Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Kya Hamein Israel Ko Tasleem Kar Lena Chahiye?

Kya Hamein Israel Ko Tasleem Kar Lena Chahiye?

کیا ہمیں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہئے؟

انقلاب سورج کی طرح ہوتے ہیں۔ جب ان کا وقت آجاتا ہے۔ یہ "پھوٹ" پڑتے ہیں۔ لیکن اس "پھوٹنے" سے قبل یہ سحر اور صبح صادق سے ہی اپنے آنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ ماحول بنتا رہتا ہے اور پھر اچانک سورج کی ٹکیہ کی طرح کھلے آسمان پر چمک پڑتے ہیں، پھر اس روشنی سے مفر مشکل ہے۔ اور نہ ہی سورج کی روشنی میں دن کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جب انقلاب پھوٹ پڑے تو اس کی زد میں ہر خاص و عام ضرور آتا ہے۔ اب یہ چاہے فرد ہو ملک ہو یا براعظم۔۔ مثلا زراعت کا انقلاب جو آج سے کم وبیش 12 ہزار سال قبل ہوا۔۔ اس سے کم از کم 10 ہزار سال اور زیادہ سے زیادہ 50 ہزار سال قبل انسان نے باہمی ربط، تعلق اور ساتھ رہنا شروع کر دیا تھا۔

چھوٹے اور کمزور پرندوں اور جانوروں نے انسان کے ساتھ پالتو رہنا شروع کر دیا تھا کیونکہ انہیں کھانا با آسانی انسانی آبادی جو کہ اس وقت کنبہ کی صورت میں تھی سے میسر ہو جاتا۔ پھر جب انسان نے چند کنبوں کو باہمی مفاد کی خاطر ساتھ ملایا تو قبائل بنے اور یہی وہ وقت تھا جب خوراک کو زیادہ جمع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور دوسرے ذرائع خوراک یعنی زراعت اور جانور پالنے کا رجحان شروع ہوا۔۔ قبائل جب شہر بنے تو یہ ضرورت زرعی انقلاب بن کر پھوٹ پڑی۔۔ اور دنیا میں انسانی آبادیوں کے خطوں میں زراعت کو بطور کاروبار یعنی ایک دوسرے سے جنس کے بدلے جنس کی صورت میں تبدیل کرنے کا آغاز ہوا۔

اسی طرح تانبے کا دور ہے کہ اس کی ابتدا تو کم از کم 50 ہزار سال سے ہو چکی تھی مگر کسی مخصوص جنگلی قبیلہ کے پاس ہی صرف یہ ہنر تھا۔ لیکن تانبے کے انقلاب کا سورج کم و بیش 3 سے ساڑھے 3 ہزار سال پہلے پھوٹ پڑا۔ یعنی دنیا میں زراعت کے علاوہ ایک جنس اور تجارت کی شکل میں عام ہوئی۔ زیور، مصنوعی دانت، سامان حرب، برتن سب کہیں گندم کے بدلے کہیں چمڑے کے بدلے کام آنے لگے۔ اسی طرح لوہے کا انقلاب اور اس کا کمرشل استعمال بھی ایک مثال ہے۔ انقلاب کا آسان الفاظ میں ترجمہ کیا جائے تو ایک ایسی معاشرتی یا معاشی تبدیلی جو عام بندے یا ہر معاشرے کی دسترس میں ہو۔۔ معیشت میں اس کا مطلب کمرشل ہو جانا ہے۔

لیکن جوں جوں علم ترقی کرتا گیا ذہن ابتدائی علوم سے نکل کر فلسفہ اور فلسفہ سے سائنس بننے لگا۔۔ انقلابوں کا دورانیہ گھٹنے لگا۔ جیسے زراعت کا انقلاب 12 ہزار سال قبل شروع ہوا اور دنیا میں پھیلتے پھولتے اسے ہزاروں سال لگے۔ مگر زراعت کے اس انقلاب نے شہروں کو ایک دوسرے کے مرہون منت کر دیا۔ مفادات شہروں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئے۔ جب تانبے کا انقلاب پھوٹا تو وہ زیادہ تیزی سے پھیلا اور زراعت کے انقلاب کی مدت کے شائد چوتھائی حصہ میں پوری دنیا پر قابض ہو گیا اور زراعت سے قیمتی جنس بن گیا۔۔ اسی طرح جب لوہے کا دور شروع ہوا تو اس کے انقلاب نے پھوٹنے میں تانبے کے دور کا شائد نصف حصہ صرف کیا اور دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ یعنی علم اور ذرائع رصد و نقل و حمل نے انقلابات کی عمر کم مگر اثرات بڑھا دئے۔

مندرجہ بالا وہ چند انقلابات تھے جنہوں نے زمیں پر پھیلنے میں ہزاروں سال لئے۔ لیکن گزشتہ ایک ہزار سال میں کاغذ، بارود، اور صنعت کے انقلابات نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ آج سے تین سو سال قبل علاقوں کو قبضہ کرنے کی دوڑ میں امریکہ آباد و ایجاد ہوا، نو آبادیاتی نظام کے تحت چند ملکوں نے بطور لٹیرہ وسائل پر قبضہ کی نیت سے ممالک کو فتح کیا اور یوں تین سو سال سے دنیا میں کیپٹل ازم سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھی۔ جنگوں کا مقصد صرف ان علاقوں پر تسلط تھا جو وسائل سے مالا مال تھے۔ سلطنت برطانیہ کا سورج غروب نہ ہوتا۔ اس نے اپنا کاروبار چمکانے کو برصغیر کو چائے پینے کی لت لگائی اور چین کو افیون کا مزہ چکھایا۔

افریقہ سے جانوروں کی کھالیں، سونا اور غلام فرانس امریکہ برطانیہ سپلائی ہونے لگے اور چائے، افیون، غلام زراعت اور لوہے سے بڑی صنعت بن گئے۔ یوں صنعتی انقلاب کا سورج ڈیڑھ سو سال قبل پھوٹ پڑا۔ سرمایہ دار کو صرف اپنا منافع عزیز ہے۔ چاہے وہ افیون بیچ کر ہو یا غلام۔۔ اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں اس سے سرمایہ دار کو کوئی سروکار نہیں۔۔ اسی سرمایہ داری نظام نے صنعتوں کو ترقی دی۔ وہ ممالک جو ہزاروں سالوں سے اپنی سرحدوں اور ثقافتوں پر فخر کرتے رہے اور اپنی سرحدوں کے دفاع سے سلطنت روم و فارس، یونان کا درجہ پائے رکھا۔ ان کی جگہ سرمایہ دار نے علاقوں کو ان کی صنعت سے دنیا میں شناخت دینا شروع کی تاکہ اس کی جنس کی مانگ میں اضافہ ہو اور دنیا کو علم ہو کہ ریشم اور کاغذ کہاں سے خریدا جائے، چائے کس خطہ میں پیدا کی جائے اور افیون کی مانگ کہاں بڑھائی جاے۔

12 ہزار سال قبل شروع ہونے والے انقلاب اور بڑے بڑے ممالک اب سکڑ کر خطوں کی شکل اختیار کر گئے۔ انسان نے جغرافیائی تقسیم سے براعظم بنائے۔ پھر اس میں ممالک بنائے اور سرمایہ دار نے ان ممالک کی جغرافیائی حدود کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہیں economics zone میں تبدیل کر دیا۔۔ جس کی مزید تقسیم صنعتی انقلاب نے کر دی۔ اب امریکہ برصغیر میں سرمایہ کاری کر کے اسے اپنی صنعت بنا سکتا تھا۔ اور فرانس کا امیر چائنا میں افیون کا شئیر ہولڈر بن سکتا تھا۔۔ ان دیکھ سو سالوں میں سرمایہ دار نے جو جنگیں لڑی وہ سرمایہ کاری کی غرض سے لڑی گئی جس نے امیر ملکوں کی اسلحہ اور کیمیکل کی صنعتوں کو بہت پھیلایا۔ اور یوں گزشتہ سو سال سے دنیا سائنسی انقلاب سے آشنا ہوئی۔ اس انقلاب نے دنیا کی جغرافیائی لکیروں کو بے قدر کر دیا۔ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی حکومت دنیا میں قائم ہو گئی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد زراعت کو ادویات یا کیمیکل کا مرہون منت اس لئے کیا گیا کہ وہ فیکٹریاں جو اسلحہ اور کیمیکل جنگی سامان بناتی تھی جنگ عظیم کے بعد ان کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا اور سرمایہ کار نے سائنس کو اپنے ساتھ ملا کر مصنوعی خوراک چاہے انسان کے لئے ہو یا زراعت کے لئے اس کی بنیاد رکھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے باہمی مقابلے کا میدان رہی ہے۔ سرحدی لکیریں ختم ہو چکی ہیں۔ کوکا کولا انڈیا کے لوک فنکاروں کی پذیرائی کرتا ہے اور ان کے اندر جذبہ حب الوطنی پیدا کرنے کے منصوبوں کو سپورٹ کرتا ہے اسی طرح وہ پاکستان کے ملی نغموں کا مقابلہ منعقد کروا کر پاکستان کا بہترین مشروب ہے۔۔ جبکہ یہودیوں کا میوزک اسپانسر کرتے ہوئے عربوں کی صحرائی ریس کا افشل پارٹنر بھی ہے۔۔

صابن سے لے کر سیٹلائٹ تک اب مشترکہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور کئی کئی ملک ایک پراجیکٹ کا حصہ ہوتے ہیں۔۔ کئی ملکی اور غیر ملکی بنک ہالی وڈ کی ایک فلم بناتے ہیں جو 5 ممالک میں شوٹنگ مکمل کرتی ہے اور 20 ممالک میں ایک ساتھ ریلیز ہوتی ہے۔ اب روس کے صدر کا الیکشن ہو یا امریکی صدر کا ان کی انتخابی مہم چلانے اور اس مہم پر سرمایہ کاری کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوتی ہیں۔ جو اس خفیہ معاہدے کے تحت یہ اسپانسر شپ کرتی ہیں کہ دنیا میں موجود ان کے مفادات اور کاروبار کا تحفظ یہ صدور یقینی بنائیں گے۔۔ یعنی امریکہ کا صدر یا کابینہ، پاکستان کی کابینہ دراصل ایک سرمایہ دار ملٹی نیشنل کمپنی یا کمپنیوں کا بل واسطہ یا ترقی پذیر ممالک میں بلا واسطہ زر خرید غلام ہو گا۔۔

ممالک اسی صورت میں لڑیں گے اور فسادات یا وبائیں اسی صورت میں پھوٹین گی جب ان سے کسی ایک ملٹی نیشنل یا چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائدہ ہو گا۔ پاکستان اور انڈیا کو دشمن رکھنے کے لئے اسلحہ ساز کمپنیوں اور ان کے سربراہان کو انتھک کوشش کرنا پڑتی ہے تب ہی خوف کی فضا اسلحہ کی خریداری کرتی ہے۔ لیکن انہیں باہم لڑنے بھی نہیں دینا ورنہ پھر معیشت تباہ ہو جائے گی اور ان کا کاروبار یکسر ٹھپ پڑھ جائے گا۔

اسی سرمایہ دار نے ہمیں پہلے یہ سکھایا کہ ہندوستان کی خاطر لڑنا تاج برطانیہ سے وفاداری ہے، پھر 72 سال پہلے سے یہ راگ الاپا کہ پاکستان سے وفاداری دراصل اسلام سے وفاداری ہے۔ اور بھارتیوں کو بتایا کہ اکھنڈ بھارت ان کی میراث ہے اور مسلمان درانداز۔۔ اور پھر 50 سال سے سرمایہ دار نے دنیا کو بشمول پاکستان اور انڈیا کے، یہ باور کرانا شروع کر دیا کہ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج ہے جس کے مفادات مشترکہ ہیں۔ اور یہ مشترکہ مفاد صرف سرمایہ کاری اور منافع خوری ہے۔ یعنی اپنے مفاد کے لئے ایک میز پر مسلمان، ہندو، یہودی، عیسائی سرمایہ دار بیٹھ کر کوکاکولا کی پلاننگ کر تے ہیں کہ کس طرح اپنے علاقوں میں اپنی پراڈکٹ کی مانگ بڑھائی جائے۔

شام کو یہ چاروں سرمایہ دار ایک ہی کلب میں ڈنر کرتے ہیں۔ ایک ہوٹل میں رہتے ہیں اور پھر یہ فیصلہ کر کے اٹھتے ہیں کہ اپنے اپنے ملک میں مذہبی تفرقہ پھیلا کر اسلحہ کیسے بیچا جائے یا کوکاکولا کا ایک رنگین اشتہار بنا کر کس طرح سے بھارت میں ہندو نیشنل ازم، پاکستان میں پاکستانیت، عرب میں عربیت، اور چین میں قدیم چین کی عصبیت کو فروغ دے کر بوتل بیچی جائے۔ پیسہ اب ان کا وہ خدا بن چکا ہے جس کی پرستش سب مذاہب اور ان کے ماننے والے ناچاہتے ہوئے بھی کر رہے ہیں۔ ہندو، سکھ عیسائی، مسلمان یا یہودی کسی بات پر باہم اتفاق بھلے نہ کرتے ہوں مگر منافع اور روپیہ کی تقسیم اور سرمایہ کاری میں باہمی مثالی تعاون قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اور مثالی ایمانداری سے مل کر کاروبار کر رہے ہیں۔۔

ان حالات میں اسرائیلی سرحدی لکیروں کو چاہے ہم سو سال مزید نہ مانیں۔ مگر اسرائیلی سامان سے ہر گھر لطف اندوز ہو رہا ہے۔ وہ کمپنی جو پاکستان میں جائےنماز بناتی ہوں یا مسجدوں کی تزئین و آرائش کا سامان بناتی ہو شائد اس کا بیس فیصد شئیر کسی یہودی، 30 فیصد کسی عیسائی اور 50 فیصد کسی عربی شیخ کے پاس ہو۔۔ پیپسی ہو یا کوک، ٹویوٹا ہو یا بوئنگ، سام سنگ ہو یا سونی، نیسلے منرل واٹر ہو یا دودھ، صابن ہو یا شمپو۔ بچوں کے کپڑے ہوں یا دودھ، سب ہی میں سب حصہ ڈالے ہوئے ہیں اور اپنا اپنا شئیر لے رہے ہیں۔

آج سے کئے سال قبل جب دبئی جانے کا اتفاق ہوا تھا تب وہاں کی مارکیٹ یا رئیل اسٹیٹ میں 70 فیصد شئیر یہودیوں کا تھا۔۔ ان حالات میں اگر امارات کو اپنی اکانومی بچانی ہے تو بڑے اسٹیک ہولڈر یعنی یہودی سے بلاواسطہ الحاق کرنا ضروری ہو گا۔ ہم مسلمان 4 سو سال تک پرنٹنگ پریس کو نہی مانے آخر استعمال کرنا پڑا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم دنیا سے 4 سو سال پیچھے رہ گئے۔۔ ہم نے اسپیکر کے استعمال پر فتوے دیئے اس کے استعمال کرنے والے کا نکاح فاسد کیا۔۔ اور آج اسے اتارنے والے کو کافر کہہ رہے ہیں۔ قانون قدرت بہت سخت ہے۔ ہم گزشتہ 40 سالوں سے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تجارت کر رہے ہیں جس کا سارا فائدہ وہ ملک یا اسٹیک ہولڈر اٹھا رہا ہے جو درمیان میں تیسری پارٹی کی شکل میں موجود ہے۔ کیوں نہ ہم دنیا کہ سب سے بڑے سرمایہ کار کو ڈائریکٹ اپنے ساتھ معاہدوں میں شامل کریں۔۔ یقین کریں ایک کروڑ یہودی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔ البتہ ان کی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ہمارے گھر تک پہنچ چکی ہے۔۔ اگر بائیکاٹ کرنا ہے اور اسرائیل کو نقصان پہنچانا ہے تو اس کی سرمایہ کاری کو اپنے ملک سے نکال کر دکھائیں۔ یہ نہ آپ کر سکتے ہیں اور نہ میں۔ اور نہ ہی ہمارے حکمران کیونکہ یا تو وہ بک چکے ہیں یا اسرائیلی کمپنی کے شئیر ہولڈر ہیں۔ اب ملکوں خطوں کی تقسیم اور طاقت کامعیار دولت کی تقسیم ہے ناکہ عسکری اور سیاسی اعداد کی زیادتی۔۔

آب دوز ہو جہاز ہو ٹینک ہو یا ایٹمی پرزہ جات۔ سب اس حمام میں ننگے ہیں اور اسی ننگے پن کے معاہدے کر رہے ہیں۔ ایمازون، علی بابا، دراز ڈاٹ کام، گوگل، مائیکرو سافٹ، یا فیس بک ان سب میں چاروں مذاہب کے سرمایہ کار رات کو ساتھ بیٹھ کر شراب شباب اور بار بی کیو کے مزے لیتے ہیں اور دن کو یہی مسلمان تاجر کسی غریب ملک میں مسجد بناتا ہے حالانکہ اسے اگر مسلمان کا درد ہو تو یونیورسٹی یا رصدگاہ بنائے۔ عیسائی کسی یونیورسٹی کی بنیاد رکھتا ہے اور یہودی کسی سینیگال میں خرچ کرتا ہے، کیونکہ معصوم یہودی مسلمان ہی کی طرح دوبارہ عروج کا یقین رکھتا ہے۔۔ کیونکہ ایمازون، مائیکرو سافٹ، علی بابا، سام سنگ یا ٹویوٹا کمپنیاں کسی ملک کا نام نہیں مگر ان کی معاشی سرحدیں کئی ملکوں پر محیط ہیں۔۔ اور ان کے سالانہ بجٹ اور آمدن کئی ممالک کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہیں، صرف فیس بک کے دنیا بھر میں دو ارب سے زیادہ صارف ہیں جن کا ڈیٹا کئی ممالک میں مرضی کی حکومتیں بنانے کے لئے بیچا اور خریدا جاتا ہے۔۔۔ اسی وجہ سے یہ ان ممالک میں ان کی سالمیت کی پرواہ کئے بغیر اپنے مفادات کا سودا کرتے ہیں۔۔ اب شائد یہی تجارت ہے۔۔

وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْۚ-لَا تَعْلَمُوْنَهُمْۚ-اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۔ (انفال)

ترجمہ: اور (مسلمانو!) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں، ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو، جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے (موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں ابھی تم نہیں جانتے، (مگر) اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور اللہ کے راستے میں تم جو کچھ خرچ کرو گے، وہ تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا، اور تمہارے لیے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے

لڑا دے ممولے کو شہباز سے

زمانے کے انداز بدلے گئے

نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے

خِرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پِیروں کا استاد کر

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal