Guantanamobistan
گوانتاموبیستان
دنیائے تاریخ میں یوں تو بہت سے خوفناک عقوبت خانوں کا ذکر موجود ہے مگر دور حاضر میں دو ہی عقوبت خانے اپنے نوعیت کے انسانیت سوز مظالم کے لیے جانے گئے اسکی مثال شاید ہی دنیا کی معلوم تاریخ میں ملتی ہو۔ یہ دنوں عقوبت خانے انسانی دنیا کے سپر پاور امریکہ کے بنائے گئے ہیں جس کو اگر زمین پہ انسانی بنائے ہوئے جہنم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اک بگرام بیس اور دوسرا گوانتامو بے جیل۔
اور ان انسانی جہنموں کے بارے میں تذکرہ منظر عام پہ تب آیا جب اسلامی جہموریہ پاکستان اور دنیائے اسلامی کے ایٹمی پاور ملک کی فوج جو آج کل پاکستانی جمہور کے سپانسرڈ ریلیوں میں ریڈلائن گردانی جاتی ہے کے سربراہ جنرل مشرف نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر عافیہ صدیقی کو ڈالروں کے عوض امریکیوں کے حوالے کیا گیا۔ اور یہی پہ بس نہیں کیا بلکہ پڑوسی اور اسلامی ملک افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی امریکیوں کے ہاتھوں چند ڈالر کے عوض بیچ دیا تھا۔
وہ ملعون اپنے آخری وقت میں جس بیماری میں مبتلا ہوا وہ بدبخت اس سے بھی ہزار ہا درجہ زیادہ لعنت کا مستحق تھا۔ اور اسکا پردہ پھر غیر ملکی صحافی ایون ریڈلی نے افغانستان میں طالبان کی قید میں رہنے کے بعد، ان کی حیا، مردانگی، ایمانی قوت اور پاکدامنی سے متاثر ہو کر اول قبول اسلام کے شرف سے مشرف ہوئی۔ اور پھر اپنے انٹرویو میں لکھا کہ بگرام بیس میں قید اک مسلمان خاتون کی رات کی تاریکی میں خوفناک چیخوں سے پورا بیس لرز اٹھتا تھا۔ اور یہ یقین محکم ہے کہ وہ عافیہ صدیقی تھی۔
جمہور پاکستان ایسے ریڈلائن کا اچار ڈالے جس کے ہاتھ دختر پاکستان عافیہ صدیقی کی عزت کے تار تار ہونے میں رنگے ہوئے ہو۔ جو عافیہ صدیقی کے بچوں کو زندہ یتیم کروایا اپنے مفادات کی خاطر اور پھر یہ نہیں ملا عبدالسلام ضعیف کی کتاب، گوانتامو بے کی کہانی ملا ضعیف کی زبانی کا مطالعہ کریں تو رب کائنات کی قسم انسان کا کلیجہ دہل جاتا ہے۔ جو تشدد، بربریت، قیدیوں کو انسانی موتر پینے کو دیا جاتا ہو، نہ جانے کونسا ظلم ہے جو اس عقوبتوں میں روا نہیں رکھا جاتا ہے اور یہ سب کچھ تصور کریں عافیہ صدیقی کے ساتھ بھی ہوتا رہا۔
تو معذرت کے ساتھ صد معذرت کے ساتھ یہ جو لوگ آج اپنے حق میں اپنی محبت زبردستی جہمور کے دلوں میں ڈالنے کے لیے سپانسرڈ ریلیاں نکلوا رہے ہیں۔ اور یہ کہلوا رہے ہیں کہ فوج ہماری ریڈ لائن ہے تو سنیں یہ ہماری ریڈ لائن نہیں ہے۔ ہماری ریڈ لائن پاکستان ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ طارق بلوچ کہتے ہیں کہ ظلم کے خلاف خاموشی اختیار کرنا ظلم کے ساتھ ہونے کے مترادف ہے اور خدا کو خاموشی کے مجرم اچھے نہیں لگتے اور بدلے میں وہ ان کو بے حس بنا دیتا ہے۔
اور یہ یاد رکھیں بے حس کی کوئی زندگی نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی عزت، بے حس نہ مردہ ہوتا ہے اور نہ زندوں میں شمار ہوتا ہے۔ عارفہ سیدہ الزہرہ کچھ اسی طرز پہ رقم طراز ہے کہ خوف جبر کا ماخذ ہوتا ہے اور جبر سب خاموش کر دیتی ہے۔ اور یہ آج جو زبردستی کے محب وطن اور باباے وطن بنے پھر رہے ہیں ان کو تب یہ حب الوطنی کا دورہ کیوں نہیں پڑا تھا جب یہ ظلم انکے لیڈروں نے روا رکھا تھا عافیہ صدیقی اور ملا ضعیف جیسے لوگوں کے ساتھ، اور اسکے علاوہ اور کتنے پاکستانی اس جہنم کا ایندھن بن چکے ہیں۔
اور یہ تاریخ کا ایسا بدنما صفحہ جس میں اس پہ جلی حروف سے درج ہے کہ جتنا نقصان اس ملک خداد کو اس ریڈلائن سے پہنچا ہے شائد ہی اتنا نقصان کسی اور نے پہنچایا ہو۔ سکندر مرزا سے 1956 میں شروع ہونے والا یہ سلسلہ مشرف کے اعلانیہ مارشل لا پہ ختم ہوا مگر یہ لوگ اور اس ادارے کے ایلیٹ آج بھی غیر اعلانیہ مارشل لاء ہر دور حکومت میں رکھتے ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم کہ جہمور کے اس نام نہاد ریڈلائن میں اور کتنے فراعین پیدا ہونگے لیکن اب تک دورانیہ میں اگر دیکھا جائے تو باجوہ ظلم اور بربریت میں کسی قسم مشرف سے پیچھے نہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا آرمی کا ہاتھی زندہ لاکھ ہوتا ہے اور مردہ سوا لاکھ کا۔
اسی کسم پرسی کی حالت میں ملک خداد کے اس فراعین نے وطن عزیز کو گوانتاموبیستان بنایا ہوا ہے۔ اور یہ سب اپنے ذاتی مفاد اور اتنے عرصے سے جو اپنی دھاک بنائے رکھے ہوئے تھے در پردہ اب اس پردے کو بحال کرنے اور دھاک کو پھر سے اپنے پیروں پہ کھڑا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ جس طرح بگرام بیس اور گوانتامو بے کے عقوبت خانوں کا ذکر ملا ضعیف جیسے خوش قسمت لوگ جو اپنی زندگی میں پورے حواس کے ساتھ وہاں سے رہا ہوئے کے زبانی کلامی معلوم ہوا کہ گوانتامو بے کس جہنم کا نام ہے ایسے ہی مستقبل میں تاریخ دان کے قلم سے آنے والی نسلوں کو معلوم ہوگا کیسے اور کس نے اک آزاد خداداد ملک کو گوانتامو بے ستان بنائے رکھا تھا۔
جہاں ہر انسان کی بنیادی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی صلب ہو چکی تھی، کیسے ٹی وی چینلز تک اپنے بلڈنگز میں پابند سلاسل ہوئے تھے اور اک مخصوص سکرپٹ کے ساتھ پی ڈی ایم جیسی شیطانی ٹولے اور جبری جہموری ریڈلائن کے گن گاتے تھے۔ اور تاریخ میں اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں بھرتے گا کہ 9 مئی سے لے کر آگے جو کچھ ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا یہ پلان کس نے اور کیسے کیا تھا؟ اس ملک خداداد کو گوانتاموبیستان بنانے والا اک کلیدی کردار کی جو عزت افزائی پچھلے دنوں فرانس کی گلیوں میں ہوئی وہ ہر زخمی پاکستانی دل پہ مرحم رکھنے کے مترادف تھا۔
اور صرف یہ نہیں ماضی میں ایسا ہی اک کردار افتخار چوہدری ہوا کرتا تھا جو اپنے عہدے، اختیار اور طاقت کو آئینی اور غیر آئینی طور پہ استعمال کیا کرتا تھا جسکی خاطر مدارت پھر انگلینڈ میں ہوئی تھی۔ جو لوگ اس ملک خداداد کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں ان کی خاطر مدارت کے لیے بیرون ملک پاکستان اک بہترین تخفہ ہوتے ہیں۔ کائرہ کا حال ناروے میں دیکھیں اور نواز شریف کی توقیر پذیری جو لندن میں ہو رہی ہے وہ پوری دنیا کو معلوم ہے۔
ہر وہ شخص جو پاکستان ہے کسی ادارے کی سربراہ کی کرسی پہ رہتا ہے یا خود پاکستان کی سربراہی کے عہدے پہ فائز ہوتا ہے وہ طاقت کے نشے میں ڈوب جاتا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ وہ تاحیات اسی طاقت کے ساتھ اسی پوزیشن پہ رہے گا۔ اور وہ تکبر اور طاقت کا نشہ ان کی وہ جگ ہسائی کا سبب بن جاتا ہے کہ وہ کہیں منہ چھپانے کے قابل نہیں رہتے۔ پاکستان کے جبری ریڈلائن بنے ہوئے ادارے کے سربراہ کی اک فون کال کی داستان یاد آ گئی جو اپنی توسیع مدت ملازمت کے وقت اک صحافی کو کی تھی۔
اس صحافی کے بقول کہ وہ کال انتہائی تکبر پہ مبنی تھی۔ کہتا ہے کہ وہ سربراہ مجھے فون پہ کہتا ہے کہ یہ جو تم لوگ بشمول تمہارے ٹٰی وی چینل جو میری توسیع مدت ملازمت کی مخالفت میں لگے ہو یہ آپ لوگوں کو بہت مہنگا پڑے گا۔ میرے پاس طاقت ہے اور میں ہمیشہ رہوں گا یا مدت ملازمت میں توسیع کر یا پھر مارشل لاء لگوا دونگا۔ اور تم لوگوں کو میں عبرت کا نشان بنوا دونگا۔ اور آج کون عبرت کا نشان بنا اسکی اک جھلک ساری دنیا نے فرانس کی گلیوں میں ملاحظہ فرمائی۔
اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، یاد رکھیں 9 مئی کو یہ لوگ جن کی قبر کھود رہے تھے یہ سارے اسی قبر میں خود ہی جا دفن ہونگے، اور اسکے ہلکے ہلکے اثرات نمودار ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔ اور یہ ظلم، خوف اور جبر کی فضا اپنا وجود زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکتی۔ یہ جو مافیہ، کرپٹ، چور اور ڈکیت ہیں وہ دراصل ریاست وطن اور اسٹیبلشمنٹ کے غدار ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب عوام اس گوانتامو بے ستان سے رہائی کے لیے اس کے فصیلیں پھلانکیں گے اور اپنے بنیادی حقوق واپس لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونگے۔
ایسے طریقوں سے آنے والے انقلابات اپنے ساتھ بہت ساری کلیاں روند دیے جاتے ہیں۔ یاد رکھیں اک عمومی قانون ہے جب بھی کوئی حادثہ کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے، اس کے بعد جو سب سے پہلے اور زیادہ شور مچانا شروع کرتا ہے اور الزام تراشی کرنا شروع کرتا ہے تو سمجھ جاؤ کہ وہ شخص بذات خود اس سانحہ یا واقعہ کے وقوع کرانے میں شامل ہے۔
اب اس اصول کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سانحہ 9 مئی ہو یا پچھلے دنوں کوئٹہ میں قتل کیے جانے والے وکیل کا سانحہ ہو یا اس جیسا کوئی بھی سانحہ ہو تو اس میں سب سے زیادہ چیخنا اور چلانا اور الزام تراشی کس نے شروع کی تھی؟ اس سے ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے کہ یہ واقعات کو کروانے والے کون تھے اور اس کے نتیجہ میں اس ملک خداداد کو گوانتامو بے ستان بنانے والے کون ہیں۔
اللہ اس وطن عزیز کو ان دشمنوں سے محفوظ فرمائے۔
پاکستان زندہ باد۔