Ye Andaz e Musalmani Hai (1)
یہ اندازِ مسلمانی ہے (1)
آج کل مجھے ایک حکومتی پروگرام میں بہت عرصے کے بعد ملازمت کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس ادارے میں آنے کے بعد مجھے ہماری بحثیت قوم زوال کے اسباب آسانی سے سمجھ آنے لگے ہیں۔ ہر ملازم جس سے میرا واسطہ پڑھ رہا ہے وہ میرے بازو مروڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سوائے چند ایک کے ہر کولیگ اس کوشش میں ہے کہ نہ خود آسانی سے رہے اور نہ مجھے آسانی سے رہنے دے۔ چہرے بگاڑنا، اگنور کرنا، سیدھے کام میں رکاوٹ ڈالنا، اختیارات پر غلامانہ قبضہ۔ اور سب سے بڑھ کر سرخ فیتہ یعنی بیوروکریسی اور حکومت بلوچستان کا فنڈز کے معاملات میں رکاوٹ ڈالنے پر مجھے دفتر میں مکھیاں مارنے کے علاوہ ایک پرانے واقعے کی بھی یاد دلاتا ہے۔
سال 2012 میں IUCN نے world conversation conference کا انعقاد ساوتھ کورین شہر jeju جیجو میں کیا۔ جیجو ساوتھ کوریا کا ایک جزیرے پر آباد شہر ہے۔ قدرتی حسن سے مالامال اور اس کے ساتھ ساتھ IUCN نے اس میں نیچر کو محفوظ کرنے اور ECO سسٹم کو بچانے کے لئے بے مثال کوششیں کی ہوئی ہیں۔ بہت پر امن اور پر سکون جدت سے مزین شہر ہے۔ کشادہ سڑکیں، خوبصورت بازار، سیاحوں کا رش۔ پیدل چلنا محبوب مشغلہ۔ مجھے بھی جب کانفرنس سے بوریت ہو جاتی تو میں بس میں بیٹھ کر شہر کے کسی بھی چوک پر اتر جاتا۔ جیب میں ہوٹل کا کارڈ ضرور رکھتا کہ وہاں انگریزی نہ ہونے کے برابر ہے۔ نوجوان جوڑوں میں مغربیت اور سڑکوں پر ان کی محبت بھری گہری کیمسٹری دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ ساوتھ کورین پاکستانیوں کو بہت محبت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حتی کہ جب وزیر اعظم سے ملاقات تھی تو وہ بھی بہت پرتپاک ملے۔ جیجو جانے اور آنے کا راستہ صرف سمندر ہی ہے یا ہوائی جہاز۔
کانفرنس میں دنیا بھر سے مندوبین شامل تھے۔ مجھے بھی بلوچستان سے اس بڑی اور پر مغز تقریب میں شامل ہونے کا موقع ملا اور 15 دن وہاں قیام رہا۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ لیکن جو کچھ مجھے جیجو شہر اور کوریا کے عظیم شہر سیول میں سیکھنے کو ملا۔ اس کو میں کیا نام دوں اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
شائد کانفرنس کا 12 واں یا 13واں دن ہو گا کہ جیجو شہر میں سمندری طوفان کی خبر پھیل گئی۔ اور یہ اطلاع بھی دی گئی کہ سمندر ی اور ہوائی راستے بند ہو جائیں گے اور طوفان چونکہ شدید ہے تو کچھ دن سب کچھ نارمل ہونے میں لگ سکتے ہیں۔ لہذا مندوبین کی صوابدید پر یہ چھوڑا گیا کہ اگر انہیں فلائیٹ ملے تو سیول چلے جائیں۔ وہاں قیام بھی ممکن تھا اور فلائٹس ملنا بھی آسان تھا۔ میں چونکہ سیول کو دیکھنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا تو میں نے اس جزیرہ سے نکلنے کا عہد کر لیا۔ اور کانفرنس کے مقام سے مفت بس سروس شہر اور ہوٹل تک چل رہا تھیں تو میں اپنے ساتھیوں کو جو خود بھی پریشان ہو رہے تھے خدا حافظ کر کے سیدھا ایئرپورٹ آ گیا۔ ائیر پورٹ پر شدید رش اور افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ آنے والے سیاحوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں کیونکہ فلائٹس کم اور اچانک عوام کا جیجو سے انخلا کا بوجھ بہت زیادہ تھا۔ حالانکہ مجھے کوئی جلدی نہیں تھی اور اگر میں رہ بھی جاتا تو کورین حکومت کی زمہ داری ہوتی کہ ہمیں متبادل ٹکٹس فراہم کرتے۔ مگر میں سیول جیسے عظیم اور جدید شہر کو دیکھنے سے محروم رہتا۔ لہذا میں نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد پاکستانی فطرت اداکاری کا مظاہرہ کیا اور گھبراہٹ طاری کر کے بے چینی سے ٹکٹ کی لائین میں لگ گیا۔
جب میری باری آئی تو میں گھبراہٹ طاری کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہاں سے فوری نکالیں۔ میں panic ہو رہا ہوں۔ تو اس کاونٹر پر بیٹھے لڑکا مجھ سے بھی زیادہ گھبرا گیا۔ کہ مجھے اسے کہنا پڑا کہ آپ اطمنان سے میرے لئے سیٹ ڈھونڈیں۔ اس کا پیلا چہرہ میری تکلیف کا سن کر سفید ہو گیا۔ اور اس نے جلدی سے اپنے کمپیوٹر پر ہاتھ مارنے شروع کر دئے۔ پھر مجھے دیکھتا اور کہتا کہ آپ نوجوان ہیں خوفزدہ نہ ہوں۔ میں آپ کے لئے خلوص نیت سے کوشش کرتا ہوں۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا کہ اگر میں آپ کو آج شام 6 بجے کی ٹکٹ دوں تو آپ پریشان تو نہیں ہوں کے دو گھنٹے آپ کو مزید انتظار کرنا ہو گا۔ میں خوش ہوا تو اسے بھی سکون ملا۔ اور اس نے کہا آپ کا سامان کہاں ہے۔ میں نے بتایا ہوٹل میں ہے۔ اور ہوٹل یہاں سے جانا اور آنا زیادہ سے زیادہ آدھ گھنٹے کا وقت لے گا۔ وہ کچھ سوچ میں پڑھ گیا۔ لیکن میں نے پھر اداکاری کا سہارا لیا تو اس نے ایک کاغذ پر اپنا نام لکھ کر مجھے دیا اور میرا نام بھی نوٹ کر لیا۔ اور مجھے کہا آپ کی ٹکٹ میں نے کنفرم کر دی ہے ضرور جانا۔ میں اثبات میں سر ہلا کر دروازے کی طرف دوڑا۔
جب میں ہوٹل آیا تو چیک آوٹ سے پہلے سوچا کہ نامعلوم اتنے شدید رش اور لوڈ میں مجھے یاد بھی رکھے یا نہیں ایسا نہ ہو کہ ہوٹل سے بھی جاوں۔ اور پھر چیک ان کے لئے پیسے بھی اپنے خرچ کرنا پڑیں۔ خیر سوچا رسک لینے میں کیا مضائقہ ہے۔ خیر میں اپنی روایتی پاکستانی اداکاری سے ٹیکسی ہوٹل والوں کو متاثر کرتے ہوئے آدھ گھنٹے میں واپس آئیں پورٹ پر پہنچ گیا۔ اسی کاونٹر پر گیا تو وہاں ایک طویل لائین لگی تھی۔ میں گھبراہٹ طاری کرتے ہوئے لائین کی پرواہ کئے بغیر اس کے پاس پہنچ گیا اور اس کی پرچی اس کے سامنے کر دی۔ اس نے پرچی دیکھی اور مجھے سر اٹھا کر دیکھا۔ یوں خوش ہوا جیسے میں اس کا اسی طوفان میں بچھڑا بھائی واپس ملا ہوں۔ اس نے اٹھ کر اپنے روایتی انداز میں اپنے ہم وطنوں سے کچھ کہا۔ سب نے میرے لئے کاونٹر خالی کر دیا۔ اور میں فرنٹ پر آگیا۔ میں جب پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں نے ان سے گزارش کی ہے کہ یہ ہمارا مہمان ہے۔ اور پریشان بھی ہے تو انہوں نے اس تکلیف دہ حالات میں بھی مجھے اہمیت دی۔
اس لڑکے نے جب کمپیوٹر پر دیکھا تو کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ اور مجھے دیکھ کر پھر سے کمپیوٹر میں مصروف ہو گیا۔ اور نفی میں سر ہلایا میں سمجھ گیا کہ اس نے ٹکٹ کسی اپنے چہیتے کو دے دی ہے۔ اور اب اس کے ڈرامےکرنے کی باری ہے۔ اس نے مجھے کہا مسٹر خان!! آپ کی پرواز ابھی سے دو کی بجائے تین گھنٹے لیٹ ہو چکی ہے۔ ٹکٹ کنفرم ہے۔ لیکن اگر آپ چاہیں تو ایک فلائیٹ کے دروازے بند ہونے میں 20 منٹ ہیں اور اس سے ایک مسافر ڈراپ ہوا ہے۔ میں آپ کو اس میں سوار کیا سکتا ہوں۔ مجھے شدید حیرت بھی ہوئی اورمیری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ حیرت اس کا میرے لئے اتنی کوشش کرنا اور خوشی یہ کہ فورا جا رہا ہوں تو انجوائے کروں گا۔ میں نے ہاں کر دی۔ اس نے میری ٹکٹ نکالنے سے پہلے وائرلس کی اور میرا بورڈنگ پاس نکال کر مجھے کہا میرے ساتھ آئیں۔ پھر مسکرایا کہ مسٹر خان آپ کو بھاگنا ہو گا۔ اور خود بھی دوڑ پڑا۔ مین بھی بھاگا اس نے مجھے بورڈنگ کے دروازے پر چھوڑا۔ ابھی میں شکریہ کی تمہید باندھ رہا تھا کہ وہ واپس بھاگ گیا۔ اور مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔
مجھے سورہ دہر کی وہ آیت یاد آگئی اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّـٰهِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّلَا شُكُـوْرًا
ترجمہ: ہم جو تمہیں کھلاتے ہیں تو خاص اللہ کے لیے، نہ ہمیں تم سے بدلہ لینا مقصود ہے اور نہ شکرگزاری۔
اور یہ لڑکا جو کہ شائد مذہب بےزار ہو مگر اپنے ملک کے نام وناموس اور اپنی مہمان نوازی کی صفت سے مجبور نہ میرا شکریہ سننا چاہتا ہے اور نہ ہی اپنی مٹھی گرم کرنا چاہتا تھا۔