو ہونے والے واقعات کو لے کر سوچ میں پڑ گیا کہ ایسا کیا ہوا کہ جو یہ صورتحال بن گئی۔ اور ملبہ بھی یک دم سارے کا سارا عمران خان پہ ڈالا جانے لگا جو کہ عین درست سمت کا تعین لگ رہا ہے۔ لیکن یہاں پریشانی والی بات یہ ہے کہ دور حاضر میں پاکستان میں رائج فسطانیت و فرعونیت میں حق وہی ہی ہے جو سول انتظامیہ ہو یا وردی پوش فراعین ہو کی طرف سے آتا ہے۔ کسی نے کیا خوب لکھا تھا کہ جہاں طاقت و عیاری و مکاری کا رقص ایوانوں میں طویل ہوجائے وہاں سچ گالی بن جاتا ہے، اور جھوٹ حدیث قدسی کا درجہ رکھنے لگتی ہے، معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔

کتنی عجیب بات ہے کل کو بہ بانگ دہل خود کو آزاد، حق گو اور نجانے کیا گو اورکیا پرست کہلوانے والے بھی چند لفظی ہیر پھیر کو اپنا کر اپنے حق گوئی کو خوف پرستی اور چاپلوس پرستی کہہ لو یا مجبور پرستی کے لبادے میں لپٹیے ہوئے ہیں۔ اور اپنی جان و مال کے تحفظ کی خاطر انہی کی زبان بمثل طوطے رٹے جا رہے ہیں لیکن چند ایک ہی اس مجبوری سے دوچار ہے اکثریتی لوگ اس حمام میں ننگے ناچ کے خود شوقین ہیں اور وہ اس نظریے کئی منجھے ہوئے داعی ہیں کہ پیسہ پھینک اور تماشہ دیکھ۔ یہ سرکس کے وہ بندر ہیں جس کا مالک لوگوں سے داد میں پیسہ وصول کرکے اک دو کپڑے کے رنگین پٹھے لنڈے بازار سے اس بندر کے لیے بھی خرید لیتا ہے اور بندر بیچارہ وہ پاکر خود کو امیر، ہوشیار اور اپنی کمال مہارت سمجھتا ہے۔

وہ بندر یہی سوچتاہے کہ باقی بندروں سے میں زیادہ عاقل اور کمال پرور بندر ہوں کہ اک اچھی زندگی گزار رہا ہوں جبکہ وہ بندر کی بندروں والی خام خیالی ہی ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ پاکستانی میڈیا اور صحافتی دنیا میں ایسے کئی بلکہ بے شمار نام ہیں جو اپنی صحافت و جرنلزم اسی بندر والی سوچ کے تحت چلارہے ہیں۔ یاد رکھیں تاریخ میں ایسے لوگوں کو چڑھتے سورج کے پجاری کے نام سے ہی یاد رکھا جاتا ہے اور تاریخ ایسے لوگوں اور کرداروں سے بھری پڑی ہے۔

آج پاکستان میں وہ سارے صحافی جو خود کو واقعی میں حق پرست ہیں، راست باز ہیں مگر مصلحت برائے تحفظ فیملی، چادر و چاردیواری کے تحت نہ چایتے ہوئے بھی اس بیاننے کے ساتھ کھڑے ہیں جس کے تانے بانے پیروئے ہی وقت کے سول انتظامیہ اور وردی پوش ہیں۔ سب سے پہلے اس میں تو دو رائے ہونی ہی نہیں چاییے کہ جو کچھ 9 مئی کو کروایا گیا، پلانٹ کیا گیا اور پھر ملک کے ماتھے پہ تھوکا گیا وہ صرف مذمت کے قابل نہیں بلکہ وہ کردار اگر بے نقاب نہ ہوئے جو کہ انشا اللہ نہیں ہونگے، ان کو سزا نہ ملی جو کہ انشاء اللہ نہیں ملے گی تو یہ پاکستان کی عزت پہ وہ داغ و دھبہ رہ جائے گا جو تاریخ اس کو بھی سانحہ بنگال کے تقسیم کی مانند یاد رکھے گا۔ تاریخ میں آج بھی جب ہم جھانکتے ہیں تو تقسیم بنگال کا وہ سیاہ دھبہ جو بھٹو کا کارنامہ ہے خون آلود لفظوں میں ملتا ہے۔

تو مذمت واقعہ 9 مئی کا کرنا فقط کافی نہیں بلکہ ان کرداروں کو بے نقاب کرنا اصل نقطہ ہے جس کو ہر حق پرست، محب وطن (نام نہاد) دوہرا تو رہے ہیں لیکن کوئی اس سوال کی طرف بھاگ ہی نہیں رہا کہ یہ ہوا کیسے اور کرنے کیوں دیا گیا؟ روکا کیوں نہیں گیا؟

میں 9 مئی کو وطن میں موجود تھا بھی نہیں مگر آج بھی یہ دعوی کر رہا ہوں کہ قرآن پاک اٹھائیں اور قسم اٹھوانا شروع کریں اور اولا قرآن پہ قسم عمران خان سے لیں اور سول انتظامیہ و لٹیروں اور چوروں کے ٹولے پی ڈی ایم سے قسم قرآن پہ اٹھوائیں اور اک سوال پوچھے کہ تم لوگوں نے 9 مئی کا معاملہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے نہیں کروایا؟ میں نے سنا ہے دیکھا یا تجربہ تو نہیں کیا، کہ یہ کام (قرآن پہ قسم) عرب ممالک میں قاضی القضاۃ کرواتا ہے جب دونوں فریقین جرم قبول کرنے سے انکار کردے تو وہ قرآن پہ قسم اٹھواتا ہے۔

تاریخ میں بلاشبہ بہت سارے شرمناک، اندوہناک، منافقت بھرے واقعات لکھے جا چکے ہونگے لیکن جو مزاق، جو منافقت، جو دہشت گردی اور جو فرعونیت اس وقت ہو رہی ہے اس کو تاریخ اک ایسے الفاظوں میں درج کرے گی کہ آنیوالی نسلیں ان لوگوں کے قبروں پہ تھوکیں گے بھی نہیں۔

اب میں چند سوال سامنے رکھتا ہوں میں دعوی کررہا ہوں اور چیلنج بھی اگر یہ ان سوالوں کے جواب دے گئے تو یہ معاملہ 9 مئی کا حل ہوجائے گا اور یہ سواال اور ان کے جواب ان کو معلوم بھی ہے مگر میں پھر بھی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ کل کوجناب حق کے بارگاہ میں یہ گواہی تو دے سکوں کہ اپنے چونچ میں جتنے قطرے پانی کے سمو سکتے تھے وہ لے کے حق گوئی کی خاطر باطل کی بھڑکائی یوئی آگ کو بجانے میں اپنا ادنی سا سہی حصہ ڈالا ضرور ہے۔

1۔ ہماری انٹیلی جنس واقعی میں جو الحمدللہ سب سے بہترین ادارہ ہے، اگرعمران خان اس طرح کی منصوبہ بندی کر بھی رہا تھا تو کیا عمران خان اور اسکے پارٹی والے اور کارکن اتنے بڑے اور منجھے ہوئے جاسوس نکلے کہ اپنے منصوبہ بندی کی بھنک تک اس ادارے کے کانوں میں پڑنے نہ دی؟ جسکی کارکردگی کے چرچے دنیا میں کلیدی حروفوں میں ہوتی رہتی ہیں۔ اگر ایسا واقعی ہے تو پھر ہمیں اپنے انٹیلی جنس کے اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے غور کرنی ازبس ضروری ہے۔

2۔ کیا پاکستان کے کسی کونے میں بھی آرمی کے آفیشل کے گھر پر عوامی دھاوا بولنا اتنا آسان ہے جس آسانی سے لاہور کے کور کمانڈر کے گھر پہ کروایا گیا؟ کیا آرمی آفیشل کے گھر آسان ٹارگٹ ہیں؟ اگر ہیں تو پھر ہم سکیورٹی کے خطرناک پوزیشن پہ کھڑے ہیں اور بالخصوص بلوچستان اور کے پی کے میں اس پہ آرمی چیف کو غیرضروری توجہ دینی چاہیے۔

3۔ کیا کبھی کوئی کورکمانڈر یا آئی جی یا ڈی آئی جی جیسے آفیشل کے گھر جانے کے لیے واقعتا کوئی سکیورٹی نہیں ہوتی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آرمی کینٹ اور دیگر ایسے علاقے جہاں کور کمانڈر کی رہائش گاہ ہو وہاں اسکی سکیورٹی کے لیے اک بندہ بھی موجود نہیں ہوتا؟ اگر نہیں تو پھر آپ باقی کور کمانڈر کے گھروں کو جانے والے راستوں کی 9 مئی سے پہلے والے فوٹیج ذرا عوام کو تو دکھائیں کہ وہاں کی سکیورٹی کی کیا صورتحال ہے۔ اور بالخصوص کورکمانڈر لاہور کے گھر کی۔

4۔ جس گھرکو آج تک کور کمانڈر ہاوس ہی پکارا جاتا رہا اور 9 مئی کے بعد ہمدردی جمع کرنے کے واسطے جناحؒ کی یاد آگئی اور اسکے نام سے منسوب کیا گیا۔ یہ جناح صاحب کا گھر تھا کا واویلہ آج تک کسی کو سنائی کیوں نہیں دیا؟ کیا یہ واقعی جناح صاحب کی ہی رہائش گاہ تھی جو غالباََ سن چھپن میں جناح صاحب نے خریدی تھی اور اس میں رہائش اختیار نہیں کی تھی۔ لیکن چلو مان لیتے ہیں کہ یہ جناح صاحب کا گھر تھا، توآپ سے جناح صاحب کے گھر کی حفاظت بھی نہ ہو پائی۔ آپ پھر کس کام کے اور نام کے سکیورٹی اہل کار ہو؟ یا جب اپنے جان پہ بنی نظر آئی تو آپ کی تعینات کی ہوئی سکیورٹی نفوس اپنی ذمہ داری کو یوں چھوڑ کر بھاگ گئے؟

5۔ لائیں پہلے ان لوگوں کو کٹہرے میں جنہوں نے منصوبہ بندی کے تحت پورے آرمی علاقے سے آرمی سکیورٹی لے لی تھی، جس نے کور کمانڈر ہاوس کو حالی کر دیا تھا۔ بلکہ آپ لوگوں نے اپنے ہی کور کمانڈر کو اک جتھے کے سامنے نہتہ اکیلا مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا؟

یاد رکھیں، آپ جہمور کی آواز کو کتنی دیر تک اپنی طاقت سے دبا سکوگے؟ باطل کی طرف پہ کتنی دیر رہ کر راج دھانی کے مزے لوٹ سکیں گے؟ حقیقت تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ یہ سب کس نے کیا اور کیسے کیا اور کیوں کیا؟ یا تو آپ حقیقت کو سامنے لانے سے ڈرتے ہیں اور معصوموں پہ اپنا غصہ نکال رہے ہیں، یا آپ خود ملوث ہیں اور اب اک جھوٹ کو چھپانے کے لیے اور مزید 100 جھوٹ گھڑنے لگے ہیں۔

پاکستان زندہ باد۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam