Circusistan
سرکستان
پاکستان میں موجود سیاسی فضا اور اس میں رہنے والے سرکسی جوکرز کو دیکھتا ہوں تو ذہن اک ماووفیت کی حالت میں جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پہلے تو میں سوچتا تھا کہ ہماری ایلیٹ کلاس صرف غلام ابن غلام ہے لیکن میں اپنے فکر میں درست نہیں تھا یہ لوگ صرف غلام ابن غلام نہیں بلکہ ڈاکو ابن ڈاکو، کرپٹ ابن کرپٹ، بدکردار ابن بدکردار، نشئی ابن نشئی اور نہ جانے اور کیا ابن کیا ہیں۔
خلیفہ اول جناب ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے وہ وقت یاد آیا جب ان کا اک کپڑے کا چھوٹا سا کاروبار ہوا کرتا تھا۔ جس کو خلافت پہ معمور ہونے کے بعد بند کر دیا کہ کہیں اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کوتاہی کا شکارنہ ہو جاوں اورنہ اپنے کاروبار کو فائدہ پہنچانےکا وسوسہ کسی رعایہ کے دل میں پیدا ہوجائے۔ (مفہوم) یہ ہوتی ہے ذمہ داری سے ایمانداری، رعایہ اور خلافتی املاک سے محبت، یہ ہوتی ہے اسلامی جمہوری سوچ اور حب ملت۔ زندہ باد و مردہ باد نہ تو کسی قسم کی محبت کے دعوی دار ہو سکتے ہیں نہ یہ کوئی معیار ہے، لیکن سرکس میں ہر وہ چیز بکتی ہے جو فہم کو خیرہ کرتی ہے۔
یہ وہ حکمت اور دانشمندی تھی جس نے اک اصول متعین کر دیا کہ خلافت کے عظیم منصب، یعنی خلیفہ کے منصب پر ایسے شخص کو متعین نہ کیا جائے جو بیوپار ہو کیونکہ وہ خلافتی امور میں راعیت کے فائدے کا نہیں بلکہ اک بیوپاری کے حیثیت سے اپنے کاروبار کو نفع پہنچانے کی سعی کرنے میں لگ سکتا ہے۔ ورنہ اصحاب کے کردار کی گواہی تو خود کملی والے کے توسط سے رب کریم نے اپنے کلام میں دی "رضی اللہ عہنم و رضو عنہ"۔
جبکہ مجبوری جہموریہ پاکستان میں وہ وہ کارنامے سرانجام ہوتے ہیں، ایسے ایسے انہونیاں ہوتی ہیں، ایسے ایسے نمونے، خاندانی چور بیوپا اقتدار کے مساند پہ قابض رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اور یہاں یہ نہ چاہتے ہوءے بھی اک تقابل کرتا چلوں کہ 75 سالوں اس مجبوریہ پاکستان پہ جو جو بھی حکمران رہا ہے وہ یا تو بیورپار تھا اور بن کر نکلا ہے و ہ چاہے شریف خاندان کے بیوپار ہوں، بھٹو خاندان کے چور لٹیرے ہوں جو کہ مزے کی بات کہ ڈاکو بھی حکمرانی کا مزہ لے چکے ہیں۔
یہ سارے کیا تھے اور کیا بن کر نکلے یہ وہ انہونیاں جو آج تک افریقہ کے انتہایی پسماندہ ملک میں بھی نہیں ہوا ہوگا الا ماءشاءاللہ۔ زرا سوچیں تو سہی آج ہمارے ہاں اک خاندان جو کہ انگریز دور سے بیوپار بھی ہیں اور حکومتی ایوانوں پہ قابض بھی۔ آج تک اک بھی کام ملک و قوم کے فقط فائدے کے لیے نہیں کیا۔ ہر وہ کام جس کو عوام کی خدمت سے بڑے بے شرمی کے ساتھ عوام کی خدمت سے منسوب کرتے آرہے ہیں۔ اس میں بھی ان کے کاروبار کو دن دوگنی رات چوگنی فائدہ ملتا رہا ہے۔ مگر ان پڑھ، گوار، غلام سوچ رکھنے والی عوام، جو کہ مری طرح وقتی فراعین کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے سے خوفزدہ ہوے چپ سادھ لیے بیٹھے ہیں اور بعض جاہل تو آج بھی میاں صاحب کے نعرے وچن دے، پاکستان کھپے و اک زرداری سب پہ باری، یا نام نہاد فضلو کا نامیاتی پارٹی کا مدرساتی و مفاداتی نعرے کا ورد کرتے نظر آرہے ہیں۔
سب سے زیادہ تعجب اور حیران کر دینے والی نمونہ، بدتمیز، بے ایمان، بے شرم، کرپٹ انسان کے بدزبان، بد لحاظ بیٹی مریم پر ہوا جو کہ اپنے جلسوں میں بدزبانی کرتے ہوئے تھکتی نہیں (جو کہ اس کو ورثے میں ملی ہے) اور میں پی ٹی آئی پہ ان کے لگائے گئے سارے الزامات سے متفق بھی ہوں کہ ہاں خان ہر جتھے کا سربراہ تھا، ہر حملہ باقاعدہ پلان کیا گیا تھا، دہشت گردی کروائی گئی، تخریب پھیلائی گئی۔ 200 کے قریب کیسز کردیے مگر ثابت اک بھی نہ کرسکے۔ جبکہ پی ڈی ایم سرکار نے ازخود نون لیگ کی سربراہی میں بندروں کی پشت پناہی کی اور انہی پی ڈی ایم لیڈروں نے ماچس بھی ان کے ہاتھوں میں تھما دیے تھے۔
ذرا تسلسل دیکھیں ان سارے واقعات اور دہشت گردی کے لوکیشن پوائنٹس کے میں ان پہ بار ہا بات کر چکا ہوں اور لکھا بھی۔ زرا سوچیں تو سہی، سارے حملوں میں فوجی تنصیبات کو ہی ٹارگٹ کیا گیا، کیوں؟ پاکستان کا ہر بچہ جانتا ہے کہ مریم کے پاپا چوروں کا سردار، غداروں کا امیر جو انڈیا تک سے معاہدے کرتا رہا۔ وہ سن 80 کے دہائی سے فوج کا دشمن ہے اور اس دشمنی میں یہ اپنی حکومت 3 بار پورا کیے بغیر ہی گنوا چکا ہے۔
تو جی ایچ کیو پہ حملہ، کور کمانڈر کے گھر پہ حملہ ن لیگیوں نے فوج کے ہاتھوں 3 بار اپنی حکومت گنوانے کے انتقام میں کراوئے۔ کرنل شیر خان شہید کے پتلے کی بے حرمتی یہ نون لیگیوں کا ہی وطیرہ ہے کیونکہ کرنل شیرخان نے شہادت کارگل کےمحاذ پہ نوش فرمائی تھی اور کارگل وہ وار ہے جسکی مخالفت نواز کرتا تھا اور واچپائی سے چپکے چپکے مذاکرات کرتاتھا۔ جس کی پاداش میں، جنرل مشرف نے اسکی حکومت کی ایسی کی تیسی پھیر دی تھی۔ اور ایم ایم عالم کے جہاز کے پتلے کو جلانا اب کس کا وطیرہ ہوسکتا ہے؟ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ کسی کو سمجھ نہ آئے کہ ملک دشمن اور فوج دشمن کون ہے؟ وہ کسی نے درست کہا تھا کہ اللہ کبھی گنجے کو ناخن نہ دے۔
میں 9 اور 10 مئی کے واقعات کے بعد بھی یہی سوچتا رہا کہ انکے ذہن سے یہ خمار اتر جائے گا۔ اور یہ عمران خان کو سپورٹ نہ صحیح مگر عدالتی فیصلوں کے زریعے ملک کی بگڑی ہوئی حالت میں اپنا کلیدی کردار اداکر دینگے جو کہ دراصل ان کا کام دنیاپوری میں کہی نہیں ہوتا مگر بدقسمتی سے اس ملک ناپرسان میں پاکستان بنام مجبورستان کے اصل مالک ہی تو یہ ہیں۔ اور سرکس میں جیسے پہلے ہی کہا میں نے کہ بکتی وہ چیز ہے جو فہم کو خیرہ کردے، تبھی اس ننگے حمامستان میں دلاور جیسے زانی شخص کو منصف کے مسند پہ بٹھا کر اس کی طہاریت کو پلید کردیا اور ایسے لوگوں سے پھر انصاف کے فیصلے انصاف ازخود صادر ہونا گوارا نہیں کرتی۔
کیا آ پ لوگوں کی نظروں سے نہیں گزرا کہ نون لیگیوں اور پی ڈی ایم کی پلانٹڈ بندے آرمی جوانوں کی گاڑیوں پہ بھی بے دھاوا بولنے آرہے تھے تو یہی معصوم عوام آپکے گاڑیوں کے آگے ڈھال بن گئے اور کہنے لگے یہ ہمارا فخر ہے؟ ان کو ہاتھ بھی نہیں لگا نا کیا آپ آرمی نے وہ نہیں دیکھے؟ سوچیں ان جتھوں کو بس پورے راستوں میں صرف تنصیبات ہی ملی تھی؟ اور یہ جس نے بھی کیا ہے ان کو خمینی کی طرح سرعام پھانسی لگا دیں لیکن پورے انصاف کے ساتھ اور پراپر ٹرائل کے بعد، ورنہ ظلم اندھا ضرور ہوتا ہے مگر بے آواز نہیں۔
خان بھی انسان ہے اور غلطی کا مرتکب ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے لیکن محبت رسول کا مقدمہ بڑے بڑے علماء و زعماء نہ لڑسکے دنیائے عالم کے سامنے، جس محبت و عقیدت سے وہ لڑا ہے، اور مرے لیے خان سے محبت کے لیے یہ ایک معیار باقی تمام معیاروں، نعروں اور املاکوں سے ہزار درجہ بھاری اور عزیز تر ہے۔ خدارا اس ملک کو ملک خداد بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں نہ کہ سرکستان بنانے میں، اور یا پھر اسکا کم ازکم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بجائے، اعلامی جہموری سرکستان رکھ دیں کیونکہ یہی کچھ تو اس وطن عزیز کے ساتھ پچھلے 75 سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔ جس میں صرف بندر ناچ کا ہی چورن ہی صدیوں سے بکتا آرہا ہے لیکن نہ بندر پورا ناچا اور سرکس کبھی ختم ہوا۔