Sirf Ahle Dil Ke Liye
صرف اہل دل کے لئے
رموز معرفت جدید کی روشنی میں، بخاری شریف کی حدیث نمبر 5101 کا آخری حصہ کچھ یوں ہے۔ عروہ راوی نے کہا ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی۔ ابولہب نے اس کو آزاد کر دیا تھا۔ جب اس نے نبی کریم ﷺ کے پیدا ہونے کی خبر ابولہب کو دی تھی۔ پھر اس نے نبی کریم ﷺ کو دودھ پلایا تھا، جب ابولہب مر گیا تو اس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے کیا گزری؟
وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا، مگر ایک ذرا سا پانی (پیر کے دن مل جاتا ہے) ابولہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کے انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کر دیا تھا۔ اس حدیث پاک سے چند اہم نکات واضح ہوتے ہیں۔
1۔ حضور نبی کریمﷺ کی ولادت با سعادت کی خوشی منانے والے ابولہب، جنہوں نے ولادت کی خبر لانے پر حضرت ثوبیہ ؓا کو انگلی کی جنبش سے آزاد کر دیا تھا۔ جس پر قرآن میں عذاب کی وعید ہے کو بھی کسی صورت اس خوشی کے منانے کا اجر مل رہا ہے۔ کہ اس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو مومنین کا خوشی منانے پر اجر کیا ہو گا۔
2۔ لیکن یہ خوشی زمانہ جاہلیت میں بھی کس طرح منائی گئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ایک روایت کا مفہوم ہے کہ نبی کریمﷺ کی ولادت با سعادت پر حضرت عبدالمطلب نے 3 دن دعوت خاص عام کا اہتمام فرمایا اور اس کے لئے اونٹ اور بکریاں ذبح فرمائیں۔ حالانکہ زمانہ جاہلیت میں خوشی منانے میں شراب و شباب و رقص و سرور ولغویات کا اہتمام کیا جاتا۔
لیکن کہیں بھی کس ضعیف سے ضعیف روایت میں بھی حضور نبی کریمﷺ کی پیدائش پر، خیرات غربا و مساکین کی کفالت کے اہتمام کے سوا کوئی لغو حرکت نہیں ملتی۔ اسی طرح آپ کریمﷺکے عقیقہ میں بھی عرب رواج کے مطابق باوقار دعوت اور غربا و مساکین کے لئے کھانے اور پوشاک کا اہتمام کیا گیا۔
3۔ جو لوگ غلامی کو جانتے ہیں کہ وہ کتنی اذیت ناک ہوتی ہے۔ انہیں اس خوشی کا علم ہو گا، جو آپ کریمﷺ کی ولادت کی خوشخبری دینے پر حضرت ثوبیہ کو نصیب ہوئی۔ یعنی آقاﷺ کی آمد پر حقیقی خوشی اپنے زیر دسترس یا زیر انتظام ماتحت، نوکروں یا غلاموں کی خدمت دراصل نبی کریمﷺ کے خاندان کی سنت ہے۔ اور نبی سے پیار کرنے والوں کے لئے مشعل راہ۔
4۔ نبی کریمﷺ کے میلاد کی خوشخبری دینے والی لونڈی کو کیا اجر ملا۔ اول غلامی سے ازادی، دوئم نبی کریمﷺ کو دودھ پلانے کا شرف، سوئم صحابیہ بننے کا نصیب۔ چہارم آپ کی خدمت امہات المومنین حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ صدیقہ کی ذمہ داری تھی۔ انہیں کپڑے، سامان ضروریہ اور پیسے پہنچائے جاتے۔ آج کے جدید معاشرے کے لئے اس حدیث پاک سے چند اہم اسباق۔
• نبی کریمﷺکے آمد پر ہم مسلمانوں کو غرباء میں کھانا اور کپڑوں کی تقسیم کو خود پر فرض کرنا چاہئے۔ صرف دیگیں پکوا کر اپنے محلے میں اپنے جیسوں پر بانٹ کر کھانا کھلانے کا حق ادا نہیں ہوتا۔ بلکہ حقیقی حقدار تک اس کھانے کو پہنچانا دراصل نبی کریمﷺ کے میلاد کی حقیقی خوشی ہے۔ ایک دیگ آج کل 10 سے 15 ہزار روپے میں بنتی ہے۔
جبکہ 20 کلو آٹے کی ایک بوری 2500 میں آتی ہے۔ جس سے 5 افراد کا گھرانہ 20 دن روٹی کھا سکتا ہے۔ اور 15 ہزار میں آپ 6 گھرانوں کو 20 روز کے لئے روٹی فراہم کرنے کا انتظام کر سکتے ہیں۔ خصوصا آج کی اس مہنگائی اور بے روزگاری کے دنوں میں یہ نبی کریمﷺکی شفاعت کا سبب بنے گا۔
• برصغیر میں دیوی دیوتا کی پرستش اور قدیم اہل فارس کی شخصیت پرستی نے برصغیر میں اولیاء کرام کے مزارات اور عرس کا کلچر عام کیا اور نجانے کب میلاد النبی کو آستانوں اور پیروں کے مزاروں سے جوڑ دیا گیا۔ اور اس دن کی برکت کو سجادہ نشینوں اور نعت خوانوں نے خوب کیش کرایا۔ جنہیں عقیدت سے زیادہ جیبوں کی بھرائی مطلوب تھی۔
لہذا وہ جو نبی کریمﷺ کی ولادت باسعادت زمانہ جاہلیت میں بھی پر وقار طریقے سے منائی گئی تھی، اس کا رنگ ڈھنگ مزاروں کی دھلائی، ان پر چادریں چڑھانا۔ پھولوں کے ہاروں پر سہروں پر اور پیر خانے کے کپڑوں پر غریب مریدوں کے لاکھوں روپوں کی صورت خرچ ہونے لگے۔ دیگیں اور چڑھاوئے عام ہوئے، ڈھول اور دھمالیں رسم ورواج بن گئیں۔ جس کا فائدہ عام معاشرے کو ایسے نہیں ہوا، جیسے حضرت ثوبیہ کو غلامی اور ذلت و پستی سے نجات کی صورت ہوا۔
• لہذا کسی مزار پر چادر چڑھانے کئ بجائے کسی غریب بچی کو ایک نئی قمیض یا ایک مضبوط چادر خرید کر دی جائے۔ تاکہ آقاﷺکی امت کی بیٹی کی عزت آنکھوں سے نہ اچھالی جائے۔ یہ آقاﷺکی شفقت اور شفاعت کا باعث ہو گی۔ اس سال سیلاب زدگان میں لاکھوں بچیاں اور خواتین نیم برہنہ کھلے آسمان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
• جان چھڑانے کی خیرات دیگ پکوانے یا دیگ کے پیسے دینے کی بجائے چند گھرانوں کا یا ایک گھر کا ماہانہ راشن ڈال دیا جائے پورا سال عید میلاد ہوگی۔ اور یہ صحابہ کرام کا عمل تھا، وہ نبی کریمﷺکے محبت میں تمام سال اپنے پیسے کو نچھاور فرماتے۔ ناکہ صرف ایک روز اسی لئے تو اس غلط فہمی نے جنم لیا کہ صحابہ کرام کب حضور نبی کریمﷺ کا میلاد یا عرس مناتے تھے۔
کیونکہ یہ برتھ ڈے کا رواج گورے سے اور ہندوستان سے ملا۔ ورنہ صحابہ کرام ہر روز نبی کریمﷺکی آمد کا شکر اور شکریہ مناتے اور یہی سنت اولیاء اللہ کی رہی۔
• حضرت ثوبیہ کو آزاد کرنے اور پھر آقاﷺ کی رضاعت کی ذمہ داری دینے کا مطلب تھا کہ انہیں معاشرے میں ایک آزاد اور باوقار خاتون مان کر اپنے برابر معاشرے میں مقام دیا گیا۔ تو عید میلادالنبی کے منانے کا حقیقی معنی کچھ یوں ہوں گے کہ کم از کم اس روز اپنے ملازموں کو دیگ سے کھلانے کی بجائے، اس طرح اپنے گھر دعوت پر بلایا جائے جیسے اپنے ہم درجہ دوستوں کو بلایا جاتا ہے۔
اور نبی کریمﷺ کی محبت میں اس روز وہ آپ کی ڈرائنگ ٹیبل یا دسترخوان پر کھائیں اور آپ اور آپ کے بچے ان کی خدمت میں کھڑے ہوں۔
• اپنے ملازموں، ماتحتوں کو بونس دیں تاکہ وہ اس روز کی خوشی کو اپنے بچوں کے ساتھ منا سکیں۔ کوئی اپنا قرض اتارا سکے۔ کوئی اپنے بچوں کی فیس یا یونیفارم لے سکے۔ کم از کم اپنے ملازموں کے لئے میاں اور بیوی کے ایک ایک جوڑا کپڑے یا جوتے لے کر دیں۔ یقین کریں آپ کی خوشی دوبالا ہو جائے گی۔ اللہ کریم کی جانب سے مغفرت اور رزق میں برکت، نبی کریمﷺکے جانب سے شفقت و شفاعت اور دنیا میں عزت نصیب ہو گی۔
کیونکہ نبی کریمﷺ کی ذات وہ کریم ذات ہیں، جو بوقت وفات، بوقت حشر امتی کے لئے فکر مند رہے تو آپ کریمﷺکی امت کی خدمت کس قدر نبی کریمﷺ کی خوشی کا باعث ہو گا۔ اس کا اندازہ میں اور آپ نہیں لگا سکتے۔
آج کے اس جدید دور میں حقیقی خوشی منانے کی طرف بڑھیں۔ وہ زمانہ چلا گیا جب لنگر کا انتظام اس لئے کیا جاتا تھا کہ مزارات کے علاوہ مسافروں اور غرباء کے لئے کوئی جائے پناہ نہ ہوتی۔ لیکن پھر ان پر مفاد پرستوں کا غلبہ ہو گیا۔ اب صرف اور صرف سجادہ نشینوں اور مفاد پرست نعت خوانوں کے لئے جائیدادیں اور گاڑیاں تبدیل کرنے میلاد پاک منائے جاتے ہیں۔
خود قدم آگے بڑھائیں آج نبی کریمﷺ کی امت کو ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن یقین کریں۔ ہمارے معاشرے میں ڈر اور خوف کا بازار اس قدر گرم ہے کہ دیگ نہ پکا کر دھمال نہ ڈال کر عرس کی چادر نہ چڑھا کر آپ کو یوں لگے گا، جیسے کوئی گناہ ہو گیا ہے۔ سستی اور کاہلی اس مرتبہ بھی آپ کو چند چادروں کے چڑھاوے، چند ایسی دیگوں کا انتظام تک محدود رکھے گی جو غرباء اور یتیموں تک کبھی بھی نہیں پہنچ پائے گئیں۔
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیء رحمت کا قلمدان گیا