Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salman Aslam
  4. Deen Se Doori

Deen Se Doori

دین سے دوری

حسب معمول آج بھی مرے آفس میں ویکنڈ کا دوسرا دن چل رہا ہے اور آفس میں سٹاف نہیں ہے۔ میں ویکنڈ کے دنوں میں چھٹی نہیں لیتااس میں میں اپنے آفس میں بیٹھ کر اپنی پڑھائی کی کمی پورا کرنے کی سعی میں لگا رہتا ہوں۔ آج ناشتے سے فارغ ہو کر آفس میں پڑھائی کے لیے بیٹھااور موبائل میں اپنے استاد کا لیکچر یوٹیوب سے ڈاونلوڈ کرنے لگا تو نظر کے سامنے اک ویڈیو آئی جو پاکستانی پرائیویٹ چینل اے پلس کی تھی۔ اک عورت کا نام لکھا تھا اس ویڈیو پہ آگے جملہ لکھا تھا " فلاں عورت کے ساتھ گھر کے باورچی کی جنسی زیادتی۔" ویڈیو کو پلے کیا اک پکے عمر کی عورت جو بڑھاپے کی دہلیز کے قریب تر تھی اپنے ماضی میں ہونے والے زیادتی کے بارےمیں پوری تفصیل سے کہانی سنا رہی تھی اور سٹوڈیو میں ناظرین میں زیادہ تعداد عورتوں کی تھی جو بیٹھی اس کو سن رہی تھی۔ اور یہ دونوں عورتیں اس بارے میں بات کر رہے تھے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی اس نے ہمت دکھا ئی ماں کو بتایا۔۔۔ پولیس نے گرفتار کیا اس شخص کو۔۔۔۔۔ بعد میں اس عورت کی شادی ہوئی جو چند اک سال چلی اور پھر ناکام ہوئی۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

پھر اینکر صاحبہ جو خود طلاق یافتہ ہو کر دوسرا شوہر کر چکی ہے اور اپنے اس طلاق یافتہ شوہر کو اپنے پروگرام میں ویلنٹائن ڈے پہ بلا رکھا تھا اور موصوفہ عشق و معشوقیت کا جائزہ روشن خیالی کے دئیے کی روشنی میں دیکھنا اور دکھانا چاہتی تھی۔ الحفیظ الامان۔۔۔۔ ایسے معاشرے میں پھر اخلاقی قدر سے گری ہوئی ہر گناہ اور خرابی نہ پیدا ہوگی تو کیا ہوگا؟ اب یہ موصوفہ اینکر صاحبہ دھڑام سے دشنام طرازی سے بھی گرے ہوئے الفاظ اور باتوں کا ذکر وہ لائیو شو میں بیان کر رہی تھی۔ یقینا یہ اک انتہائی غلیظ اور کربناک حرکت ہوچکی ہے واقعی زیادتی سے بھی بڑھ کر ہے مگر معاشرے میں یہ فضا کیونکر پیدا ہوئی وجہ کیا چیز بنی؟ کیا ہم میں بشمول میرے روشن خیالی اور پازٹیوٹی کے نامی گرامی ٹائیکونز نے کبھی اس بات پہ سر تک کجھایا ہے؟ سوچا ہے کہ معاشرے میں یہ لت کیسے اور کہاں سے پروان چڑھ آئی؟

اور اس سے بھی اہم سوال جو اس عورت نے اپنے اس حادثے کو سناتے ہوئے کہی وہ یہ کہ اسکے والدین نے اسکو گھر میں چھوڑا تھا اور خود کہیں گئے تھے اور گھر میں باقی کزنز وغیرہ بھی اتنے بڑے نہیں تھے جو ہر بات کو ہر معاملے کی نزاکت کو سمجھتے اور پھر یہ عورت اپنے بہن بھائیوں میں خود بڑھی بھی تھی۔ تو اسکےوالدین دو ہفتوں بعد گھر آئے اور ساری روداد انہی دو ہفتوں میں پیش آئی۔ کیونکر پیش نہیں آتی جب ہم خود ہی بلی کو دودھ کی رکھوالی پہ رکھیں گے تو دودھ کو ہڑپ کر پی جانے میں غلطی بلی کی نہیں اسکی ہے جس نے بلی کو دودھ کی رکھوالی پہ بٹھا رکھا ہوتا ہے اسلیے تو کہتا ہوں دین کے پاس بھی ہم نہیں گزرے تبھی یہ حالت ہے ہماری۔

اب چند اک سوالات اس عورت اور اسکے والدین اور اینکر صاحبہ جیسے روشن خیالوں کے سامنے رکھتا ہوں۔۔۔ ذرا ایمانداری سے اس پہ دل سے سوچیں۔۔۔۔۔ اور جواب خود کو دیں۔۔

1) اس لڑکی کو والدین نے جس باورچی کے رحم وکرم پہ چھوڑا تھا کیا وہ اس گھر کا محرم تھا؟ اور اسی طرح ہم سب کے گھر میں کوئی سا بھی ملازم یا ملازمہ محرم ہوتی ہیں؟

2) والدین کا کام بچوں کی پرورش، تربیت اور تحفظ کہیں بڑھ کر تھا؟

3) کیا آج ہمارے گھروں میں ہم خود اپنے بچوں کے دوست بن کر معاشرے کی تمام تر غیر اخلاقی بیماریوں اور اس سے بچنے کے متعلق تعلیم دیتے ہیں؟

4) کیا ہم بچوں کو دین کی تعلیم اور خود ان کے سامنے اس پہ عمل پیرا ہو کر رول ماڈل بن کے سامنے آتے ہیں؟

5) کیا ہم اپنی ٹی وی پروگرام پہ طلاق اور جنسی زیادتی کی ہر نازیبا حرکتوں کے بارے میں سر عام واویلا نہیں مچاتے۔ جس سے ان کو بھی پتہ چل جاتا ہے جن کے کان سے ابھی تک ایسے الفاظ ٹکرائے ہی نہیں ہوتے۔ اور تحقیق بتاتی ہے انسان کی فطرت میں تجسس ہے۔ ہر وہ نئی چیز جس کے بارے میں سن لے اسکی کسی نہ کسی حد تک پریکٹس ضرور کرتا ہے۔ اس کہانی کو یا اس طرح اور کئی داستانوں کو یہ سرعام گوش گزار کرنے سے سننے والی سماعتوں کو عملی طور پر کسی نہ کسی حد تک خودسے ٹرائی کرنے کا تجسس اورجذبات کا اندھا ہیجان پیدا نہیں ہوگا؟

6) کیا ہم بچپن سے بچوں کے کپڑوں پہ ان کے عادات پہ ان کے صحبت لی رکھوالی کرتے ہیں؟ آج ہم بچپن سے ہی بچوں کے ساتھ خود گانے، فلمیں اور آدھی ادھوری لباس پہنا کے اپنے روشن خیالی کے ثبوت نہیں دیتے؟

7) کیا فنکشنز پہ ہندو اور غیر مہذب لوگوں کی دیکھا دیکھی کو اپنے بچوں کے سامنے خود پریکٹس نہیں کرتے؟

جب ہم سب یہ ساری چیزیں خود بچوں کے سامنے کرتے ہیں، اور نامحرم ڈرائیورز اور باورچیوں کو گھر پہ رکھوالی کے لیے رکھیں گے تو پھر توان بھی تو ادا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اللہ نے قرآن میں واضح طور پر متنبہ کیا ہے کہ " انہ لکم عدو مبین " بے شک شیطان اپ کا کھلا دشمن ہے۔

اللہ نے قرآن میں پارہ چار کے آخری رکوع میں تو محرمات کا بھی تعین فرما دیا ہے۔ تو کیا ہم اب بھی نصیحت نہیں سیکھ رہے ہیں؟ اور پھر اک اور بات کو دیکھیں بقول اینکر صاحبہ کے کہ ہم عورتیں بازار میں آزادنہ گھوم نہیں سکتے ادھر ادھر جا نہیں سکتے ورنہ کوئی ادھر سے ہاتھ لگا کے گزر جاتا ہے کوئی ادھر سے کندھا مار کر چلا جاتا ہے۔ تو اب عقل کے ناخن لیں کہ اگر دین اسلام کا مطالعہ کرتے تو کبھی بازار جانے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ لیکن نہیں دین تو بس پنج وقت نماز، روزہ، زکواة اور حج کا نام ہے اس سے ماسوا زبردستی اور دقیانوسی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اسلام میں زبردستی ہے ہی نہیں۔

یاد رکھیں اسلام میں کسی بھی عورت کا محرم کے بغیر گھر سے بغیر شرعی غزر کے باہر نکالنا منع ہے۔ اور اسی طرح بات کرنا بھی۔ اب اگر کوئی روشن خیالی کا مظاہرہ کرتا ہے اور باہر نکلتا ہے یا نامحرموں سے بات کرتا ہے تو وہ شریعت محمدی سے بغاوت کرتا ہے اور بغاوت کی سزا عالم محشر میں بھی ملتی ہے اور یہاں کندھے ہاتھ اور ایسی جنسی زیادتیاں پھر بگھتنا پڑے گی۔

لیکن اس کے ساتھ مرد حضرات کو بھی کوئی کھلی چھٹی نہیں ملی۔ کہ بھوکے کتوں کی طرح ہر قصائی کی دوکان پہ سونگ مارتے پھریں۔ اگر اللہ نے قرآن سورہ النور میں عورت کو شرمگاہ کی حفاظت کا حکم فرمایا ہے تو اس سے پہلے مرد حضرات کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اور اگر زیادہ خواہش نفس سر پہ چڑھی ہو تو نکاح کا خوبصورت تحفہ اللہ نے بنایا ہے جسمیں قرآن کو شاہد بنا کر فرمایا۔ نکاح کرو پاک دامن بی بیوں سے اور انکا مہر ادا کرو۔۔۔۔۔ اک اور جگہ پھر فرمایا یہ عورتیں (آپکی بیوی) آپکی کھتیاں ہیں جہاں سے چاہو گھسو۔ مگر فطرت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر بیویوں کے پاس جاو جہاں سے اللہ نے تمہارے لیے اولاد کی بڑھوتری کا پاک سلسلہ رکھا ہے۔۔۔ (مفہوم)

یاد رکھیں اللہ جل شانہ و اعلی نے قرآن میں متنبہ کیا ہے۔" تم میں سے جو جو عمل کرے گا اسکی سزا ضرور پائے گا۔" اور دوسری جگہ فرمایا " مجرموں سے ہم خوب نپٹنے والے ہیں۔" تو یہ نہ سوچیں کہ آج کسی بچی کی عزت لوٹی تو کل کو اسکا ادائیگی بھی اسی ہی صورت میں کرنی پڑے گی۔ اور قیامت کے دن دردناک عزاب الگ سے بھگتنا پڑے گا۔

دین سے ہماری یہ دوری ہی ہمارے زوال کا سبب ہے۔ اور اسی لیے ہم ادھوری زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ جو بظاہر کامیاب اور بڑی بڑی گاڑیوں اور بنگلوں میں رہنے والے ہیں یہ کامیاب نہیں انتہائی ناکام لوگ ہیں اپنی زندگی کے اور دین میں بھی مار کھائی ہوئی ہے۔ کامیاب وہی ہے جو قیامت کے دن کامیاب ہو جائے اور اسی کو قرآن "فوز عظیم" کہتا ہے۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra