Mujhe To Menopause Hai (2)
مجھے تو مینو پاز ہے (2)
میں بھی اسی تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہوں۔۔ ہسٹیریا اس لئے کہتا تھا کہ میری جسمانی خواہشات پوری نہیں ہو رہیں تھیں اور مجھے ضرورت محسوس ہوتی تھی۔۔ جب وہ وقت گزر گیا اور مجھے بیوی بچوں اور معاشرے نے ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیا تو میں اسی سن یاسی خاتون کی طرح کسی ہندو معاشرے میں جوگن بن گیا۔۔ جس کو چارپائی اور کمرے کی رہبانیت پر مجبور کر دیا گیا۔۔ ابھی تم نے دیکھا کوئی میری بات سننے کو تیار نہیں۔۔ اب میرے پاس اس عمر میں صرف ان بڈھے انگریزوں کی طرح تھائی لینڈ جا کر عیاشی کا راستہ رہ جاتا ہے جہاں میری قدر ہو۔۔ یا اپنے ملک میں رہ کر ناجائز رشتوں کو اپنے پیسے اور طاقت کے زور پر متاثر کرکے اپنی خوشی حاصل کروں۔۔ جو کہ میری ہم عمر عورت کے لئے تو ناممکن ہی نہیں واجب تعزیر بھی ہے، وہ تو سوچ بھی نہی سکتی۔۔
ہم جب اس عمر کو پہنچتے ہیں تو ہم معاشرے کے لئے غیر ضروری ہو جاتے ہیں۔۔ گورے نے اس کا حل فری سوسائیٹی آزاد معاشرے کی صورت میں نکالا۔۔ عورت اور مرد اپنی اہمیت کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔۔ مشہور زمانہ ادکار کلائنٹ ایسٹ وڈ اور اس کی آخری گرل فرینڈ کی عمروں میں 35 سال کا فرق تھا۔۔ اس لئے تم ان کی سوسائیٹی میں عمر رسیدہ افراد کو چاہے وہ مرد ہوں یا عورت معاشرے میں فعال دیکھو گے۔۔ وہ جب اپنی اہمیت کہیں کم ہوتی دیکھتے ہیں رشتے کو ختم کر دیتے ہیں۔۔ اور اگر ساتھ نہیں چل سکتے تو ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر اپنی نئی منزلوں کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔۔ یہی خود کو جوان رکھنے کی امنگ انہیں معاشرے میں فعال کرتا رہتا ہے۔۔ جبکہ ہمارے 50 سے اوپر کے مرد سفید ٹوپیاں پہنے مسجد اور اس کی کمیٹی کے اقتدار کی جنگ میں مصروف ہوتے ہیں۔۔ اور عورتیں چارپائی پر بیٹھ کر بہو بیٹیوں کو کوستی رہتی ہے۔۔ اور سارا گھر اسے نیم پاگل تصور کرتا ہے۔۔
اب ذرا تم اسلام کی طرف آو۔۔ آپ کو 4 بیویوں کی اجازت ہے۔۔ لیکن اگر آپ کے دوست کا دوست بھی دوسری شادی کر لے تو اس بے چارے کا نام لینا بھی گھر میں منع بلکہ جرم بن جاتا ہے۔۔ اب چاہے یہ آدمی چوری چھپے آشنائیاں کرتا پھرے۔۔ وہ قابل قبول ہے۔۔ وہ ہماری ایک آرٹسٹ ہے ادکارہ نور۔۔ اس بیچاری نے دو چار شادیاں کیا کر لیں۔۔ ہمارے مردوں اور عورتوں کے لئے نجس اور اخلاق باختہ بن گئی۔۔ جبکہ اس کے مقابلے میں الزبتھ ٹیلر ایک محسور کن اداکارہ رہی ہے جس نے شاید 8 شادیاں اور لاتعداد معاشقے کئے۔۔
اب ایک نظر ذرا مذہب اسلام کے معاشرتی بنیادوں کو دیکھو۔۔ جہاں کسی بیوہ یا مطلقہ خاتون کو عدت بھی پوری کرنے کا موقع نہ دیا جاتا تاکہ وہ معاشرے کا عضو معطل بن کر زندگی نہ گزارے۔۔ اور معاشرے میں کسی ناجائز راستے سے اپنی ضروریات کو پورا نہ کرے۔۔
طلاق ناپسندیدہ ترین فعل ہونے کے باوجود کئی واقعات میں صحابیات کا طلاق کا مطالبہ نبی کریمﷺکے دربار میں جا کر کرنا اور پھر پورا کرنا بھی رہا تھا، کیونکہ جب وہ کہیں خود کو غیر ضروری یا ایسا سمجھتیں جہاں خاوند ان کا معاشرتی احترام کھو رہا ہے وہ مطالبہ طلاق کر دیتیں۔۔ حتکہ حضرت زید بن حارثہ جن کا نکاح خود حضور کریمﷺ نے کردیا۔۔ وہ بھی اپنی زوجہ محترمہ کے رویہ سے تنگ ہو کر آقاﷺ سے اجازت لے کر طلاق دے دیتے ہیں جبکہ آقاﷺنے انہیں کئی بار روکا بھی۔۔ بعض صحابہ کرام سے متعلق کثرت کے ساتھ طلاق دینے کے بارے میں یہ ہے کہ ممکن ہے کہ اس کی وجہ میاں بیوی کے درمیان نفرت پیدا ہو جانا، یا کسی اخلاقی یا جسمانی عیب کے متعلق بعد میں معلوم ہونا وغیرہ، نیز ان کے عہد میں طلاق کے منفی نتائج بہت کم تھے، تو ایسا ممکن تھا کہ ایک عورت کو کئی بار طلاق ہو اور پھر اس کی شادی بھی کئی بار ہو جائے۔۔
حضرت عاتکہ بنت زیدؓ کے 5 نکاح ہوئے اور تمام شوہر شہید ہوئے۔۔ ان کے سابقہ تمام شوہر شہید ہوئے تھے اور یہ مشہور ہوگیا تھا کہ جسے شہادت کا درجہ پانا ہو وہ عاتکہ سے شادی کرلے۔ اور ان کی اس شہرت پر کہ ان کا خاوند شہید ہوجاتا ہے۔۔ حضرت علی بن ابی طالب نے ان سے شادی کی خواہش ظاہر کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ایک برادر نبی، میں آپ کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔۔ لیکن حضرت امام حسین سے شادی کی جبکہ امام کریم آپ سے 25 سال چھوٹے تھے۔۔ اسی لئے اس معاشرے میں 60 سال کا شخص بوڑھا نہیں کہلاتا تھا۔۔
قران تو اس حد تک انسان کو motivated رکھتا ہے کہ اپنے خلیل نبی حضرت ابراہیمؑ اور ان کی بیگم کو بڑھاپے میں اولاد کی بشارت دیتا ہے۔۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں 50 سال کے بعد عورت یا مرد کا کوئی بچہ غلطی سے بھی پیدا ہو جائے۔۔ مرد اور عورت زمانے کا قصہ بن جاتے ہیں۔۔ جبکہ حضرت ابراہیمؑ کو جب اولاد کی بشارت دی ایک اندازے کے مطابق ان کی عمر مبارک 90 سال تھی۔۔
میں نے بہو کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔ کیوں بیٹی! اگر تمہیں ایک مہینے کے بعد پتہ چلے کہ تمہاری ساس کی بھی اولاد ہونے والی ہے تو کیسا محسوس کرو گی؟
بہو کا چہرہ سرخ ہوگیا۔۔ اور دوپٹہ میں منہ چھپا کر قہقہہ مار ہنسنے لگی۔۔ بولے ہائے ابو جی ایسا نہ کہیں۔۔
میں نے کہا حالانکہ ابھی ہم دونوں ساٹھ سال کے نہیں ہوئے۔ اور تمہاری ساس تو یہ بات بھی سن لیتی تو مجھے گولی مار دیتی۔۔
یہ ہی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم نے کسی کو بھی اس کی مرضی کی زندگی نہیں جینے دینی۔۔ چاہے وہ اسلامی ہو یا ثقافتی۔۔ اور یہ ہندو مذہب کی نشانی ہے پہلے وہ عورت کو مرد کے مرنے کے بعد ستی (زندہ جلا دیا کرتے تھے) اور بیوہ یا طلاق یافتہ کو منحوس سمجھ کر اسے شادیوں اور خوشیوں میں نہ بلاتے کہ اس کا منحوس اثر ان کے گھروں پر نہ پڑے۔۔ جبکہ صحابہ کو جب پتہ چلا کہ ایک صحابیہ سے شادی کے بعد ان کا شوہر شہید ہو جاتا ہے تو۔۔ وہ ان سے شادی کو اپنے لئے نیک بخت سمجھتے۔۔
میں نے بہو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ بیٹی! مرد کو درد بھی ہوتا ہے، وہ تنہائی کا عذاب عورت سے دوہراہ کاٹتا ہے۔۔ اور اسے رونا بھی آتا ہے۔۔ یہ مینوپاز نہیں جو صرف عورت ہی کو ہو سکتا ہے مرد کو نہیں۔۔ اگر اس معاشرے کی عورت بہت سی تکالیف کا شکار ہے اور معاشرے میں خاوند کے ہوتے ہوئے بھی اپنی خوشیوں کو دبا کر بیوہ اور (معاشرتی ستی) ہو رہی ہے تو اس برصغیر کا مرد بھی عورت کے بڑھاپے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ہی اندر ستی ہو رہا ہے۔۔ کیونکہ دوست، کاروبار، نوکری اور رشتوں سے اسے بہت جلد غیر ضروری سمجھ کر معاشرہ نکال دیتا ہے۔۔ پھر شاید اس کا ستی ہو جانا ہی بہتر ہے۔۔
میں بہو سے بولا۔۔ تم ایسا کرو مجھ سن یاسی کو ستی کر دو۔۔
اب جاو۔۔ شب بخیر۔۔ اور میں دوسرے طرف منہ کرکے لیٹ گیا۔۔
بہو دیے پیر خاموشی سے کمرے سے نکل گئی۔۔