Tamseel
تَمْثِیل
حضرت انس بن مالکؓ، جو رسول اللہ ﷺ کے خادمِ خاص تھے، بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ سفر میں تھے۔ آپ کے ساتھ کچھ مرد اور خواتین بھی تھیں۔ خواتین میں ازواج مطہرات کے علاوہ حضرت انس کی والدہ ام سُلیم بھی تھیں۔ اُس زمانے میں قافلوں کے ساتھ حُدی خواں بھی ہوتے تھے۔ حُدی نغمہ کو کہتے ہیں۔ حُدی خواں ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو بہت سُریلی آواز میں نغمے پڑھتے تھے، جنھیں سن کر اونٹ اور اونٹنیاں مست ہوجاتی تھیں اور اپنی رفتار تیز کردیتی تھیں۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ اُس قافلے میں مردوں کے ساتھ حدی خوانی حضرت براء بن مالکؓ کر رہے تھے اور عورتوں کے ساتھ ایک حبشی لڑکا تھا، جس کا نام انجشہ تھا۔ اُس کی آواز بہت سُریلی تھی۔ اُس نے حدی پڑھنی شروع کی تو اونٹنیوں پر اس کا غیر معمولی اثر ہوا۔ انھوں نے اپنی رفتار تیز کردی، یہاں تک کہ وہ ان اونٹنیوں سے آگے نکل گئیں جن پر مرد سوار تھے۔ یہ دیکھ کر اللہ کے رسول ﷺ ہنس پڑے۔ آپ نے حُدی خوان لڑکے کو مخاطب کرکے فرمایا:
يَا أَنُجَشَةُ، رُوَيُدَكَ بِالُقَوَارِيرِ" (بخاری: 6161)
" اے انجشہ! دھیرے، یہ آبگینے ہیں"۔
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: "رُوَيُدَكَ يَا أَنُجَشَةُ، لَا تَكُسِرِ الُقَوَارِيرَ" (بخاری: 6211)
"انجشہ! دھیرے چلو، ورنہ آبگینے ٹوٹ جائیں گے"۔ " اے انجشہ! دھیرے، یہ آبگینے ہیں"۔
قَؔوَارِیۡرَا۠ سے مراد ایسے شیشے کے برتن، گلاس goblet glass، بوتل ہے۔ جو اس قدر نفیس ہوں کے انہیں کسی مخصوص مقام پر نہایت قرینے سے سجایا جائے۔ قران مجید کی سورہ الدہر کی آیت 16 میں جنت میں موجود چاندی کے اتنے نفیس پیمانوں (goblet) کا ذکر ہے کہ وہ شیشے کی طرح باریک ہو جائیں۔ اسی طرح نفیس شیشے سے بنے محل کا ذکر بھی قرآن میں ملتا ہے۔ جو اس قدر نفیس ہو کہ اس سے اندر اور باہر دیکھا جا سکے۔
قواریر دراصل ٹھنڈ سے بھی ماخوذ ہے جس سے قرۃ العین یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک مراد ہے۔ اب قواریر سے مراد شیشے کے ایسے برتن جن کو دیکھ کر آنکھوں کو قرار آجائے۔ جس کا جام بھرا ہو تو آنکھوں کو سکون ملے۔ یا ایسا شیشے کا سامان جسے دیکھ کر آنکھیں خوش ہوں۔ جسے سنبھال اور سجا کر رکھا جائے۔ جیسے ڈرائنگ روم میں کرسٹل اور شیشے کا سامان رکھا جائے اور آپ اسے دیکھ کر قرار محسوس کریں۔ یا کسی عورت کا شو کیس جس میں اس نے بہت محنت سے شیشے کے برتن رکھے ہوں اور انہیں دیکھ کر سکون حاصل کرے۔
مندرجہ بالا حدیث پاک سے دو مفہوم اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ پہلی بات کہ عرب شیشے کے ان باریک کام والے برتنوں، گھروں، محل خصوصی طور پر شراب کے گلاس جنہیں goblet کہا جاتا ہے۔ سے بخوبی واقف تھے۔ اسی لئے انہیں قرآن میں ایسے شیشے کے برتنوں اور محلوں کا ذکر کرکے مثال دی گئی۔ بلکہ ایک حبشی غلام تک جانتا تھا کہ اگر ایسا نازک سامان جو کہ شیشہ کا ہو اونٹ پر لدا ہو تو کیسے چلنا ہے۔ اس لئے اسے بغیر تمہید نبی کریمﷺ نے قواریر کہہ کر سمجھایا۔ یعنی عرب اور ان کے غلام نفیس ترین شیشے کے کام سے واقف تھے بلکہ عرب میں ان کا استعمال بھی تھا۔ لہذا عرب اس دور میں ریشم جو کہ نایاب اور شاہی پوشاک تھی کا استعمال بخوبی کرتے، سونا پہنتے، بہترین خوشبو لگاتے اور ان کی محفلوں میں شیشے کے جام چلتے اور ان کے گھروں میں شیشے کا کام ہوتا اور یہ صنعت حضرت سلیمانؑ کے دور سے عالمی طور پر موجود تھی۔ یہ بات عرب کے تاجروں اور ان کے غلاموں تک کے لئے کہی جا سکتی ہے کہ وہ انٹرنیشنل بزنس کمیونٹی کا حصہ تھے اور آداب محفل اور دنیا میں استعمال ہونے والی آسائشوں سے بخوبی واقف تھے۔
دوسری بات خواتین کو قواریر سے تشبیہ دینا سے مراد کتنا باریک اور سوفٹ احساس ہے کہ یہ ایسے پیالے ہیں جو سجا کر رکھے جائیں۔ گھروں میں بھی اور دلوں میں بھی۔ جنہیں دیکھ کر دل کی امیری کا احساس ہو، جنہیں رکھنے کے لئے بھی ان کی طرح کے نازک شیشے کے شوکیس(گھر) بنائے جائیں۔ یہاں نازکی احساس کی ہے ناکہ سامان کی۔ عورت شیشے کا وہ نازک برتن ہے جو بےحسی کی چوٹ سے ٹوٹتا ہے اور محبت، احساس اور اعتماد کے ڈرائنگ روم میں سنبھالا جاتا ہے۔ یہ بات نبی کریمﷺ نے بتائی ہے کہ عورت سنبھالنے سے خوبصورت ہوتی ہے اور بے توجہی سے ٹوٹ جاتی ہے۔