Mein Aik Nafarman Baap Bhi Hoon
میں ایک نافرمان باپ بھی ہوں
مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میں ماں باپ کا نافرمان بیٹا تھا ہی، اس پر میں ایک نافرمان اور خود سر باپ بھی ہوں۔ میرے بابا چونکہ ایک خالص پٹھان (خالص سے مراد کردار اور گفتار) تھا تو زیادہ نافرمانی کی ہمت نہیں تھی، کیونکہ پھر وہ زبان اور ہاتھ دونوں سے نافرمانی کا بھوت اتارنا جانتا تھا۔ لہٰذا وہ تمام غصہ اور بدمعاشی میں ماں سے کرتا اور وہ مجھے اکثر کہتی بیٹا ایسا مت کیا کر تیری بدتمیزی سے میں ڈر جاتی ہوں کہیں تجھے بھی آگے سے ایسی ہی اولاد نہ ملے اور اکثر کہتی کہ تیری شادی میں کیسے کسی سے کراوں کہ اس بچی کی بدعائیں تجھے برباد نہ کر دیں تو اتنا بدتمیز ہے۔
پھر اللہ کریم نے مجھ پر شاید ماں کی پریشانی کی وجہ ہی سے کرم کا فیصلہ کر لیا۔ بابا بیمار ہو گئے اور مجھے ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا میں یہ تو نہیں کہتا کہ خدمت کا بلکہ ایسا سمجھ لیتے ہیں کہ چونکہ میں 14 یا 15 سالہ لڑکا تھا اور شائد انہوں نے جلدی جانا تھا تو 19 سال کی عمر تک یہ 4 یا 5 سال انہوں نے مجھے اپنے آخری سالوں میں ساتھ رکھ کر گھر کا ایک زمہ دار بڑا بنایا اور چلے گئے۔ شاید انہیں معلوم تھا اسی لئے عجلت میں مجھ پر بہت کام کیا۔
ان کے جانے کے بعد دس سال والدہ حیات رہیں۔ ان دس سالوں میں میں نے انہیں ہر طرح سے زچ کیا، باتیں سنائیں، لڑائیاں کیں طعنے دئے۔ کیونکہ بابا کے جانے کے بعد میں صرف بڑا ہی نہیں ہوا تھا، حالات میں خود فیصلے لیتے ناجانے کب خودسر ہوتا گیا۔ اور کم عمری اور کم علمی میں آنے والی پریشانیاں اور مسائل کو حل کرنے اور ان سے نبٹنے کا آسان طریقہ میں نے شور شرابے، لڑائی اور مردانہ غصہ کے اظہار سے کرنا سمجھا۔ (مردانہ غصہ میں اسے کہتا ہوں جو مرد حضرات جانتے بوجھتے ہوئے اپنی خواتین پر جتلا کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں تاکہ عورت سہم کر معاملہ رفع دفع کر دے، چاہے بہن ہو، ماں ہو یا بیوی، بیٹی)۔
مجھے یہ بھی ماننا ہے کہ بابا کے جانے کے بعد کے 10 سالوں میں مجھے اپنی ماما سے حقیقی محبت بھی ہوگئی تھی۔ جب میں ان سے بدتمیزی کرتا، وہ مجھے غصہ کرتیں لیکن کھانا میرے ساتھ ہی کھاتیں۔ ہم دونوں ناراض ہوتے تو آ کر کہتیں۔ سلیمی، پتر روٹی نہ کھا لیں۔ میں منہ بنا کر کھانا کھاتا۔ جب ایام یتیمی میں کوئی کام نہ بنتا تو میں جو اس وقت صرف 20 یا 22 سالہ نوجوان تھا۔
گاڑی میں چھپ کر روتا کیونکہ باپ بتا گیا تھا کہ تم پٹھان ہو اور مرد ہو اور گھر کے بڑے بھی۔ تو یہ تو بعد میں فیس بک پر پڑھا کہ "مرد کو درد نہیں ہوتا" ان تمام فلاسفرز کو کاش اس دور سے گزار سکوں جب مرد کو درد تو بہت ہوتا ہے، بھوک بھی لگتی ہے، اور روتا بھی ہے اور بہت بےیار و مددگار روتا ہے۔ کیونکہ جب مرد روتا ہے اس وقت اس کے پاس کوئی کندھا نہیں ہوتا، کندھا ہو تو وہ روتا نہیں نخرے کرتا ہے۔
خیر، اسی کھٹی میٹھی زندگی میں مجھے ایک اللہ والا مل گیا۔ محبت اور سکون کا پیاسا تھا۔ اس کے گلے لگ کر بہت سکون ملا۔ جب وہ سکون عقیدت میں تبدیل ہوا تو دل کرتا ان کے پیر چوم لوں۔ جب اس ارادے سے ان کے سامنے جاتا۔ مجھے دیکھتے ہی التی پالتی مار لیتے۔ یا اپنے پیر اوپر چارپائی پر رکھ لیتے۔ پیروں تک رسائی نہ دیتے اور مجھے مایوس ہونا پڑتا۔ ایک دن میں پیر چومنے کے لئے جھکا تو اپنے پیروں کو چارپائی پر رکھ لیا اور میرے سر کو پکڑ کر اپنی گود میں رکھ لیا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمانے لگے۔
"بیٹا، جس کے ماں باپ زندہ ہوں اور وہ باہر بزرگوں کے پیر چومتا پھر رہا ہو۔ اس سے زیادہ بدبخت اور منافق دوسرا کوئی نہیں۔ ماں اور باپ سے نافرمانی کرے اور باہر عاجزی دکھائے۔ بیٹا، اللہ کے دربار میں یہ منافق ہے۔ سنو، جو بچے ماں باپ سے زیادتی کر کے آتے ہیں اور ماں باپ رخصت ہو چکے ہوں۔ بیٹا، ان کی معافی اور انہیں ستھرا کرنے میں اللہ والوں کی زندگی بیت جاتی ہے اور پھر بھی یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ بخشا جائے گا بھی یا نہیں۔ مجھے اچانک وہ تمام بدتمیزیاں یاد آنا شروع ہوگئیں جو میں نے ناز و ادا، یا خود سری میں اپنے ماں باپ سے کیں تھیں۔
شاید اس وقت گود میں مجھ پر چند لمحوں کی غنودگی میں پورا ماضی نظر آگیا۔ میں نے وہیں سر رکھے ہوئے، بابا جان سے پوچھا۔ بابا معافی کا کیا راستہ ہے؟ انہوں نے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا۔ "بیٹا، ماں باپ اگر حیات ہوں تو باپ کے جوتے اپنے ہاتھوں سے رات کو صاف کرو اور انہیں خوب چمکا کر رکھو۔ جب تم ان کے جوتے پالش کر رہے ہو گے تو تمہارے وہ گناہ خودبخود جھڑ جائیں گے جو باپ سے دانستہ یا نادانستہ بدتمیزی تم سے ہوئی ہوگی۔
کیونکہ باپ خدا کا رنگ ہے، وہ تبدیل رویہ کو معافی مانتا ہے۔ اور ماں اگر حیات ہو تو بیٹا، اس کے رات کو سوتے ہوئے پیر چوم کر سویا کرو۔ اس طرح بہانہ بناؤ کہ تم پیر دبا رہے ہو۔ ان پر تیل لگا دو اور اسی بہانے ان کے پیر چوم لیا کرو۔ بیٹا، یہ 46 سال کی بے ریا عبادت کے برابر گناہوں کا کفارہ ہے۔ کیونکہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ماں باپ کی نافرمانی ہے۔ اور ہاں اگر باپ یا ماں زندہ نہ ہوں تب بھی ان کی قبر سے لپٹ کر معافی مانگا کرو۔
اور ماں کے پیروں کی جگہ چوم کر اور باپ کے سینے کی جگہ چوم کر کہو یااللہ مجھے ان کے حق میں معاف کر دیں۔ بیٹا، اگر یہ چلے جائیں تو یاد رکھو دیر تو ہوگئی لیکن ندامت اللہ کو پسند ہے۔ ان کی قبر پر جا کر ان کے لئے قرآن پڑھ کر ان کے گلے لگا کرو۔ یاد رکھو ماں کی قبر سے لپٹ کر رونا سنت نبویؐ ہے۔ جب آقا ﷺ کی والدہ کی تدفین ہوئی تو اس وقت آقا ﷺنے تاقیامت بیٹوں کے لئے ماں کی قبر سے لپٹ کر رونے کی سنت جاری فرما دی۔
میں کیا کروں بابا جان؟ میں نے ان کی گود سے سر اٹھا کر پوچھا۔ بولے۔ ماں کے پیر چوما کرو رات کو سوتے ہوئے بھی اور باہر سے آ کر بھی۔ بس۔ میں ایک خود سر پٹھان بچہ اور ماں کے پاؤں چومنا؟ لاہور سے کوئٹہ تک یہی کشمکش رہی۔ لیکن جیسے گھر کے دروازے پر پہنچا تو الحمدللہ۔ فیصلہ کر چکا تھا۔ ماما نے دروازہ کھولا اور میں ان کے گلے لگنے کی بجائے ان کے پیروں میں گر گیا۔ وہ بے چاری ڈر گئی۔ گھبرائی کھڑی رہی۔ میں اٹھا اور کہا۔ ماما۔ مجھے معاف کر دو۔ اس نے پھٹی آنکھوں سے پیار کیا اور حیرانگی میں وہ پورا دن گزارا۔
اسے میں اپنی خوش قسمتی کہوں یا بدقسمتی۔ اس قدم بوسی کے 8 یا 9 ماہ تک والدہ حیات رہیں۔ اور مجھے انہیں منانے اور ان کے پیروں کی خدمت کرنے کا بہت موقع ملا۔ خوش قسمتی اس لئے کہ مجھے اللہ کریم نے یہ موقع عطا کیا۔ ان کی حیات میں انہیں راضی کرنے کا اور بدقسمتی اس لئے کہ بہت کم موقع ملا۔ اس کے بعد نہ تو کبھی بابا جان نے قدم چومنے سے منع کیا۔ اور سچ پوچھیں تو پھر یہ حاجت ہی نہیں رہی کہ کسی کے پاؤں چوموں۔ دل ماں کے پیروں کو چومنے کے بعد پرسکون ہو چکا تھا۔
تب سے لیکر آج تک جب کوئی بچہ نوجوان، ہٹ دھرم اور دنیا کی غلاظتوں میں لتھڑا پریشان مجھ سے کامیاب زندگی گزارنے کا ہنر پوچھنے آتا ہے تو میں انہیں ماں اور باپ کے پیروں کی طرف موڑ دیتا ہوں۔ انہیں ماں باپ کے پیروں کی خدمت، ان کے لئے اچھا جوتا یا کپڑا بطور تحفہ خریدنے اور انہیں عجز کے ساتھ ماں باپ کو پیش کرنے کی ترغیب دیتا ہوں۔ کیونکہ ماں کے پیروں اور باپ کی جوتیوں کے بعد آپ کو دنیا سے لیکر جنت تک کامیابی سے کوئی روکنے والا نہیں۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اگر آپ ماں اور باپ کی خدمت کریں۔ اپنے پیسے سے ان کے لئے کوئی چیز خرید کر انہیں ان کے لاکھ انکار کے باوجود بھی دیں تو انہیں کیسا محسوس ہوتا ہوگا۔
حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ خوش نہیں ہوتے بلکہ خفا ہوتے ہیں کہ یہ پیسے کیوں خرچ کئے۔ یہ سوچ میری پرسوں تک تھی۔ پرسوں میری بیٹی اپنی پہلی کمائی سے اپنی ماں اور باپ کے لئے پرفیوم لے کر آئی۔ چونکہ وہ اپنی ماں اور باپ کا پرفیوم ٹیسٹ جانتی ہے تو اس کی اس ذاتی کمائی کا 75 فیصد صرف بابا اور ماما کے لئے پرفیوم پر خرچ ہوگیا۔ اور جب اس نے شرماتے ہوئے مجھے پرفیوم دیا تو کہنے لگی بابا اچھا نہیں لگتا کہ آپ کو کوئی چیز دوں کیونکہ آپ نے ہمیشہ ہی ہمیں دیا ہے۔ مگر میرا دل کیا آپ کے لئے پرفیوم لوں۔
آج مجھے محسوس ہوا کہ ماں کے پیر چومنے کا اجر اتنی جلدی خدا دے دے گا۔ اور ہاں یہ بات جو میں کہتا تھا کہ شائد ماں باپ اولاد سے تحفہ ملنے پر خفا سا منہ بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تم کو خود پر خرچ کرنا تھا۔ یہ خفا منہ بنانا دراصل وہ خوشی کے آنسو چھلکنے سے روکنے کے لئے ہوتے ہیں۔ جو تسکین کے باعث آنکھوں تک آ جائے ہیں۔