Kush Qismat Tareen Bacha (2)
خوش قسمت ترین بچہ (2)
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسامہؓ مجھ کو سب لوگوں میں محبوب تر ہے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ اس کا باپ مجھ کو سب سے زیادہ محبوب تھا، اب یہ سب سے عزیز ہے۔ ایک مرتبہ اسامہؓ چو کھٹ پر گرپڑے اورپیشانی پر زخم آگیا، آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ اس کا خون صاف کردو، آپ کو کراہت معلوم ہوئی تو خود اُٹھ کر صاف کرکے لعاب دہن لگایا۔ کبھی کبھی وفور محبت میں مزاح بھی فرماتے تھے، ایک مرتبہ اسامہؓ کا شانہ نبویﷺ میں بیٹھے تھے، حضرت عائشہ بھی تشریف فرما تھیں، آپ اسامہؓ کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ اگر یہ بیٹی ہوتی تو میں ان کو خوب زیور پہناتا اور بناؤ سنگار کرتا، تاکہ ان کا چرچا ہوتا اور ہر جگہ سے پیام آتے۔
بارگاہِ نبوت میں اسامہؓ کے رسوخ کا اس سے اندازہ ہوگا کہ جب کوئی ایسی سفارش آنحضرت ﷺ سے کرنی ہوتی جس میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ جھکتیں تو وہ اسامہؓ کے سپرد کی جاتی، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی لوگوں نے کہا اس کے بارے میں کون شخص آنحضرت ﷺ سے سفارش پر آمادہ ہوتا ہے، اسامہؓ کے علاوہ کسی کی ہمت نہ پڑی، انہوں نے جاکر آپ سے گفتگو کی، لیکن حدود اللہ کا معاملہ تھا، اس لیے آنحضرت ﷺ نے نہ سنی، بلکہ آپ کو ناگوار ہوا اور فرمایا اگر بنی اسرائیل میں کوئی شریف آدمی چوری کرتا تھاتو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور اگر معمولی آدمی اس کا مرتکب ہوتا تھا تو اس کے ہاتھ کاٹتے تھے، خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا۔ اسامہؓ آنحضرت ﷺ کے محرم راز اور معتمد علیہ تھے اور ان کی حیثیت اہل بیت میں ممبر خاندان کی تھی۔
حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں ہمیشہ ان کا خیال رکھا، چنانچہ جب آپ نے تمام صحابہؓ کے وظائف مقرر کیے تو اپنے صاحبزادہ عبداللہ کا ڈھائی ہزار اور اسامہؓ کا تین ہزار مقرر کیا، عبداللہ نے عرض کیا اس تفریق کا کیا سبب ہے، جب کہ میں تمام غزوات میں اسامہؓ کے دوش بدوش رہا اورآپ ان کے والد زید سے کبھی پیچھے نہ رہے، فرمایہ یہ سچ ہے، لیکن آنحضرت ﷺ ان کو تم سے اوران کے والد کو تمہارے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
جس طرح نبی کریمﷺ کو حضرت علی کی صلاحیتوں پر کوئی شک و شبہ نہیں تھا کہ ان کی تربیت آغوش رسول میں ہوئی تھی اسی طرح ابھی حضرت اسامہ کی عمر 18 یا 20 سال تھی اور یہ نبی کریمﷺکے ظاہری حیات کے آخری چند روز تھے۔ چنانچہ صفر 11ھ میں آنحضرت ﷺ نے ایک سریہ کی تیاری کا حکم دیا اور اسامہؓ بن زید کو بلا کر اس کے متعلق ضروری ہدایات فرمائیں، یہ سریہ دراصل جنگ موتہ میں شہید ہونے والے اکابر صحابہ حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر طیارؓ اورحضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے انتقام کے لئے تیار کیا گیا۔
لیکن ابھی یہ سریہ روانہ نہ ہوا تھا کہ آنحضرت ﷺ کو بیماری کی علامات شروع ہوگئیں، مگر آپ پر حضرت زیدؓ اور جعفر طیارؓ کی شہادت کا اتنا اثر تھا، کہ اس کی روانگی ملتوی نہ فرمائی اور اسی بیماری کی حالت میں اپنے دست مبارک سے علم مرحمت فرمایا اور سریہ روانہ ہوگیا، پہلی منزل مقام جرف میں کی، اس سریہ میں حضرت عمرؓ، ابوعبیدہ بن جراح، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید اور قتادہ بن نعمان رضوان اللہ علیہم جیسے کبار صحابہ سب اسامہؓ کی ماتحتی میں تھے، بعض لوگوں کو یہ ناگوار ہوا اور انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لڑکے کو مہاجرین اولین پر امیر بنایا ہے، آپ کو اس کی خبر ہوئی تو اس سے بہت تکلیف پہنچی اور اسی بیماری کی حالت میں سر میں پٹی باندھے ہوئے نکلے اور منبر پر چڑھ کر ایک مختصر تقریر فرمائی کہ اسامہ بن زید کو امیر بنانے میں بعض لوگوں نے جونکتہ چینیاں کی ہیں، اس کی اطلاع مجھ کو ملی، اسامہ بن زید کی امارت پر یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔
تم لوگ اس سے پہلے اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کرچکے ہو، خدا کی قسم وہ افسری کا سزاوار تھا اور اس کے بعد اس کا لڑکا افسری کا سزاوار ہے، وہ مجھ کو بہت محبوب تھا، اوریہ بھی ہر حسن ظن کے لائق ہے اس لیے تم لوگ اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آیا کرو کہ وہ تمہارے بہتر لوگوں میں ہے، اس تقریر کے بعد آپ کا شانہ اقدس میں تشریف لے گئے۔ چونکہ آنحضرت ﷺ آخری وقت تک برابر اسامہؓ کو روانگی کی تاکید فرماتے رہے تھے، اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے مسندِ خلافت پر قدم رکھتے ہی اسامہؓ کو روانگی کا حکم دیا، کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق کو حصرت اسماہ کی کم عمری سے زیادہ آقا کریمﷺ کی پرورش اور تربیت پر یقین تھا اور حضرت ابو بکر صدیق یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ نبی کریمﷺکے نظر انتخاب رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں ہوتا تھا بلکہ صلاحیتوں اور قرب الہیہ میں قربت اعلی پر ہوتا تھا۔
لہذا جب حضرت ابوبکرؓ نے اسامہؓ کو روانگی کا حکم دیا تو انصار کی جماعت نے آپ کے پاس حضرت عمرؓ کو بھیجا کہ اسامہؓ کے بجائے کسی سن اور معمر شخص کو امارت کا عہدہ دیا جائے، یہ پیام سن کرآپ بہت برہم ہوئے اورفرمایا، ابن خطاب! جس شخص کو رسول اللہ ﷺ نے امیر بنایا ہے تم مجھ سے اس کے معزول کرنے کی خواہش کرتے ہو! اور بلاکسی قسم کی تبدیلی کے بعینہ وہی فوج روانہ کی اور تھوڑی دور خود پیادہ پارخصت کرنے کے لیے گئے، اسامہؓ نے عرض کیا یا خلیفہ رسول اللہ! آپ سوار ہو کر چلیں، ورنہ ہم لوگ سواریوں سے اتر پڑیں گے، فرمایا نہ مجھ کو سوار ہونے کی ضرورت ہے، نہ تم کو اترنے کی، میرے پیروں کو اللہ کی راہ میں غبار آلود ہونے دو، صرف سرگوشی میں التجاء کے طور پر حضرت اسامہ سے ارشاد فرمایا کہ امور خلافت میں اگر وہ چاہیں تو حضرت عمر کو ان کے پاس رہنے دیں۔ جس کو حضرت اسامہ نے سر تسلیم خم کرکے منظور کیا۔ غرض حضرت ابوبکرؓ نے اس شان سے جیش اسامہؓ کو رخصت کیا، اور اسامہؓ نے منزل مقصود پر پہنچ کر دشمنوں سے نہایت کامیاب مقابلہ کیا اور اپنےوالد بزرگوار کے قاتل کو واصل جہنم کیا اور حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں فتح کا مژدہ بھیجا۔
حضرت اسامہ نے حضرت امیر معاویہؓ کے آخر زمانہ امارت 54ھ میں مدینہ میں وفات پائی، اس وقت ساٹھ سال کی عمر تھی۔