Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Faqat Taleem e Niswan Se Hai Wajood e Kainat Mein Bhang

Faqat Taleem e Niswan Se Hai Wajood e Kainat Mein Bhang

فقط تعلیم نسواں سے ہے وجود کائنات میں بھنگ

ماں جی بیمار رہتی تھی ہسپتال کے چکر ڈاکٹروں کی ملاقاتیں اور وارڈز کی اذیت ناک راتیں، ایسے میں اپنوں ہی کے لب بام رہتے تھے ہزار شکوے،سمجھ میں نہ آئے ماں جی پہ توجہ دیں، علاج کے اخراجات پر یا جنتے منہ اتنی باتوں پر، نانو آگئی بولی بیٹا یہ بھی کوئی طریقہ ہے بھلا جوان بہن کے ہوتے ہوئے بھی دور کے رشتے دار مری بیٹی اور تمہارے ماں کی دیکھ بھال کے لیے حاضر خدمت رہتے ہیں بھلا اتنا پڑھا لکھا کر کرنا کیا ہے آخر تم لوگوں نے اسے؟ ماں ادھر بیمار اور بیٹی ادھر ہاسٹل میں پڑھائی کی شب راتوں میں برسربیکار، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی، بات میں وزن تو تھا اور فہم بھی، لگی دل پہ تو ضرور!!! یوں سوچوں میں خیالوں میں ماں جی کی ٹھنڈی چھاوں کی خوابوں میں گم سم بیٹھا بھولی بسری باتیں بھی یاد آتی رہیں اور سوچ کے پہلوانوں سے اس بات پہ گتم گتھا رہا کہ کروں تو کیا؟ حیرانی اس وقت منتہائے کمال پہ پہنچی جب وہی نانو پھر اپنے ہی بیٹے یعنی مرے ماموں کے لیے رشتہ ڈھونڈنے نکلی تو گاوں کے سکولوں کا طواف کرنے لگی کہ کہیں گاوں کے معیار کے موافقت پہ سطحی ہی سہی پر پڑھی لکھی بہو ڈھونڈ رہی تھی۔ تب نانو کی اپنی سوچ غفلت کے قبرستان میں دفن ہوچکا تھا کہ بھلا پڑھی لکھی بہو کو بیاہ کر کے کرے گی کیا؟ بقول اسی کے ہی بہنیں بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں اور آگے گھر بار اور نسل کو سنبھالنا ہوتا ہے، لیکن جب اپنے گھر آنگن میں گاوں کی پڑھی لکھی بہو سے بیلنے کی لگن میں نکلی تو پھر مری بہن کا پڑھنے میں اعتراض کی کونسی اور کیسی تک بن رہی تھی جو انہیں کانٹا بن کے چبھ رہا تھا آخر ہم نے بھی تعلیم نسواں کا حق ادا کرناہے کیونکہ تعلیم نسواں سے ہی آتی ہے معاشرے کے رنگ،مرا ذاتی خیال بھی یہی ہے اور عصر حاضر کے ادراہ برائے نسوانی امور کے علمبرداروں کا موقف بھی کہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں پڑھی لکھی ہوں، سیانے کہندے اے مائیں بہنیں پڑھی لکھی ہونگی تو انہی کے کوکھ کے کیاریوں میں نئی کلیوں پھوٹنا ہے اور انہی کے ہاتھوں سے سج دھج کے پروان چڑھنا ہے۔مگر مگر مگر، ہماری یہ فہم اور علمبرداران ادارہ برائے نسوانی امور کی دانش گلی کے پرلے نکڑ پر سن ہوکے ساکت مجسمہ بن کر رہ جاتا ہے جب معاشرے میں موجود پڑھی لکھی نسوانیت کا حالت زار امور خانہ داری میں اپنے کردار کے جوہر دکھانا شروع کردیتی ہے۔ کیونکہ ہم تعلیم نسواں کی اصطلاح کا ڈھول پیٹا جاتا تو ہے پر معلوم نہیں کہ تعلیم نسواں ہے کیا؟ وہاں ہمارا طوطا گونگا بن جاتا ہے۔

پڑھنے لکھنے سے مراد فقط اسکو عصری تعلیم کے معراج پہ پہنچا کے دنیاداری کے داو پیچ کی سمجھ بوجھ دلا کر تعلیم نسواں کا حق پورا نہیں ہوتا بلکہ تلف ہوجاتا ہے اور آج اسی پڑھی لکھی وجود زن سے ہے (معذرت کے ساتھ) تصویر کائنات میں زنگ۔۔

کیونکہ ماوں کی تمنائیں نیک عصری تعلیم کی ڈگریوں سے نہیں دینی تعلیم کے زیور سے بنتی و آراستہ ہوتی ہیں اور تبھی ان نیک تمناوں کی کوکھ سے جنید بغدادی اور بسطام کے بایزید پیدا ہوتے ہیں،جبکہ عصری تعلیم سے آراستہ پڑھی لکھی نسوانیتِ ایم بی بی ایس، چارٹرڈ اکاونٹنٹ، انجینر اور نہ جانے کیا کچھ سے دنیا کے عظیم مادہ پرست ہی فقط پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ حضرت عثمان بن علی الہجویر المعروف داتا گنج بخش علیہ الرحمہ کے بقول "برتن سے نکلتا وہی ہے جو اسمیں ڈالا گیا ہو(مفہوم) اور اسی لیے وہی اولاد پھر انہی عصری نظام کے پڑھئ لکھی ماں کے پیچھے ایصال ثواب کی خاطر پوچھنے پہ مجبور محض ہوتے ہیں کہ جناب اپنے لاء کی ساری کتابیں پڑھ کر ماں کے ایصال کے لیے بخش سکتاہوں اور کیا ایسی ایصال انکے روح کے کسی کام آسکتی بھی ہیں؟

ہم سب کو سکول کے عہد سے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اک حدیث پاک یاد رہ گئی "تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور مسلمان عورت پہ فرض ہے۔"

اسکے سننے کہ دیر تھی فتوی جیب میں لے کر تعلیم کے حصول کے لیے میراتھن دوڑ لگانی شروع ہوگئی۔ اک ایسی دوڑ جس میں سمت کی پہچان اور نہ منزل کی بس اندھا دھند بھاگتے جا رہے ہیں اور لاگ الانپتے جا رہے ہیں تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پہ فرض ہے۔ مگر وضاحت کی زحمت کوئی نہیں کر رہا کہ علم کےحصو ل سے مراد حدیث مبارک ھذا میں کیا ہے؟ لیکن شریعت اسلام عصری تعلیم کے حصول سے منع بھی نہیں فرما رہی، بلکہ عہد حاضرمیں موجود سائنسی تحقیقات اور طبعی میدان کے ستوں مسلم سائنسدانوں کے ہی تعمیر شدہ ہیں۔ لیکن وہ اپنی ذات میں صرف عصری تعلیم کے استا د نہیں تھے بلکہ وہ دینی و فقہی علوم کے بھی اپنے آپ میں پوری پوری یونیورسٹیاں تھیں، وہ اک مکمل و باعمل مسلمان تھے۔

اس سوال پہ بہت سے مباحثوں نے جنم لیا ہوگا اور شائد آج بھی کسی نہ کسی محفل میں لب بام تقریر ہو رہی ہوگی۔ میری رائے کیا ہے وہ نیچے چند پوائینٹس کی صورت میں آپکے سامنے رکھتا ہوں وہی سے مری رائے بھی معلوم ہوجائے گی اور تعلیم نسواں کی شائد اصل روح بھی۔

الف) ہمارے ہاں حدیث پاک کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات باور کرائی جا رہی ہے کہ تعلیم کے حصول سے مراد عصری تعلیم ہے۔ جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کیوں؟

موت کےبعد سوال وجواب ہم سے زندگی کیسے اور کس عقیدے پہ اپنے 24 گھنٹے (شب و روز) گزارے کے ضمن میں استفسار کیے جائیں گے۔ یاد رکھیں شب و روز دینی تعلیم کے آگاہی سے ہی بامعنی اور مفید گزرتے ہیں نہ کہ عصر ی تعلیم یافتہ انجینئرنگ یا ایم بی بی ایس یا ایم بی اے کی ڈگری کے حصول سے۔ عصری تعلیم کے حصول سے دنیا میں معاش کے حلال روزی کمانے کے ذرائعوں کی پہچان تو ہو جاتی ہے مگرحلال روزی کی فکر و فہم کا ادراک دینی تعلیم سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ تو علم، دینی علم کا حصول فرض ہے۔

ب) اللہ نے ہمیں اپنا نائب بنا کر زمیں پہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ بندگی اللہ وحدہ لاشریک کی کل سالم سمع و اطاعت کا نام ہے۔ بندگی کی پہچان اور حقیقت دینی تعلیم کے حصول سے عیاں ہوتی ہے عصری تعلیم سے نہیں۔ ورنہ سقراط، افلاطون، نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے عظیم عصری تعلیم کے بلند و بالا اہرام نے عصری تعلیم کی بنیاد رکھنے کے باوجود بھی سمع واطاعت سے محروم رہے اور دوسری طرف رابعہ بصری علیہ الرحمہ جیسی شخصیت عصری تعلیم سے نابلد دینی علم کے حصول و فہم سے قرب الہی پاگئی۔ کیونکہ سمع واطاعت (بندگی خداوند) کی پہچان عصری تعلیم سے نہیں دینی توحید کے علم و فہم سے میسر آتی ہے۔

د) علامہ صاحب کے اک شعر کے پہلے مصرعے کے بقول،عشق سکھاتا ہے آدابِ خود اگاہی

عصری تعلیم کے چھت تلے مخلوط مدارس میں رہ کر عشق لیلی ومجنوں حاصل تو ہو جاتا ہے پر اقبال کا عشق نہیں۔ اقبال کا عشق جو اویس قرنی علیہ الرحمہ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جیسی گوہر نایاب صورت میں ابھرتی ہے وہ دینی علم وفہم سے حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ فقط عصری تعلیم کے حصول سے مرا جسم مری مرضی جیسی قبیح تحریکیں اور کردار جنم لیتے ہیں۔۔ اسی لیے علم دینی علم کا حصول فرض ہے نہ کہ عصری علم۔ لیکن اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ اسلام عصری تعلیم کی نفی کرتا ہے۔ نہیں۔ بلکہ اللہ تبارک وتعالی نے تو دعا بھی سکھائی تو اس ترتیب سے کہ

ربنا آتنا فی الدنیا حسنتہ و فی الاخرة حسنہ۔

کہ جس میں پہلے دنیا کو خوبصورت بنانے کی دعا کی تعلیم فرمائی ہے۔ یعنی اللہ تبارک وتعالی ہمیں یہ درس فررہاہے کہ اس دنیا میں جہاں تمہیں بھیجا ہے اسکو جنت نظیر بنانے کی خود سعی بھی کرتے رہنا ہے اور اللہ جل شانہ کے حضور دعا بھی کرنی ہے۔ لیکن دنیا کا حسن عصری تعلیم کی فقط اہرام کھڑے کرنے سے ممکن نہیں بلکہ دینی علوم کی بنیاد سے ہی ہماری یہ دعا شرمندہ تعبیر ہوگی اور توشہ آخرت بھی بنے گی۔

میں اپنے اساتذہ کے پڑھائے گئے درس کی روشنی میں خلاصہ کلام یہ رکھتا ہوں کہ جید علمآء عصری تعلیم کے حصول کی تاکید و تلقین فرماتے ہیں مگر ایسے نہیں کہ شب و روز خون پسینہ عصر کے فکر میں گزرتے رہیں اور دین کو فقط نماز کی حد تک سطحی انداز میں معین کر دیا جائے۔ اور دروازے کے باہر بل بورڈ لگادیں " علم حاصل کرنا ہر مرد مسلمان مرد و عورت پہ فرض ہے۔"

یاد رکھیں!!! دینی تعلیم (لازمی) کے شانہ بشانہ ہی عصری تعلیم (اختیاری) سے تعلیم نسواں کا حق پورا ہوگ اور اسی جوڑ سے ہی پڑھی لکھی عورت اور اسکے کوکھ کے کیاری میں پھوٹنے والی کلیوں سے ہی بہترین معاشرے جنم لیں گے اور اپنی خوشبووں سے ساری فضاء کو معطر کیے رکھیں گے۔۔۔ اور یہی عورت اقبال کے شعر کے بقول۔۔۔

"وجود زن سے ہے تصویر کائنات کے رنگ" کے مصداق وجود زن کہلائے کی مستحق ہوگی اور کائنات کے تصویر میں رنگ بھرتی رہے گی۔۔۔

فقط عصری تعلیم کی بونچال سے معاشروں میں وجود زن سے رنگ پیدا نہیں ہوتے بلکہ "تعلیم نسواں سے ہے تصویر کائناتمیں بھنگ" پیدا ہوگی اور ایسے معاشرے ہمیشہ کھوکھلے رہتے ہیں۔ جس کا عصر حاضر میں مسلمان قوم بدترین خمیازہ بھگت رہی ہیں۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra