Soft Diplomacy
سافٹ ڈپلومیسی
بابا جی۔۔ قرآن میں ملکہ بلقیس اور سلیمانؑ کا قصہ کیوں بیان کیا گیا۔
بابے نےمیری طرف چونک کر دیکھا اور کچھ دیر مجھے دیکھتے ہوئے بولے، اصل بات تو اللہ اور ان کے پیارے حبیب کریمﷺ جانتے ہیں۔۔ لیکن میری نظر میں یہ ایک بادشاہ کی سافٹ ڈپلومیسی کی علامت ہے۔
وہ کیسے۔۔ میں نے پوچھا؟
دیکھو نا یار۔۔ ملکہ بلقیس سورج کی پجاری تھی۔ ہر نعمت کی ریل پیل ان کے ملک میں تھی حتیٰ کہ time dilation یعنی فاصلوں کو مختصر کرنے کی سائنس پر بھی انہیں عبور تھا۔
ترجمہ: اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت رکھی تھی بہت سے گاؤں آباد کر رکھے تھے جو نظر آتے تھے اور ہم نے ان میں منزلیں مقرر کر دی تھیں، ان میں راتوں اور دنوں کو امن سے چلو۔ پھر انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہماری منزلوں کو دور دور کر دے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا سو ہم نے انہیں کہانیاں بنا دیا اور ہم نے انہیں پورے طور پر پارہ پارہ کر دیا (18-19 سبا)
اور طاقتور اتنے تھے کہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے۔۔ جب انہیں حضرت سلیمانؑ (جو اس وقت امریکہ تھا بلکہ ایک لازوال حقیقی سپر پاور تھا) نے دعوت اسلام دی تو انہوں نے ملکہ بلقیس کو کہا کہ ہم طاقت میں اور سامان لڑائی وغیرہ میں ماہر ہیں ہم لڑیں گے۔۔ جس کا جواب ملکہ بلقیس کی دانش نے یوں دیا کہ جب طاقتور بادشاہ حملہ آور ہوتے ہیں تو وہاں کے عزت داروں کو ذلیل کر دیتے ہین۔
یہ اس کا جنگ سے گریز تھا کیونکہ وہ ایک خوب تیزی سے پھیلتی پھولتی معیشت اور خوشحالی سے بھرپور حکومت کر رہی تھی۔۔ لہذا وہ اپنی عوام کو ہر ممکن جنگ سے بچانا چاہتی تھی۔۔ لہذا اس نے تحائف دے کر ایلچی کو بھیجا جسے حضرت سلیمانؑ نے شدید طریقہ سے رد کر دیا۔۔ اور کہا کہ ملکہ کو ان سے ملنے آنا چاہئے۔۔ اب چونکہ یہ قوم سبا فاصلوں کو مختصر کرنے کا فن جانتے تھے۔۔ جس سے ان کے سفر مختصر اور سامان ترسیل آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا تھا۔۔ اور اس ملکہ کے تخت کا چرچا ہر ملک میں تھا کہ بہت عمدہ مضبوط اور بڑا تخت ہے۔ جسے ہلانا ناممکن ہے۔۔ لہذا سلیمانؑ نے اپنے ایک صحابی کے ذریعے پلک جھپکتے میں ٹائم ٹریول یا Teleportation سے اس تخت کو ملکہ کے آنے سے قبل اپنے پاس منگوا لیا تاکہ ملکہ بلقیس کو مرعوب کیا جا سکے کہ کیسی طاقتور سلطنت ہے جس سے لڑنے کا خیال بھی بیوقوفی ہے۔
کیونکہ بلقیس حالات حاضرہ کا جائزہ لینے آرہی تھی۔۔ اور کم وبیش 2000 کلومیٹر دور سے وہ تخت سلیمانؑ کے سامنے نہ صرف پیش کیا گیا بلکہ اس میں رد وبدل کرکے اس میں مرصع کاری اور شیشے کا کام اس طرح کیا گیا جیسے آجکل 3D ڈیزائن بنائے جاتے ہیں جس سے یوں لگتا ہے کہ وہ کوئی سمندر یا تالاب ہیں حالانکہ وہ فرش ہوتا ہے۔۔ یہ فن آج کل کی تعمیرات میں بکثرت استعمال ہوتا ہے۔۔ اس وجہ سے ملکہ بلقیس اپنے تخت کو پہچان نہ سکی اور جب آگے بڑھنے لگی تو اس نے اپنی جوتیاں اتار لیں اور پنڈلیاں ننگی کر دیں کہ شاید آگے پانی ہے۔۔
اتنی سمجھدار خاتون کو بھی جب اس ٹیکنالوجی سے دھوکہ ہوا تو وہ سلیمانؑ کی ٹیکنالوجی کی گرویدہ ہوگئی کیونکہ یہ ٹیکنالوجی اس کے وہم وگمان سے بھی آگے تھی۔ تو جو دیکھنے آئی تھی۔۔ اگر سلیمانؑ چاہتے تو اسے طاقت سے مرعوب کر سکتے تھے۔۔ جس کی برابری کسی صورت ممکن نہیں تھی۔۔ لیکن ایک سمجھدار اور visionary خاتون کو علم و دانش اور جدت سے اس طرح مرعوب کیا کہ وہ دل ہارنے کے ساتھ ساتھ اسلام بھی لے آئی۔۔ اور اس طرح جب ان کی ہر دلعزیز ملکہ مسلمان ہوئی تو پوری قوم سبا مسلمان ہوگئی۔۔ اس طرح بغیر کسی کو سوئی چھوئے پوری سلطنت حضرت سلیمانؑ کی دانش و تدبیر سے فتح ہوگئی۔۔
لیکن بابا جی۔۔ اس قصے کی کوئی اور بھی تو حکمت ہوگی۔ کیونکہ یہ ایک ہی واقعہ ہے جس میں کسی فوجی جرنیل نے esthetic senses یعنی جمالیات سے کسی قوم کو مرعوب کیا۔ ورنہ تو دھمکی لڑائی جہاد وغیرہ ہی نظر آتا ہے شدید ردعمل اور کھینچاتانی۔۔ انبیاء کی عمریں گزر گئیں۔۔
بابا جی نے ایک گہری سانس لی اور خلاء میں گھورنے لگے۔۔ پھر بولے میری نظر میں اس کی ایک بہت بڑی حکمت ہے شاید کوئی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے۔۔
وہ کیا؟ میں نے بابا جی کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔
وہ بولے۔۔ قران اللہ کریم نے اپنے حبیب کریمﷺ کی سیرت لکھی ہے۔۔ جس میں ان کی اداوں کو انبیاء کی زندگیوں سے مثال دے کر بیان فرمایا تاکہ سند رہے۔۔ اور 26 انبیاء کی زندگیوں کے واقعات صرف نبی کریم کی حیات پاک کے چند پہلو ہیں وہ بھی وہ پہلو جن پر آگے چل کر میری طرح اور تمہاری طرح کے جہلا نے زیر بحث و تنقید لانے تھے۔۔
تو بابا جی اس واقعہ میں ملکہ بلقیس سے کیا سبق یا سیرت کا کون سا دریچہ کھلتا ہے؟
ارے میرے بچے۔۔ نبی کریمﷺکے تمام شادیوں پر سند ہے کہ انبیاء کوئی موقع جس سے امن بڑھے، قوم مضبوط دین کی ترویج ہو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔۔ یاد نہیں تمہیں جب آقا کریمﷺ نے حضرت جویریہ سے نکاح کیا تو تمام اسیران جنگ جو اہل فوج کے حصہ میں آ گئے تھے، دفعۃً رہا کر دیے گئے، فوج نے کہا جس خاندان میں رسول اللہ ﷺ نے شادی کر لی وہ غلام نہیں ہو سکتا، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے کسی عورت کو "جویریہ سلام اللہ علیہا" سے بڑھ کر اپنی قوم کے حق میں مبارک نہیں دیکھا، ان کے سبب سے بنو مصطلق کے سینکڑوں گھرانے آزاد کر دیے گئے۔ کم و بیش پورا قبیلہ نبی کریمﷺکے احسان مند ہوا اور دل وجان سے ساتھ دیا۔۔ اسی طرح ابوسفیان کا زور تب ٹوٹا جب ان کی بیٹی حضرت ام حبیبہ سلام اللہ علیہا کو آقاﷺنے اپنی زوجیت میں لے لی۔۔
اسی طرح حصرت سلیمانؑ اور ملکہ بلقیس کے قصہ سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ بادشاہ کی بیٹی یا ملکہ کی عزت و تکریم یہ ہے کہ اسے نبی اپنے عقد و نکاح میں قبول فرمائیں اور تمام جنگوں میں ان قبیلوں کے سرداروں کی بیٹیاں نبی کریمﷺکے عقد مبارک میں آئیں۔۔ اور انہیں کوئی غلام بھی نہیں کہتا حالانکہ وہ جنگ میں گرفتار ہو کر تشریف لائیں۔۔ جیسا کہ ملکہ بلقیس اطاعت میں آئی اور خود کو حضرت سلیمانؑ کے سپرد کیا۔۔ تو وہ یہاں بھی ملکہ بن گئیں۔۔ جیسا کہ ایک غلط بات حضرت ماریہ قبطیہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ نبی کریمﷺکی کنیز تھیں۔۔
کنیز تو تمام ہی امت کی خواتین ہیں اگر انہیں یہ شرف مل جائے تو ان کے لئے اس سے بڑی نعمت نہیں۔ لیکن جب نبی کسی بھی خاتون کو اپنی زوجیت میں قبول فرماتے ہیں پہلے اسے آزاد فرماتے ہیں پھر وہ اپنی رضا ورغبت سے نکاح میں آتی ہیں۔ بالکل ملکہ بلقیس کی طرح ہی حضرت ماریہ کو بھی جب شاہ مقوقس نے اسلام قبول نہیں کیا، لیکن حضور ﷺ کے پیام اور پیامبر کی بڑی پزیرائی کی اور قیمتی سازوسامان کے علاوہ دو لڑکیاں جن کے ساتھ اُن کے بھائی مابور بھی تھے، خدمتِ نبوی ﷺ میں تحفۃً بھجیں۔۔ اور ساتھ عرض کی کہ میں آپ کی خدمت میں دو ایسی خواتین بھیج رہا ہوں جو میری قوم کی معزز ترین ہیں اور انبیاء کے نسب سے ہیں۔۔
جب آقاﷺنے ان سے عقد فرمایا تو ہی ارشاد فرمایا کہ قبطیوں کے (مصر کے عیسائی) ساتھ حسنِ سلوک کرو، اس لیے کہ اُن سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے، اُن سے نسب کا تعلق تویہ ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی والدہ (حضرت ہاجرہ) اور میرے لڑکے ابراہیم دونوں کی ماں اسی قوم سے ہیں (اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ اُن سے معاہدہ ہو چکا ہے) یہ ملکہ بلقیس کی طرح حضرت ماریہ قبطیہ کا اپنے قوم پر احسان ہے۔۔ اور ملکہ بلقیس اور سلیمانؑ کی soft diplomacy رہتی دنیا تک یہ بات ثابت کرے گی کہ جب معاملات محبت، علم و عمل اور سمجھداری جمالیات سے طے ہو سکتے ہوں تو وہاں طاقت کا بے جا استعمال استعماریت، جہالت اور بے انصافی ہے۔۔
تیری قضا خلیفۂ احکامِ ذِی الجلال
تیری رضا حلیف قضا و قدر کی ہے