Arab Sarzameen Jism Faroshi Ki Jannat
عرب سرزمین جسم فروشی کی جنت
اس کوہمارے ڈیوٹی روٹ پہ آئے ہوئے تین دن ہوئے تھے، کہ اک جگہ اک عربی لوکل نے بیچ راستے میں اپنی گاڑی روکی اور اپنی فیملی کو گاڑی سے اتارنا شروع کیا اور پیچھے اسکے گاڑیاں یونہی کھڑی رہی۔ عربیوں کی فطرت میں عجلت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ اگر یہی کام کسی اور غیر عربی نے کیا ہوتا اور پیچھے اسکے کسی عربی کی گاڑی ہوتی تو وہ اپنی فطرت کے مطابق اکڑ دکھانی شروع کرتا اور ہارن پہ ہارن بجانا شروع کردیتا جو اکثر عربیوں کا وطیرہ ہے۔
اس وقت میرے منہ سے یہی الفاظ سے نکلے کہ یہ کام اب اگر کسی اور نے کیا ہوتا اور پیچھے اسی طرح کسی عربی کی گاڑی ہوتی تو وہ ہارن بجانے پہ قیامت برپا کردیتا۔ یہ عربی مرے نزدیک بنی اسرائیل سے بھی بدتر ہیں۔ تو ہمارا وہ ڈرایؤر دوست اس پہ بول پڑا کہ نہیں جی قوم تو یہ بڑی زبردست قوم ہے بس اچھے برے ہر قوم میں ہوتے ہیں۔ میں اس ڈرائیور دوست کے بات سے اتفاق کرتا ہوں مگر مرے نزدیک یہ فقرہ مکمل نہیں ہے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہر قوم میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں مگر عربی بلاشبہ اک اچھی قوم تھی اب نہیں ہے۔ اب بلاشبہ ان سے بدترین قوم کوئی دوسری نہیں۔
ان کے اندر وہ بدوی پن اب بھی موجود ہے، وہی کینہ پروری، وہی اکڑ مزاجی اور گزرتے وقت اور بہترین معاشی حالات نے ان کے اندر اک اور قیبح بیماری پیدا کردی ہے اور وہ ہے ظلم و تکبر۔ ان کا اگر پالا کسی غیر عربی ایشائی باشندے سے پڑ جائے تو یہ ان کے ساتھ نہایت اکڑ مزاجی، بدتمیزی اور تکبرانہ انداز میں پیش آتے ہیں اور ان کی پولیس جن کے چرچے ہر جگہ پائے جاتے ہیں مگر ان کی بھی اگر اصلیت کھوجی جائے تومجھے یقین ہے یہ، کھودا پہاڑ نکلا چوہا، کے مصدا ق نکلیں گے۔ کیونکہ ان کی پولیس کے پاس جب بھی کوئی ایسا معاملہ پیش کیا جاتا ہے جس میں غیر عربی ایشائی باشندہ اور لوکل عربی فریقین ہوں تو ان کی پولیس کی تقریبا کوشش یہی ہوتی ہے کہ ترجیح اور فوقیت اپنے لوکل عربی کو ہی دی جائے استثنیات ہر جگہ موجود رہتی ہیں۔
اگر اگرکسی غیر عربی ایشیائی باشندے اور پورپی یا امریکین باشندے کا معاملہ پولیس کے پاس چلا جاتاہے تو پھر تو واضحتا ترجیح یورپی یا امریکین کو دی جاتی ہے۔ یہ باتیں میں اپنی جیب سے لکھ رہا ہوں اور نہ ہی ہوا میں تیر مار رہا ہوں۔ ان میں سے کچھ باتیں میرے ذاتی تجربات پہ منحصر ہیں اور کچھ باتیں ایسے لوگوں سے خود سنی ہیں جن کے ساتھ خود یہ سب کچھ پیش آیا۔
یاد رکھیں عرب کا یہ خط وہ علاقہ رہا ہے جہاں پہ انسان زندگی کو بندگی اور راست بازی پہ سدھانے کے لیے اللہ کریم جل شانہ نے بے شمار انبیاء کا نزول فرمایا۔ یہ سرزمین اگر کہا جائے کہ ازل سے ہی توحید کے پیغام کا علمبردار رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ خطہ انبیاء کا مسکن رہا ہے۔ یہ خطہ اپنے ہر دور اور اس پہ رہنے والے لوگ اپنے وقت میں افضل ترین رہے ہیں۔ کیونکہ اس خطے کے خمیر میں رب کائنات نے توحید کے مبلغین کو مبعوث فرمانا لکھا تھا اس کے ہی کوکھ سے دین محمد ﷺ کا آغاز کرنا تھا اور رسالت کا سلسلہ خاتم النبین پہ اختتام فرمانا تھا۔ مگر بدقسمتی سے اس زمین پہ ہر نئے دور میں زیادہ تر برے لوگوں کا غلبہ رہا لیکن بیچ میں کچھ نئے مبلغ نئے پیغمبر کے بعثت کے بعد نیک لوگو ں کے ٹولے بننا شروع ہو جاتے تھے مگر بالآخر نیک لوگوں کو اپنے آبائی علاقہ کو چھوڑنا بھی پڑا۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کسی بھی قوم نے جو عرب سرزمین کا باشندہ رہا ہو اپنی سرزمین کو نہیں چھوڑا اسی خط عرب میں اک کونے سے دوسرے کونے میں چلے جاتے تھے مگر رہتے اپنے سرزمین پہ ہی تھے۔
اس سرزمین کے قسمت میں جہاں انسانی نوع میں سے بہترین پاکیزہ لوگوں کے روپ میں نگینے سجے ہوئے ہیں وہاں کچھ گندی سیپیاں اس سرزمین کے ماتھے پہ کالک کے ٹیکے جیسے بدنما داغ بھی بنا چکے ہیں اور بنا رہے ہیں۔ دنیا کی آج تک کی معلوم تاریخ کے مطابق کوئی بھی قوم دین کے منکر ہونے کی صورت میں تباہ نہیں ہوئی بلکہ دوچیزوں کی وجہ سے قوموں کو اللہ جل شانہ نے ذلیل کروایا ہے اک جو عدل کو چھوڑکر کبر کو اپنا لیتے ہیں اور دوسرا جو فحاشی کو اوڑنا پچھونا بنا لیتے ہیں۔ اس صورت میں قوم لوط کی مثال ہمارے سامنے ہیں، بنی اسرائیل کی مثال موجود ہے، فرانس کے مضافات میں آباد پومپئی شہر منہ بولتا ثبو ت ہے۔ ایسے کئی اور قصے و داستانیں تاریخ کے اوراق میں موجود ہونگے۔ لیکن ہم ہیں کہ ہم پھر بھی سیکھتے ہی نہیں عبرت حاصل نہیں کرتے۔
ہم خود کو دائمی زندہ رہنے کا تصور کہیں لاشعو ر میں بسائے ہوے ہیں۔ ہم نے اس دنیا اور اس دنیا کے مادی خوبصورتی کے سحر میں ایسے سرگرداں رہنا شروع کیا ہوا ہے کہ ہم اپنی موت کو جیسے یکسر بھول ہی چکے ہیں۔ اس لیے پھر اپنی اس فنا ہونے والی دنیا کی زیبائش و آرائش اور اسکے پر سکون بنانے کے لیے ہر جائز نا جائز کام کو اپنانے لگ پڑے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ محبت کے اس سحر میں اس قدر اندھے ہو گئے ہیں کہ غلط اور صحیح، حرا م و حلال کی تمیز بھول گئے ہیں۔ کیونکہ نافرمانی کے اک مقام پہ پہنچ کر رب کائنات ہمارے دلوں پہ مہر ثبت کر دیتا ہے جس کے بعد کسی قسم کے غلط و صحیح کام کا شعور ختم ہو جا تاہے۔ یہی بڑی غلطی ہمارے تمام اعمال کو ضائع کروا دیتی ہے۔
حال ہی میں دنیاوی لذت، شان و شوکت، مادیت پرستی، اور دولت کے نشے میں عرب سرزمین پہ رہنے والے بدو بھی اپنی اصلیت کو کہیں دور چھوڑ کر بھول آئیں ہیں۔ یہ اس عارضی دنیا کے اس عارضی شان و شوکت اور فنا ہونے والی دولت کے ریل پیل میں ایسے اندھے بنے ہوئے ہیں کہ اپنے سرزمین کی اہمیت، اپنے قومیت کے ماخذ کو یکسر بھول چکے ہیں۔ اور سرزمین عرب جو کبھی توحید کے تبلیغ کا بنیادی مرکز ہوا کرتا تھا۔ جو انبیاء کرام کا مسکن رہا ہے، جہاں سے بت پرستی کو تاحیات ختم کرکے باہر نکال پھینکا تھا۔ جہاں پہ مدینہ جیسی ریاست طیبہ مطہرہ کا وجود نے جنم لیا تھا۔ آج اسی سرزمین طیب پہ ہر وہ برائی، ہر وہ شرک ہر وہ گناہ پہلے سے بھی زیادہ آب و تاب سے موجود ہے جس کو انبیاء کرامؑ کی بڑی تعدا د میں بعثت رب جل شانہ نے فرمائی تھی۔ مگر عہد حاضر میں فحاشی کی دنیا میں تو عرب کی سرزمین جسم فروشی کی جنت ہے۔
اک وہ وقت بھی تھا جب شراب کی حرمت ابھی کھل کر نہیں آئی تھی تو ہر گھر کا دسترخوان شراب سے سجا ہوتاتھا، لیکن پھر سرزمین عرب کے ہر گلی نے وہ دن و ہ وقت اور وہ لمحات بھی دیکھے جب شراب کی کھل کر حرمت نازل ہوئی تو ہر طرف گلی نالوں میں شراب بہہ رہی تھی۔ اور اک وقت آج کا ہے کہ جس میں سرزمین عرب پہ بیشتر علاقوں میں شراب نوشی ہوتی ہے۔ بلکہ متحدہ عرب امارا ت کی اک سٹیٹ ایسی بھی ہے جس کی آمدنی کا بڑاذریعہ اسی مے کشی سے ہی آتی ہے۔ دوبئی کی بات کی جائے دنیا کی ہر فحاشی اور ہر بڑے سے بڑا اور برے سے برے گناہ اور گناہگار اسی دوبئی میں تھوک کے حساب سے ملتے ہیں۔
وہ رسی جو اللہ جل شانہ نے ڈھیلی چھوڑی ہوئی تھی اس کے واپس کھینچنے کا وقت آن پہنچا ہے کیونکہ رسالت مآب ﷺ کے قیامت کے بابت پیشنگوئیوں کے مطابق عرب اور عرب سرزمین پہ ان میں کئی پیشنگوئیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔ جیسے کہ بھیڑبکریاں چرانے والے ننگے پاوں اور ننگے بدن ہونگے اور اک دوسرے سے مقابلہ میں لمبی لمبی عمارتیں بنوائیں گے اور اس پہ فخر کرینگے آج دیکھ لیں عرب سرزمین پہ اور بالخصوص عرب امارات میں لمبی لمبی عمارتوں کا اک ہجوم بنا ہوا ہے اور سعودی عرب بھی اس دوڑ میں شامل ہو رہا ہے۔ اسی طرح جس بت پرستی اور کفر کو نکال باہر پھینکا تھا آج اسی کفر اور بت پرستی کو ازسر نو اس سرزمین پہ آباد کردیا ہے۔
عرب امارات میں مندر کی باقاعدہ منطوری اور شیخوں کا ہندوں کے بت کے پوجا پاٹ کی تقریب میں باقاعدہ شمولیت، چرچوں کا قیام اور اب اک سیناگوگ رہ گیا تھا وہ بھی آچکے ہیں۔ اس طرح ان کی بے حیائی کا یہ عالم ہے کہ مرد گھروں سے باہر اپنی نوکرانیوں اور دیگر عورتوں کے ساتھ باقاعدہ جسمانی تعلقات رکھتے ہیں اور یہی نہیں ان کی عورتیں گھروں میں اپنے ڈرائیوروں کے ساتھ جسمانی تعلقات اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں کے لیے باقاعدہ جسم فروشی کے اڈے بنائے ہوئے ہیں۔
شراب اور جسم فروشی اس سرزمین سے پینے کے پانی سے سستا اور بآسانی دستیاب۔ 7 درہم کی شراب کی بوتل اور 02 درہم پہ جسم فروشی کی دستیابی اس معاشرے کے اپنے زوال کی طرف سرکش گھوڑے کی مانند سرپٹ دوڑنا شروع کرچکا ہے۔ اشفاق صاحب فرمایا کرتے تھے کہ دنیا اندھا دھند ترقی کی اوور دوڑ رہا ہے، سب کو یوں لگ رہا ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں آگے بڑھ رہے جب کہ دراصل ہم سب اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اللہ امت مسلمہ پہ رحم فرمائے اور بالخصوس قوم عرب کو ہدایت کا راستہ دکھا دے۔