Ishq e Majazi Se Ishq e Haqiqi Tak
عشق مجازی سے عشق حقیقی تک
میں مسجد کے صحن میں بیٹھا فلک پر اپنی نظریں جمائے رکھا تھا۔ آسماں اپنے چکمدار لباس چھوڑ کر نیا سرمئی لباس زیب تن کر رہا تھا اور ابابیل، پرندے اپنی اُڑان کی گلکاری سے فلک پہ سیاہ ڈوری سے سیاہ نقش بنا رہے تھے۔ جب مسجد کے لاؤڈ سپیکر میں اللہ اکبر کی صدا گونج اٹھی۔ پہلی بار کسی احساس کو آنکھوں سے دیکھتا ہوا محسوس کیا جب ساری فضاء اور ابابیل، پرندے آذان کی گونج سے پیدا ہونے والی تال پہ حرکت کرنے لگے۔
جیسے کہ روح جسم سے ہر لفظ پہ نکل کر واپس آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اور تب پہلی بار خالق کائنات سے گفتگو کرنے کا فن بھی سمجھ آیا اور لذت گفتگو سے بھی آشنا ہوا۔ جس طرح انسانی جسم روح کے بغیر ادھورا ہوتا ہے اسی طرح دل بھی جذبات کے بنا اندھا ہوتا ہے۔ انسانی جسم کتنا ہی توانا کیوں نہ ہو، کتنے ہی اس کے نین نقش خوبصورت کیوں نہ ہوں مگر روح کے بغیر وہ ایک اچھا تراشا ہوا مجسمہ تو کہلایا جا سکتا ہے مگر انسان نہیں۔
اسی طرح دل کتنا ہی شائستہ کیوں نہ ہو مگر جذبات کے بغیر یہ کاغذ پہ بنائے ہوئے اک آرٹ کی مانند ہی ہوتا ہے۔ جس کو کسی آنکھ کی بصارت سے داد مصوری تو مل جاتی ہے مگر وہ حقیقی دل کہلانے کا سند حاصل نہیں کر پاتا۔ روح اپنی موجودگی سے جس طرح انسانی جسم کو انسانیت بخشتی ہے اسی طرح عدم موجودگی سے ہٹے کٹے انسان کو مٹی کے ذرات میں ملا دیتی ہے۔ اور یوں انسانی دل بھی جذبات کی وجہ سے محبت کی معراج پہ پہنچ پاتا ہے۔
ورنہ جذبات کے عدم موجودگی اسکی ساری ہوا نکال کر پلاسٹک کے کھلونے کی مثل بنا دیتی ہے۔ جیسے روح اور جسم کا بندھن ٹوٹ جائے تو انسانی جسم کو اپنے مادہ مٹی کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جبکہ دل اور جذبات کے بندھن ٹوٹنے سے ساری دنیا ویراں ہو جاتی ہے۔ جذبات صرف دلوں کی سلطنت کو مسخر نہیں بناتی بلکہ یہ جسم اور روح کی دہقانیت بھی دور کر دیتی ہے۔ اس کریم بادشاہ کی عظمت بھی کیا خوب ہے کہ ہر پہلو میں قسط کا عنصر نمایاں رکھا ہے۔
جسم اور روح کو اگر شعور و عقل کی دولت سے دوام بخشا ہے تو دل اور جذبات کو بھی محبت کے انعام سے نوازا ہے۔ آسان لفظوں میں اگر کہا جائے کہ جسم اور روح کا وجود ہی شعور سے وابستہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ جسم اور روح شعور سے ہی دکھتا، سنتا، بولتا اور محسوس کرتا ہے۔ جسم اور روح کو ماحول کی گرمی، سردی، نرمی، دکھ اور سکھ کا ادراک شعور سے ہی ملتا ہے۔ اسی طرح دل اپنے جذبات کے نصاب میں استاد محبت سے ہی فیض حاصل کرتا ہے۔
دل اک ایسا استاد، ایسا مرشد، ایسا بابا اور ایسا صوفی ہے جو عشق کے لافانی مقام پر لے جاتا ہے۔ محبت بے ذوق، بصارت اور بصیرت سے معذور لوگوں کو مرید نہیں بناتا۔ یہ شروع ضرور انسانوں سے ہوتی ہے مگر ختم اللہ کی ذات پہ ہوتی ہے۔ اور اللہ سے نسبت رکھنے والی چیزیں عام نہیں ہوتی فرش سے عرش تک کا یہ سفر بصارت اور بصیرت کے اندھوں کو نصیب نہیں ہوا کرتا۔ یہ مجذوبیت کی ڈگر ہے اور اس پر چلنے والے مجذوب، عجز سے بھرپور اور دیوانگی سے مخمور لوگ ہوا کرتے ہیں۔
انکا سفر لیلٰی کی محبت سے شروع ہوتا ہے اور عشق کے دشت و بیابان میں مجنونیت کی حالت میں سرگرداں رہتے ہیں۔ یہ محبت ہی ہوتی ہے جو دلوں کو اندھا کر دیتی ہے۔ یہ کشش ثقل کی طرح محبوب سے جڑی ہر چیز کو دل کے دامن میں نیچے گراتا ہے۔ وہ چاہے طوائف کی پائل کی اک جھنکار ہو یا دیہات کی سیدھی سادھی گل رنگیں ہاتھوں کی مہندی کا سرخ رنگ ہو۔ یہ پانی کے اس بھنور کی طرح ہوتا ہے جس میں کتنا ہی کنارے تک جاؤ یہ واپس بیچ میں کھینچ لیتا ہے۔
محبت تو دراصل دلوں کا اسم اعظم ہے یہ اپنے بطن سے عشق کو جنم دیتا ہے جو مالک کائنا ت سے ملاتا ہے۔ یہ بے بسی کی ہتھ کڑیوں میں باندھ کر انسان کو خالق کے در پے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ چشمِ آب کے بندھ پر لگے بند توڑ کر آنسوؤں کے سمندر کو بہاؤ دیتا ہے۔ جو شدت غم سے سامنے آنے والی ہر چیز کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ یہی کچھ مرے دل پہ بیت رہی تھی۔ میں اک ایسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔
میں اک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا اک عام شکل و صورت، عقل و فہم رکھنے والا انسان تھا۔ مگر احساس اور فینٹیسی کی لے نے مجھے اندھا کر دیا ہوا تھا اور اک نیک سیرت و پاک دامن کی محبت کا اسیر ہوگیا، اور اس کی محبت میں اپنا آپ تک خرچ کرنے کے لیے سربکف تیار ہوا بیٹھا تھا۔ اور اسی ہی کی وجہ سے میرے اندر وہ بلا کی فینٹیسی ختم ہو چکی تھی نہ جانے کیسے! میں نے اس کو اپنے عقد میں لینے کی بہت کوشش کی اور خواہش رہی جو دل میں ہی رہ گئی۔ دراصل میں مشرقیت کے اصول قاعدے اور ضابطوں کی بھینت چڑھ گیا۔
میری یک طرفہ محبت دن بدن سورج کی مانند شدت و طمازت پکڑ رہی تھی جو میرے لیے تو کیا لیکن میری خود سے زیادہ اسکی پاکدامنی کے لیے وبال جان بن سکتی تھی۔ میری محبت کی اتنی شدت اور اندھے پن کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سراپائے عشق خاتم النبین ﷺ تھی۔ جو کسی ذی روح مسلمان کا سرمایہ کل ہوتا ہے اور یہی چیز میری شدت محبت کا پٹہ بن گئی تھی۔ مختصر یہ کہ جب میری گریہ و زاری کسی کام نہ آئی، جب اس نے بالآخر مجبوراََ کل کے بڑے صدمے سے بچنے کے لیے آج کے صدمے کو غنیمت جان کر میرے دیے ہوئے خلوص محبت کے کٹورے بھرے کے بھرے ویسے ہی واپس کرکے میرے منہ پہ دے مارے۔
لیکن میرے حق میں دیر بہت ہو چکی تھی اور اب حالت میری اپنی یہ تھی کہ وہ جیسے میری سانسوں پہ آقا بن بیٹھی ہو۔ میں اک فالتو کتے کی طرح محبت کی پٹی میں خود کو ایسا بندھا ہوا محسوس کر رہا تھا کہ مجھے آزاد کیا ہو یا باندھ کے رکھا ہو دونوں صورتوں میں خود کو اسی ہی کی چوکھٹ پہ بیٹھا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ اور وہ اک طرح سے میری ضد بنتی جا رہی تھی، اور اسی تڑپ نے اسکی زندگی کو بھی کسی حد تک بے چین کیے رکھا تھا۔
اور آخر کار اس نے تنگ آ کر بڑی بےدردی سے بےعزت کرکے دھتکار دیا کیونکہ یہ بہت ضروری ہو چکا تھا۔ میں اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وجود سے روح ہی نکل گئی ہو، پیروں تلے زمین ہی نہ رہی ہو۔ اپنے احساس اور جذبات کے گھروندے میں اپنی محبت کے ساتھ اوندھے منہ پڑا تھا۔ اک نامعلوم نہ ختم ہونے والی خاموشی دے گئی۔ مجھے اپنے ہی ساتھ بات کرنا دشوار ہو رہا تھا۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ ٹوٹے ہوئے دل سے نکلنے والی ٹوٹی آہوں سے جب اپنے رب کو پکارا جائے تو سکینڈ کے ہزارویں حصے میں اللہ نہ صرف سنتا ہے بلکہ جواب بھی دیتا ہے۔
تبھی بزرگ اور صوفیاء کرام اسی لیے ٹوٹے ہوئے دلوں کی بدعا سے بچنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ سیدالاانبیاء علیہ الصلوات والسلام جب بھی جانوروں کو دکھ اور تکلیف کی حالت میں دیکھتے تو بےتاب ہو جاتے کیونکہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ اس وقت اللہ کریم جانوروں کے کتنے قریب ہیں ان کی بدعا سب کو تباہ و برباد کرکے رکھ سکتی ہے۔ محبت میں بھی اکثر انسان اسی نہج پہ پہنچ جاتا ہے کہ خود اپنے ہی وجود کے ٹکڑے اپنے ہاتھوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کے اکٹھے کرنے پڑتے ہیں۔ اور محبت بھی ایسی محبت جس میں انسان اپنا تن من اور دھن سب کچھ ہار چکا ہو۔
عزت و دولت، شہرت کے گھروندے محبت کے سیلاب میں بہا آنے کے لیے سربکف کھڑا ہو۔ قدرت انسان کو پیدائش کے وقت جذبات کا اک گلدستہ بھی دیتی ہے، جس میں سب سے نمایاں اور خوبصورت پھول محبت کے جذبے کا ہوتا ہے۔ جو دور سے منفرد دکھائی دیتا ہے۔ لیکن خوبصورتی کے ساتھ ساتھ یہ اپنے اندر رستم جیسی پہلوانی اور طاقت بھی رکھتی ہے۔ اور یہی پہلوانی طاقت ہی تو ہے جو فرہاد سے دودھ کا دریا کھودتا ہے، تو مجنوں کو دشت و بیاباں میں مارا مارا پھراتا ہے۔
کہیں سسی کو پنوں تو ہیر کو رانجھا کا مستانہ بنا دیتا ہے۔ محبت میں دل انجن کی طرح عقل کے ڈبے کو اپنے پیچھے کھینچ کر لے کے جاتا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق جسمانی قوت ہمیشہ ذہنی قوت کے مخالف صف میں بیٹھتی ہے۔ جس طرح اک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتی اس طرح جسمانی اور ذہنی قوت بھی اک جسم میں نہیں ٹھہرتی۔ تبھی تو پہلوانوں کی ذہنی صلاحیت سب سے کم قرار دی جاتی ہے۔ اور محبت بھی اپنی پہلوانی طاقت کے بل پر انسانی ذہن کو ماؤف کرکے جورو کا غلام بنا کر اس کے سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت پر قبضہ کر لیتا ہے۔
اور انسان کی زبان پر اک ہی ورد جاری کر دیتا ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے۔ حالانکہ محبت اندھی نہیں ہوتی، محبت طاقتور ہوتی ہے۔ محبت پسند اور ناپسند کے اس مقابلے میں ہمیشہ عقل کو پہلے وار میں ہی چت کرکے رکھ دیتی ہے اور بغیر کسی مزاحمت کے مقابلے کا فاتح قرار پاتی ہے۔ اور اس مقابلے کے لیے رنگ (میدان) کا کردار انسانی روح ادا کرتی ہے۔ ہار یا جیت جسکی بھی ہو مگر زخم روح کو ہی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ قیمت صرف روح ہی ادا کرتی ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ جمود زندگی کی ضد ہے۔ جمود کسی بھی چیز کے لیے موت کا باعث بنتی ہے اور انسان کی سب سے بڑی موت اس کے سوچ میں جمود سے واقعہ ہوتی ہے روح کا جسم سے نکلنے سے نہیں۔
اور پہلوانی طاقت کی حامل یہ محبت ہی دل کو چت کرکے بیشتر اوقات انسان کی سوچ میں جمود پیدا کر دیتی ہے۔ جو انسان کو ساری کائنات میں تنہا کر دیتی ہے۔ لیکن بزرگ کہا کرتے ہیں کہ اک جگہ پہ تو کچرا بھی نہیں رکتا اسکی جگہ بدلی جاتی ہے تو پھر انسان کیسے اک جگہ پہ ڈھیر ہوسکتا ہے۔ یہ بجا ہے کہ محبت میں ہمیشہ دل ہی طاقت کی بناء پر پہل کر لیتا ہے لیکن قدرت اس کھیل میں اک موقع عقل کو بھی دیتی ہے اور جب عقل اس موقع کو پکڑنے میں کامیاب ہوجائے تو دل کو اپنے پلو سے باندھ کر محبت کی پگڈنڈی پار کروا لیتا ہے۔
اور مجاز سے آزاد ہو کر عشق حقیقی کے دھرتی میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں سے ولایت، صوفی ازم کا نیا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ وہاں سے انسان مخلوق سے آزاد ہو کر خالق کا متلاشی بن جاتا ہے۔ اسکی ہر سانس ہر انگ منصور خلاج کی طرح اناالحق اناالحق کی ثناء خوانی میں مست ہو جاتا ہے۔ پھر ساری کائنات اسکے قدموں میں پڑی رہتی ہے جبکہ وہ دنیا و مافیہا سے بے فکر، بے نیاز ہو کر اپنے محبوب حق کے دھن میں مست و مگن رہتا ہے۔
وہ چل کر فرش پر رہتے ہیں پر رہتے عرش پر ہیں۔ شمع جیسی بصیرت بھری روشنی سے نیاز مند کرکے خالق کے پروانوں کو بے قطار ان پہ نثار ہونے کے لیے جمع کراتا رہتا ہے۔ محبت شعور کی قربت میں عشق کو سلطان بنا کر اپنی راہ چل دیتا ہے اور انسان کو تاحیات عشق سے امر کر دیتا ہے۔ محبت عشق کو اپنے بطن سے جن کر اپنی زندگی کی قربانی دے کر خود دار فانی کوچ کر لیتی ہے۔
عشق مجاز تو ہی دراصل عشق حقیقی کا اسناد بن کر ابھرتا ہے لیکن فرق واضح ہو کہ مجاز دنیا نہیں مخلوق خداوند سے ہو۔ مجاز ہوس سے نہیں اخلاص و تقدس سے ہو۔