Ye Jo Log Babe Dhoondte Hain
یہ جو لوگ بابے ڈھونڈتے ہیں
2018 میں محترم جاوید چوہدری کے ایک مضمون "دس روحانی ٹپس" کے جواب میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون سے چیدہ چیدہ اقتباسات۔۔
مجھے 27 سال کی عمر میں ایک کامل سے پالا پڑا اور اس نے پہلے تین مہینوں میں مجھے تین باتیں نصیحت کیں اور آج بھی ان سے متعلق پوچھا جاتا ہے گذشتہ 22 سالوں میں دوبارہ کہیں جانے کا سوچ میں آیا ہی نہیں۔۔
مَن ندانم او چہ افسُوں می کُند
رُوح را دَر تَن دِگرگُوں می کُند
میں نہیں جانتا کہ وہ کیا اَفسُوں کرتا ہے بَس جِسم کے اَندر رُوح کو بدل دیتا ہے۔
پہلی بات انہوں نے فرمائی
بیٹا! اللہ والے کو کوئی نہی پکڑ اور ڈھونڈ سکتا۔۔ البتہ اللہ کے حکم سے اللہ والا جس کو چاہے پکڑ (ڈھونڈ) لیتا ہے۔۔ کیونکہ بیٹا اللہ قرآن میں فرماتا ہے جس کو چاہتا ہوں ھدائت دیتا ہوں۔۔ بندے کو قراں اور حدیث کے مطابق جستجو کرنی ہے۔۔ اور یہ جستجو مرشد دھونڈنے کی نہی اللہ اور اس کے حبیب کو اپنی بہترین کوشش اور طاقت سے راضی کرنے کی۔ جب سجن راضی ہو جاتے ہیں تو دنیا میں اپنے بندے کے لئے استاد مقرر کر دیتے ہیں۔۔ جو اس کو راہ راست پر رفعت عطا کرتا ہے۔۔ اور بیٹا جانتے ہو اس راہ میں زادہ راہ (راستے میں کام آنے والا سامان) کیا ہے۔۔
ماں باپ کی خوشنودی۔۔ گھر والوں، بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کے حقوق اور چونکہ یہ گھر سے نکلنے کا عمل ہے تو، بچے! یہ آپ کے اردگرد لوگوں اور اور رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے۔۔ یہ سب آپ کو ایک اچھےاور پرسکون سفر اور اچھی سواری (اللہ کابندہ) تک پہنچاتےہیں۔۔
جب مجھے ان سے محبت ہونا شروع ہوئی تو میرا بڑا دل کرتا کہ ان کے ہاتھ اور پاوں چوموں تو وہ مجھے دیکھ کر اپنے پاؤں التھی پالتھی مار کر بیٹھ جاتے اور میں مایوس ہو جاتا تو ایک دن انہوں نے مجھے دوسری بات بتائی کہ۔۔
بیٹا! مردود ہے وہ اولاد جس کے ماں باپ گھر میں زندہ ہوں اور وہ ان کو ناراض کرکے باہر بابوں کے پیر چومنے کی جستجو کرے۔۔ بیٹا۔۔ اللہ نے پیارے قران میں ماں باپ کو " اف" کہنے سے بھی منع کیا ہے جبکہ ان کے علاوہ کسی استاد کے لئے یہ نہی کہا۔۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بندہ ماں باپ پر تو غصہ ہو ان سے بےادبی کرے وہ محبت اور خدمت کو ترس رہے ہوں۔۔ اور کوئی واقعی اللہ والا اس بندے کو اپنی خدمت کے لئے چن لے۔۔ وہ اللہ والا ہو ہی نہی سکتا جو اللہ کے قانون کے خلاف چلے۔۔
بیٹا! حضرت اویس قرنی کو صحابہ کا درجہ صرف ماں کی خدمت کیوجہ سے ملا ہے کیونکہ وہ حضور ﷺ کی خدمت میں ان کی ظاہری حیات میں صرف اس لئے حاضر نہی ہو سکے کہ ان کی والدہ بوڑھی تھیں اور ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہی تھا۔۔ آقا ﷺ نے اپنا جبہ مبارک حضرت عمر اور حضرت علی (رض) کے ہاتھ ان تک پہنچانے کی وصیت فرمائی۔۔ یہ اس کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص ماں باپ کی خدمت میں لگا ہو تو اللہ پاک اپنے پیاروں کو تحفے کے ساتھ آپ کے گھر بھیجتا ہے۔۔ اور پھر مجھے تب تک اپنے ہاتھ چومنے کا موقع نہی دیا جب تک میری ماں حیات رہیں۔ اور میرے لئے یہ ہی حکم رہا کہ بدبخت ہے وہ شخص جس کے ماں باپ گھر میں ہوں اور وہ ان کو دکھی کرکے باہر دعائیں دینے والا اور گناہ بخشوانے والے ڈھونڈ رہا ہو۔۔
تیسری بات جو مجھے تعلیم کی گئی وہ یہ ہے کہ جو تمہیں دکھ دے اس کو معاف کر دو۔۔ میں نے کہا کہ یہ مشکل کام ہے تو انہوں نے کہا بیٹا پھر یہاں آنا جانا کم کردو۔۔ جو میرے بس میں نہی تھا۔ تو کہنے لگے بیٹا۔۔ جب مشکل ہو معاف کرنے میں تو ان کا سوچا کرو جنہوں نے زندگی میں تم پر احسان کئے ہیں۔۔ تب معاف کرنا آسان ہوتا جائے گا۔۔ اور آج 22 سال بعد بھی مجھے یہی کہتے ہیں بیٹا رات کو سوتے ہوئے ان سب کو معاف کرکے سویا کرو۔۔ جنہوں نے دن بھر میں تمہیں تکلیف دی ہو۔۔
بیٹا یہ اس کا کفارہ ہے جو تم کر بیٹھے ہو جانتے نا جانتے تم دن میں جن سے زیادتی کرتے ہو اور اپنی سوچ میں تم سمجھتے ہو تم نے اگلے کو سبق سکھایا۔۔ میرے بچے۔۔ جب تم لوگوں کو اوپر کے دل سے معاف کرتے ہو نا تو مالک کی رحمت جوش مارتی ہے کہ یہ ان کو معاف کر رہا ہے جو اس کو تکلیف دیتے ہیں۔۔ میں اس کا وکیل بن کر اس کا مداوا کرتا ہوں جو اس سے غلط ہوگیا ہے۔۔ دراصل جب تم رات کو یہ کہتے ہو کہ اللہ میں نے فلاں کو معاف کیا تو عرش پر یہ ایسے گونجتا ہے کہ مالک جن کا دل میں نے دکھایا تو نے مجھے معاف کیا۔۔
بیٹا! جس طرح مردے اور اپنے پیاروں کے لئے ایصال ثواب کرتے ہو اسی طرح سے اس بد بخت کے لئے بھی دعا کر دیا کرو۔۔ جس کو شیطان نے تمہیں تلکیف دینے کے لئے چن لیا ہے۔۔ وہ اور مردہ دونوں ایک برابر احسان کے حقدار ہیں۔۔
کامل مُرشد ایسا ہووے جیہڑا دھوبی وانگوں چَھٹے ہُو
نال نِگاہ دے پاک کَریندا سجی صابون نہ گَھتّے ہُو
مَیلیاں نُوں کَر دیوے چِٹا ذرہ مَیل نہ رَکھے ہُو
مُرشد ہووے باہُو جیہڑا لُوں لُوں دے وِچ وَسّے ہُو
بابے ڈھونڈے نہی جاتے۔۔ بابے اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے والوں کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔ بڑا بدبخت ہے وہ شخص جو اس راستے کی دھول مٹی اپنے سر میں ڈال رہا ہے۔۔ جبکہ اس کے گھر میں سے یہ راستہ نکلتا ہے۔ شاید ماں باپ، بیوی بچوں کی خدمت سے۔ جس طرح جنت کی دو نہریں عرش کے نیچے سے نکلتی ہیں جو پوری جنت کو سیراب کرتی ہیں۔۔