Islam Aur Isaiyat (4)
اسلام اور عیسائیت (4)
میں پچھلے کچھ دنوں سے عجیب ذہنئی کشمکش کا شکار تھا، افکار اور سوچوں کی تو ویسے بھرمار تھی مگر وہ مخصوص افکار اور سوچ ذہن کا راستہ نہیں ماپ رہی تھی جس کے لیے میں بے صبرا ہو رہا تھا۔ اس حالت میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا لکھوں اور کیا نہیں۔ تو مجھے مرحوم اشفاق صاحب اور بانو آپا کی یاد آگئی۔ جب اشفاق صاحب نے بانو آپا کو لکھنے کے لیے آمادہ کیا۔ توآپا نے سوال کیا کہ اشفاق میں لکھوں تو کیا لکھوں مجھے تو کوئی خیال، کوئی سوچ ہی نہیں آتی۔ تو اس پہ اشفاق صاحب نے عقل و دانش سے لبریز بات کہی جو مری بذات خود آج تک کے اس لکھنے کے سفر میں زاد راہ بنی ہوئی ہے۔
فرمایا "بانو، جیسے تم دریا کے کنارے روز دن کے اک مقررہ وقت میں جاتی ہو اور مچھلیوں کو دانہ ڈالتی ہو لیکن پہلے دن ادھر کوئی بھی مچھلی نہیں ہوتی۔ جیسے جیسے تم دانہ ڈالنے کے وقت اور مکان میں پابندی برقرار رکھتی ہو تو کچھ ہی دنوں میں پھر بہت ساری مھچلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جانتی ہو کیوں؟ کیونکہ ان سب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس جگہ اس وقت میں کوئی دانہ ڈالنے آئے گا۔ تو سوچیں بھی ان مچھلیوں کی مانند ہوتی ہیں۔ آپ کو دن میں کوئی وقت اور مکان مقرر کرنا ہوتا ہے اور وہاں پہ اسی وقت فقط سوچوں کی نیت سے بیٹھنا شروع کرو، تو ٹھیک کچھ دنوں کے بعد اسی ہی جگہ اسی وقت میں آپکے ذہن میں خیالات آنا شروع ہو جائیں گے۔ یہی وہ فارمولہ تھا اور وہی بانو قدسیہ تھی جو بعد میں راجا گدھ جیسی عظیم الشان عقل و دانش کی اسیر ناول دنیائے ادب کو اس کے قلم سے نصیب ہوا۔ میں آج بھی کبھی کچھ لکھنے کی بے چینی اپنے اندر محسوس کرنے لگ جاتا ہوں تو میں خود کو تنہا کرکے خود کلامی شروع کرتا ہوں جہاں سے میری سوچیں مچھلیوں کی طرح ذہن کے سمندر کے کنارے پہ آنا شروع کر دیتی ہیں۔
میں اس دن اپنا ریذیڈنسی کارڈ بنوانے کے لیے آفس میں بیٹھا تھا کہ مرے دوست نے مجھے میرے بلاگ کے پارٹ 3 کے حوالے سے اپنا جواب منطقی انداز میں لکھ کر بھیجا۔ لیکن اس میں تا حال وہ ساری باتیں پھر بھی زیر بحث نہیں لائی گئیں تھیں جس کی میں اس سے توقع کررہا تھا۔ تو میں نے اس کو دو ٹوک الفاظ میں کچھ سوال لکھ کر بھیجے اور اس سے ان کے بارے میں رائے جاننے کی کوشش کی۔ تو تب اس نے ان سب سوالوں کے جوابات تفصیلی بھیج دبیے۔ نیچے اب میں پہلے اپنے سوالات اور اس کے نیچے مرے دوست کے جواب اور ان جوابات کے نیچے میں اپنا جواب (اسلامی نقط نظر) ترتیب وار لکھوں گا۔ سو یہ حصہ سوال و جواب پہ مشتمل ہوگا۔۔
سوالات و جوابات
سوال: عیسائیت کے نقطہ نظر سے خدا کون ہے؟ آپ کا خدا کا تصور کیا ہے؟
عیسائیت: خدا کی تعریف کرنا ہماری بس کی بات نہیں، لیکن میں یہاں ایک ادنیٰ سی کوشش کرتی ہوں کہ عیسائیت کا تصور خدا کیا ہے؟
"خدا ایک مافوق الفطرت ہستی ہے جس کی نہ ابتداء ہے اور نہ انتہاء۔ وہ ہر جگہ موجود، سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پہ قادر ہے۔ یہ خصوصیات اس کی عظمت کو مخض بیان کرنے کی آغاز ہے۔ مکاشفتہ کیے مطابق 1: 8 میں آتا ہے، "میں الفا اور اومیگا ہوں، ابتداء اور انتہاء۔ خداوند فرماتا ہے جو ہے، جو تھا اور جو آنے والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے"۔
خدا اک پیچیدہ ہستی ہے جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوسکتا ہے، جبکہ وہ واحد ہے۔ بظاہر یہ متضاد لگتا ہے کہ باپ بیٹا اور روح القدس مختلف ہیں لیکن، ہر ایک الگ طور پر عمل کرتا ہے۔ مگر ان میں اک ہی الہی جوہر ہے۔ یہ بات "متی 28: 19" میں بیان کی گئی ہے۔ جب یسوع فرماتا ہے، "پس جاؤ اور سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔ انہیں باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام پر بپتسمہ دو"۔
خدا لامحدود ہے، اور اسے محدود نقطہ نظر سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا، اگرچہ انسانی نقطہ نظر سے 1+1+1=3 لگتا ہے، خدا کی فطرت میں 1+1+1=1 ہوتا ہے، کیونکہ یہ تین شخصیات میں ایک واحد جوہر ہے۔ ∞+∞+∞=∞ خدا، ایک لامحدود جوہر کے طور پر، انسانی سمجھ کی حدود سے ماورا ہے۔
اسلام: اسلام میں اور عیسائیت میں خدا کا تصور یہاں تک تو یکساں ہے کہ اللہ قادر مطلق ہے اور علیم و خیبر ہے (ہر چیز سے خبردار اور جاننے والا ہے)۔ مگر خدا باپ، بیٹا اور روح القدس کی صورت میں اک ہی ہے جو کہ ظاہراَ تین لگتے ہیں یہاں سے اختلاف شروع ہو جاتا ہے۔ اسلام میں اس کو شرک بالذات کہا جاتا ہے۔ یعنی عیسائیت میں اللہ تین مختلف ظاہری اجسام میں موجود ہے، عمل اور فنکشن کے لحاظ سے بھی تینوں مختلف ہیں مگر سپرٹ کے طور پر، جذباتی اور عقیدت کے نظروں میں وہ تینوں اک ہیں تین نہیں، یہ شرک بالذات اور بالصفات دونوں ہیں۔
اسلام میں ہر گناہ کی معافی ہوسکتی ہے مگر شرک کی نہیں۔ اس کی لاجک میں ایسے سمجھاتا ہوں، عیسائیت کہتی ہے کہ اللہ، عیسی اور روح القدس کی مثال سفید رنگ کا محلول ہے جو تین الگ برتنوں میں پڑا ہو، وہ لگتے تین الگ برتن ہی ہیں مگر اس میں موجود سفید محلول کا ماخذ ایک ہے اور اگر تینوں برتنوں کے سفید محلول کو آپس میں ملایا بھی جائے تو یہ اک سفید محلول ہی رہے گی کوئی دوسری تیسری نہیں، تو برتن الگ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کو ذرا مزید واضح کرتا ہوں تاکہ عقیدہ تثلیث کی لاجک سمجھ میں آجائے پھر اس کی رد میں جوابی منطق پیش کرونگا۔
ایک ماخذ، مختلف مظاہر
اس تشبیہ میں سفید محلول اللہ کی ذات ہے، جو ایک ہی ہے اور اس کا ماخذ بھی ایک ہی ہے۔ تین مختلف برتنوں کا مطلب تین مختلف مظاہر یعین پرسنز ہیں۔ یعنی اللہ باپ، عیسیٰؑ بیٹا، اور روح القدس ہولی سپرٹ۔ اگرچہ یہ تین مختلف برتین ہیں لیکن میں ان موجود محلول ایک ہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تینوں مظاہر اک ہی جوہر کے حامل ہیں۔
وحدت میں تثلیث مظاہر الگ الگ ہوکر بھی اصل میں ایک ہی ہیں۔
2۔ وحدت میں تثلیث:
عیسائی عقیدہ تثلیث یہ بیان کرتا ہے کہ اللہ ایک ہے، لیکن اس کی ذات تین مظاہر میں ظاہر ہوتی ہے اللہ (Father)، عیسیٰؑ (Son)، روح القدس (Holy Spirit)۔
یہ تینوں مظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن ان سب کا جوہر (Essence) ایک ہی ہے۔ جیسے سفید محلول تین برتنوں میں ہونے کے باوجود ایک ہی نوعیت کا ہے، ویسے ہی تثلیث میں تینوں مظاہر الگ الگ ہو کر بھی اصل میں ایک ہی ہیں۔
3۔ متحد جوہر:
یہ مثال اس بات کو سمجھاتی ہے کہ جب تینوں برتنوں میں موجود سفید محلول کو ایک ساتھ ملایا جائے تو وہ ایک ہی سفید محلول رہے گا۔ عیسائی عقیدہ یہ بیان کرتا ہے کہ تینوں مظاہر مختلف ہونے کے باوجود، ان کا جوہر ایک ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تینوں مظاہر کی حیثیت الہٰی (Divine) ہے اور وہ سب مل کر ایک خدا کی وحدت میں شامل ہیں۔
4۔ تثلیث کا مطلب:
عیسائیت کے مطابق، خدا ایک ہے، لیکن وہ تین مظاہر میں موجود ہے۔ یہ تین مظاہر الگ الگ ہیں لیکن ان کا جوہر ایک ہی ہے، اس لیے انہیں ایک ہی خدا سمجھا جاتا ہے۔ سفید محلول کی مثال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مختلف مظاہر ہونے کے باوجود، وہ سب ایک ہی جوہر کی نمائندگی کرتے ہیں، اور اسی لیے انہیں الگ الگ سمجھا جا سکتا ہے، لیکن دراصل وہ ایک ہی ہیں۔
نتیجہ:
آپ کی دی گئی مثال تثلیث کے عقیدے کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ خدا کی ذات ایک ہے، لیکن وہ تین مختلف مظاہر میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ تینوں مظاہر اپنے جوہر میں ایک ہیں، جیسے سفید محلول تین برتنوں میں ہونے کے باوجود ایک ہی نوعیت کا ہے۔ اس تشبیہ کا مقصد عیسائیت کے عقیدے کو سمجھانا ہے کہ خدا کی وحدت میں تین مظاہر موجود ہیں، اور یہ تینوں مظاہر اپنے جوہر میں ایک ہی ہیں، اور انہیں ملانے پر بھی وہی ایک خدا باقی رہتا ہے۔
یہ مثال عیسائیت کے عقیدہ تثلیث کی وضاحت میں مددگار ہو سکتی ہے، لیکن اسلامی نقطہ نظر سے اس عقیدے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسلام میں اللہ کی وحدانیت کا تصور مطلق ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی تشبیہ یا تشریک کی گنجائش نہیں ہے۔
جب محبوب پاک علیہ الصلوات والسلام نے نبوت کا اعلان فرمایا تو یہ بات عرب میں پھیلنی شروع ہوئی۔ غالباََ حبشہ یا یثرب سے کچھ یہودی اس بات کی تصدیق اور یقین کرنے کے لیے آئے تھے کہ واقعی کسی شخص نے بنی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟ اور اگر ہاں تو پھر ان سے سوال و جواب کریں یعنی اس کی علم کا اندازہ بھی لگایا جائے۔ (میں اس کہانی کا مفہوم بتا رہا ہوں من و عن الفاظ نہیں تو اس میں کمی بیشی کا احتمال موجود ہے۔ اللہ کریم کمی بیشی کی معافی فرمائے) جب یہودی سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے سوال کیا کہ آپ کا تصور خدا کیا ہے؟ (یعنی جو دین آپ لائے ہو اس میں خدا کا تصور کیا ہے) کیونکہ یہودیوں نے بھی عیسائیت کی طرح عزیرؑ کو اللہ کا بیٹآ منسوب کیا تھا اور بچھڑے کو معبود بنا لیا تھا۔ تو یوں کسی حد تک انہوں نے بھی عقیدہ تثلیث کے مصداق تین نمبرز پورے کر لیے تھے۔ تو یہی تجسس ہی ان یہودیوں کے سوال کی بنیاد بنی۔
محبوب ہاک علیہ الصلوات والسلام نےکچھ وقت کا وقف فرمایا اور اسی دوران حضرت جبرائیل علیہ (روح القدس) تشریف لے کر سورہ اخلاص کی وحی پیش فرمائی کہ اللہ فرماتا ہے۔
قل: کہہ دیں، ھواللہ احد: وہ یکتا ہے، ایک ہے واحد ہے۔ اللہ الصمد: وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ (اسکو کسی چیز کی ضرورت نہیں، نہ بیٹے کی، نہ باپ کی، نہ بیوی نہ کسی شریک کی، نہ دوست کی غرض کسی قسم کی چیز کی ضرورت سے پاک ہے وہ) لم یلد: نہ تو اس سے کوئی جنا ہے۔ یعنی نہ تو اسکی کوئی اولاد ہے (تو عقیدہ تثلیث کی نفی یہاں ہوگئی، عیسی یا عزیر ابن اللہ نہیں ہے) و لم یولد: اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔ یعنی اس کے کوئی والدین نہیں۔ ولم یکن لہ کفوا احد: اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے، یعنی اس کا کوئی برابری کرنے والا، اس کا ہم، عمر ہم سر کوئی نہیں۔
یہ وہ جامع تصور خدا ہے جو اسلام میں اللہ کریم نے روح القدس (جبرائیلؑ) کے ذریعے آخری نبی ﷺ (بعد عیسیٰؑ) پہ آخری آسمانی کتاب قرآن (بعد بائیبل مقدس) میں نازل فرمائی۔ اس سے زیادہ جامع اور مکمل تصور خدا کوئی اور مذہب پیش نہیں کرسکتا۔
اب آتا ہوں اس لاجک پہ کہ عقیدہ تثلیت بمثل ایک سفید محلول ہے جو کہ تین مختلف برتنوں میں پڑا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تین گلاسوں میں سفید محلول ہے، تو ہم یہ جانتے ہیں کہ سفید محلول اور گلاس دو مختلف چیزیں ہیں۔ سفید محلول ایک چیز ہے، اور گلاس ایک اور چیز ہے۔ اگر ہم ان تینوں گلاسوں کے محلول کو ایک گلاس میں ڈال دیں، تو محلول کا مجموعہ ایک ہو جائے گا، لیکن گلاس اب بھی الگ ہوں گے۔
یہ کہنا کہ سفید محلول اور گلاس ایک ہی ہیں، درست نہیں ہے۔ کیونکہ سفید محلول اور گلاس کی اپنی اپنی حیثیت ہے، اور وہ ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتے۔
اسے عقیدہ تثلیث کی لاجک سے جوڑتے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر اللہ، عیسیٰ، اور روح القدس تین مختلف ہستیاں ہیں، تو وہ کبھی بھی ایک مکمل ہستی نہیں بن سکتے۔ اللہ اپنی جگہ پر ہے، عیسیٰ اپنی جگہ پر ہیں، اور روح القدس اپنی جگہ پر ہیں۔ جیسے کہ گلاس اور سفید محلول الگ الگ ہیں، ویسے ہی اللہ، عیسیٰ، اور روح القدس الگ الگ ہیں۔ وہ اپنی اصلیت میں کبھی بھی ایک نہیں ہو سکتے، چاہے ان تمام برتنوں کا محلول ایک ساتھ ملا بھی دیا جائے۔ تب بھی برتن (یعنی خدا) اور سفید محلول (یعنی مخلوقات) اک نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ عقل اس بات کی رہنمائی نہیں کرتا کہ اگر سفید محلول کتنا بھی اکٹھا کیوں نہ ہو جائے مگر وہ برتن کی جگہ نہیں لے سکتے۔ کہ برتن (خدا) ہمیشہ اپنی جگہ پر ہے، اور مخلوق اپنی جگہ پر۔
یہ لاجک اس بات کو واضح کرتا ہے کہ خدا اور اس کی مخلوقات کی حیثیت ہمیشہ الگ رہتی ہے، اور وہ ایک دوسرے میں ضم نہیں ہو سکتے۔
سوال: کیا خدا تین حصوں میں ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے، تو پھر یسوع کی ماں اور خدا کی بیوی (معاذ اللہ) آپ کی تثلیث کا حصہ کیوں نہیں ہیں؟
عیسائیت: جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، خدا ہر جگہ موجود ہے اور وہ جہاں چاہے، جتنی بار چاہے وہاں ہو سکتا ہے۔
یسوع کی ماں مریم ایک معزز خاتون ہیں جنہیں خدا نے ہزاروں میں سے منتخب کیا، جیسے کہ یسوع کے والد جوزف، ان کے گود لینے والے والد۔ یہ پرانے عہدنامے کی اس وعدے کے مطابق ہے کہ بادشاہ، مسیحا، مسیح، ابراہیم اور بادشاہ داود کی نسل سے ہوگا۔
نئے عہدنامے میں، خاص طور پر متی اور لوقا کی اناجیل میں، یسوع کا نسب پیش کیا گیا ہے:
متی کی انجیل (متی 1:1-17) میں، یسوع کا نسب ابراہیم سے داود تک اور داود سے جوزف تک بیان کیا گیا ہے، جو مریم کے شوہر تھے۔
لوقا کی انجیل (لوقا 3:23-38) میں، نسب یسوع سے آدم تک بیان کیا گیا ہے، جو بھی داود کے ذریعے ابراہیم تک پہنچتا ہے۔
پرانے عہدنامے کے وعدے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں
ابراہیم کے لیے وعدہ
پیدائش 12:2-3: خدا ابراہیم سے وعدہ کرتا ہے کہ اس کی نسل کے ذریعے زمین کی تمام قومیں برکت پائیں گی۔ یہ حوالہ مسیحا کی آئندہ آمد کی پہلی اشاروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
پیدائش 22:18: جب ابراہیم اپنے بیٹے اسحاق کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے، تو خدا اپنے وعدے کی تجدید کرتے ہوئے کہتا ہے: "اور تیرے بیج سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی، کیونکہ تُو نے میری آواز سنی"۔
داود کے لیے وعدہ
سموئیل 7:12-16: خدا داود سے وعدہ کرتا ہے کہ اس کا تخت ہمیشہ کے لیے قائم رہے گا اور اس کی نسل (جو مسیح یسوع کے طور پر سمجھی جاتی ہے) ہمیشہ کے لیے حکمرانی کرے گی۔
زبور 89:3-4: "میں نے اپنے منتخب سے عہد باندھا ہے، میں نے اپنے خادم داود سے قسم کھائی ہے: میں ہمیشہ کے لیے تیری نسل کو قائم رکھوں گا، اور تیرے تخت کو تمام نسلوں کے لیے بنا دوں گا"۔ یہاں، داود کی نسل کے ابدی ہونے کا وعدہ دہرایا گیا ہے۔
مریم، یسوع کی منتخب شدہ ماں کے طور پر، خدا کے الہی منصوبے میں اپنے کردار کے لیے برکت اور قدر کی حامل ہیں، لیکن انہیں کیتھولک مذہب کی طرح الہی حیثیت نہیں دی گئی۔ وہ تثلیث کا حصہ نہیں ہیں کیونکہ تثلیث خدا کی واحد ہستی کی تین شخصیات میں ظہور ہے: باپ، بیٹا اور روح القدس۔ مریم ایک انسان ہیں جو غیر معمولی برکت کی حامل ہیں، لیکن وہ الہی نہیں ہیں۔
اسلام: پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت مریمؑ قرآن کی نظر میں کون تھی اور پیغمبر عیسیٰ روح اللہؑ کے پالنے والے والد کون تھے یعنی مریمؑ کی کفالت کس کے ہاتھ میں آئی۔ تاریخی اعتبار سے یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ عیسیٰؑ کی ولادت کیسے ہوئی، قرآن میں بی بی مریمؑ کے ساتھ جس نفس عمران کا ذکر ہے وہ عمران کون تھا؟ اس کے بابت علمآء، فقہا، مفسرین اور مورخین کی مختلف رائے ہیں جن میں چند اک ذیل میں ذکر ہے۔
یاد رکھیں مورخین کے مطابق موسیٰؑ کے والد کا نام عمران تھا (ڈاکٹر اسرارؒ مرحوم) اور انہی سے جو خاندان چلی آرہی تھی اس کو آل عمران کا نام دیا گیا۔ لیکن اس خاندان کی فضلیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اللہ جل شانہ نے اس خاندان کو آل عمران کے نام سے قرآن میں مخاطب فرمایا اور اس کو تکریم اور عزت عطاء کی حتیٰ کہ پوری اک سورہ، آل عمران کے نام سے قرآن میں نازل ہوئی اور اس خاندان میں تین جلیل القدر انبیآء، حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ مبعوث ہوئے تھے۔ ایک اور روایت میں ذکر ہوتا ہے کہ شائد عمران حضرت مریمؑ کے والد کانام تھا لیکن عیسائی روایت کے مطابق حضرت مریمؑ کے والد کا نام "یو آخیم" تھا۔
اب قرآن میں سورہ آل عمران آیت نمبر 35 سے لے کر 37 تک مریمؑ کے پیدائش کا تذکرہ ملتا ہے۔ اک روایت کے مطابق حضرت مریمؑ کے والد کا نام عمران تھا اور وہ بیت القدس کے امام تھے (تفسیر تقی عثمانی) اور اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ تو انہوں نے منت مانی کی اگر ان کے ہاں کوئی اولاد ہوئی تو وہ اسکو بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کر دینگے۔ جب مریمؑ کی ولادت ہوئی تو ان کے والد عمران کا انتقال ہوگیا اور انکی والدہ حضرت حسنہ کے بہنوئی حضرت ذکریاؑ کو قرعہ اندازی کے زریعے مریمؑ کی سرپرستی کی ذمہ داری سونپی گئی۔
اسی سورہ آیت نمبر 42 میں فرشتے مریمؑ کو اس کی فضیلت بتاتے ہیں کہ اے مریم اللہ کریم نے آپ کو چن لیا، صاف ستھرا کیا اور تمام جہان کی عورتوں سے تجھے پسند کیا (کنزا الایمان)۔
یسوع کا نسب اور قرآن مجید
قرآنی حوالہ قبل پیش کرنے کے ذرا ایک نظر لاجک سے دیکھتے ہیں۔ اسلامی روایات و تعلیمات کے مطابق اولاد کی حسب و نسب والد سے چلتی ہے نہ کہ ماں سے۔ یعنی بچوں کے باپ کے نسب سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ کیونکہ قرآن اسکی بابت فرماتا ہے۔
"ٱدْعُوهُمْ لِءَابَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوٓا۟ءَابَآءَهُمْ فَإِخْوَٰنُكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَمَوَٰلِيكُمْ ۚ" (سورۂ الأحزاب، 33: 5)
ترجمہ: "ان (متبنٰی بچوں) کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ درست ہے اور اگر تمہیں ان کے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں"۔
یہ آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ لوگوں کو ان کے حقیقی والدین کے نام سے پکارا جائے، تاکہ حسب و نسب کی شناخت برقرار رہے۔ ]
معاشرتی استحکام
اسلام میں نسب کا والد کی طرف منسوب ہونا معاشرتی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس سے بچوں کی پرورش اور ان کی حفاظت کے حقوق اور ذمہ داریاں واضح ہوتی ہیں۔ والد کی طرف منسوب ہونے سے بچوں کی پہچان اور ان کی معاشرتی شناخت مستحکم ہوتی ہے، جو کہ اسلامی معاشرت میں اہم ہے۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰؑ کا نسب بیان نہیں کیا گیا۔ قرآن میں حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ایک معجزے کے طور پر بیان کی گئی ہے، جس میں حضرت مریم علیہا السلام کے بغیر کسی مرد کے حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کا ذکر ہے۔ سورۂ مریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
"قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاء إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ"
ترجمہ: مریم نے کہا اے میرے رب! مجھے بیٹا کیسے ہوگا؟ حالانکہ مجھے کسی آدمی نے ہاتھ نہیں لگایا، فرمایا اسی طرح اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو یہی کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے"۔
یہ آیات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کا نسب عام انسانوں کی طرح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بغیر والد کے پیدا کیا اور اس بات کو ایک معجزہ کے طور پر پیش کیا۔
متی اور لوقا کے نسب نامے کی حقیقت
متی اور لوقا کی انجیلوں میں حضرت عیسیٰؑ کے نسب کا ذکر ہے، لیکن دونوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک میں نسب حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہوتا ہے اور دوسرے میں حضرت آدمؑ سے۔ مزید یہ کہ دونوں نسبوں میں حضرت یوسف کے والد کا نام بھی مختلف ہے۔
یہ اختلافات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انجیل میں انسانی ہاتھوں سے تحریف کی گئی ہیں اور ان میں شامل معلومات قابل اعتبار نہیں ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْۗ-ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًاؕ-فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ
ترجمہ: "تو ان کے لیے ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے بدلے تھوڑی قیمت حاصل کریں۔ ان کے لیے ہلاکت ہے جو کچھ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور ان کے لیے ہلاکت ہے جو کچھ وہ کماتے ہیں"۔
حضرت عیسیٰؑ کا حقیقی مقام
قرآن مجید میں حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا نبی اور رسول قرار دیا گیا ہے، نہ کہ اللہ کا بیٹا۔ سورۂ النساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
"مَا ٱلۡمَسِيحُ ٱبۡنُ مَرۡيَمَ إِلَّا رَسُولٌ۬ قَدۡ خَلَتۡ مِن قَبۡلِهِ ٱلرُّسُلُ وَأُمُّهُ ۥ صِدِّيقَةٌ۬ۖ كَانَا يَأۡكُلَانِ ٱلطَّعَامَۗ ٱنظُرۡ كَيۡفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ ٱلۡأَيَ۔ ٰتِ ثُمَّ ٱنظُرۡ أَنَّىٰ يُؤۡفَكُونَ
ترجمہ: "مسیح ابن مریم صرف ایک رسول تھے۔ ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ ایک سچی عورت تھیں۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھو ہم ان کے لیے کس طرح آیات کو واضح کرتے ہیں اور پھر دیکھو کہ وہ کس طرح بہکائے جا رہے ہیں"۔
یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدہ دونوں انسان تھے اور اللہ کے خاص بندے۔
خلاصہ
قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کا نسب نامہ بیان کرنا غیر ضروری ہے، کیونکہ وہ اللہ کے معجزے سے پیدا ہوئے تھے۔ انجیلوں میں مذکور نسب نامے میں تضاد اور اختلافات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ معلومات تحریف شدہ ہیں اور ان پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت عیسیٰؑ اللہ کے ایک برگزیدہ نبی تھے اور انہیں اللہ کا بیٹا قرار دینا یا ان کا نسب نامہ بیان کرنا اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔
بائبل میں موجود ابراھیم اور داوود علیھما السلام کے ساتھ اللہ کی طرف سے کیے گئے وعدے کے ذکرکے متعلق قرآنی حقیقت اور اصلیت کیا ہے۔ اسکی تفصیل اگلے حصے میں بیان کرونگا۔
جاری ہے۔۔