Kush Qismat Tareen Bacha (1)
خوش قسمت ترین بچہ (1)
(لوگو) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد (ﷺ) نہیں، لیکن اللہ تعالٰی کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں، اور اللہ تعالٰی ہرچیز کو (خوب) جانتا ہےـ (الاحزاب 40)
اس آیت مبارکہ کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریمﷺ کسی مرد کے باپ نہیں، تو صلبی دادا ہونا ناممکن ہے۔ نبی کریم ﷺ کو اپنے متعلقین میں حضرت حسنینؓ سے زیادہ کسی سے محبت نہ تھی، لیکن یہ خوش قسمت وہ بچہ ہے، جو اس محبت میں بھی شریک و سہیم تھے، آقا ﷺ ایک زانو پر انہیں بٹھاتے اور ایک پر امام حسنؓ کو اور دونوں کو ملاکر فرماتے کہ خدایا میں ان دونوں پر رحم کرتا ہوں اس لیے تو بھی رحم فرما دوسری روایت میں ہے کہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں اس لیے تو بھی محبت فرما۔
اس بچے کا تعارف کرانے سے قبل ان کے والدین کا تعارف اس لئے ضروری ہے کہ ان کے والدین کو اللہ کریم نے نبی کریمﷺ کو عطا کی گئی شریعت کے کچھ اہم ستون بنانے میں استعمال فرمایا۔۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ سب وحی غیر متلو کا ہی حصہ تھے۔ اس جلیل القدر بچے کی والدہ کا نام ام ایمن ہے۔ آپ کا نام "برکۃ"ہے۔ آپ حضور اقدس ﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہؓ کی باندی تھیں۔ جو حضور اکرم ﷺ کو آپ کے والد ماجد کی میراث میں سے ملی تھیں۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کی بچپن میں بہت زیادہ خدمت کی ہے۔ یہی آپ کو کھانا کھلایا کرتی تھیں، کپڑے پہنایا کرتی تھیں، کپڑے دھویا کرتی تھیں۔۔ یہی ام ایمن ہیں جنہوں نے حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے وقت نبی کریمﷺکے آنسوں سے بھرے چہرے کو پیار کیا انہیں گلے سے لگایا اور ان کی والدہ ماجدہ کی تن تنہا تدفین فرمائی اور نوجوان ام ایمن ننھے 5 سالہ آقاﷺ کو گود میں اٹھا کر تن تنہا مکہ آئیں اور پھر آقاﷺ کو کبھی بھی خود سے جدا نہیں کیا۔
اس مبارک بچے جسے آقا کریمﷺ نے دادا بن کر پالا ان کے والد وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں، جن کا ذکر نام کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے اور جہالت کے دو خود ساختہ اصولوں کو توڑنے میں اللہ کریم نے انہیں استعمال فرمایا یعنی منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح۔
ترجمہ: حالانکہ اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ تو اس سے ڈرے، پھر جب زید اس سے حاجت پوری کر چکا تو ہم نے تجھ سے اس کا نکاح کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو جب کہ وہ ان سے حاجت پوری کرلیں، اور اللہ کا حکم ہوکر رہنے والا ہے۔ (سورہ الاحزاب 37)
ہم سب جانتے ہیں کہ نبی کریمﷺ حضرت زید بن حارثہ کو الاعلان عرب معاشرے کی روایات کے مطابق اپنا بیٹا بنا چکے تھے۔ آپ کو بچپن میں اغوا کرکے غلام بنا لیا گیا تھا۔ کئی ہاتھوں سے بکتے ہوئے آپ کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بھتیجے حکیم بن حزام نے خرید لیا اور اپنی پھوپھی حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی نذر کر دیا حضرت خدیجہ نے اس غلام کو حضور ﷺ کی نذر کر دیا یہ درحقیقت ایک آزاد عیسائی خاندان کے لڑکے تھے۔ آپ کے والد حارث اور چچا کعبہ آپ کو لینے مکہ آئے تو زید نے اپنے والدین کی بجائے حضور ﷺ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ یہ دیکھ کر آپ کے والد خفا ہوئے اور کہا کہ تم آزادی کی زندگی کو غلامی پر ترجیع دیتے ہو زید نے کہا کہ میں نے آقا ﷺ میں وہ بات دیکھی کہ ان کے لیے میں باپ تو کیا کائنات چھوڑ سکتا ہوں۔ یہ سن کر آقا کریمﷺ کی رحمت مبارکہ جوش میں آگئی اور بہت خوش ہوئے اور حضور ﷺ زید کو لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور اعلان فرما دیا کہ لوگوں سن لو میں زید کو آج سے آزاد کرکے اپنا منہ بولا بیٹا بناتا ہوں۔ اس کے بعد زید بن حارث کی بجائے زید بن محمد ﷺ کہا جانے لگا۔
اور آپ کریمﷺکی محبت اور شفقت حضرت زید سے اس قدر زیادہ تھی کہ حضرت زید نے صحابۂ کرام میں حِبُّ النَّبِی یعنی "نبی کے محبوب" کا لقب پایا۔
حضرت ام ایمنؓ آنحضرت ﷺ کی آیا اور کنیز تھیں، آپ ﷺ ان کو نہایت محبوب رکھتے تھے، اور اماں کہہ کر مخاطب فرماتے تھے، ایک روز آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص وفوریاس (بڑی عمر) کسی جنتی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کو ام ایمنؓ سے نکاح کرنا چاہیے، حضرت زیدؓ نے جو رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، ان سے نکاح کر لیا۔
یہ ایک اور تاریخ کا عجیب واقعہ ہے کہ آقاﷺنے اپنی منہ بولی ماں کا رشتہ خود اپنے منہ بولے بیٹے سے فرمایا اور اس وقت تک ام ایمن سن یاس (یعنی کافی بوڑھی) ہو چکی تھیں اور حضرت زید نوجوان لیکن نبی کی محبت میں انہوں نے یہ شادی کر لی اور اس شادی کے نتیجے میں وہ خوش قسمت ترین بچہ اس کائنات میں پیدا ہوا جو بغیر کسی شک کے یہ کہہ سکتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی گود اس کے لئے دادا کی گود تھی۔
آپ کی کنیت ابو محمد اور لقب الحب بن الحب (محبوب بن محبوب) تھا۔ ہجرت سے سات سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے اور آپ کا نام مبارک اسامہ بن زید ہے۔
جس طرح آقاﷺنے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پرورش پیدائش سے جوانی تک بالکل ایک بیٹے کی طرح فرمائی لیکن یہ بات تاریخ دانوں سے ہمیشہ پوشیدہ رہی کہ آقاﷺنے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بالکل ایک باپ کی طرح پالا، انہیں نہلاتے، شیر خوارگی میں انہیں کجھور اپنے منہ مبارک میں نرم کرکے کھلاتے اور انہیں اپنے سینے پر لیٹا کر سلا دیتے۔۔ اسی طرح آپ کریمﷺ نے حضرت اسامہ بن زید کی پرورش فرمائی کیونکہ آقا کریم کی دو محبوب ترین ہستیوں کی حضرت اسامہ اولاد تھے، اسامہ بن زیدؓ کی بارگاہ نبوت میں پذیرائی اور ان کی محبوبیت ان کا مخصوص طرائے امتیاز تھا، جو بلا استثنا کسی صحابی کو حاصل نہ تھا۔ آنحضرت ﷺ نے بارہا اپنی زبان مبارک سے اس کا اظہار فرمایا ہے، اور اسامہؓ کے ساتھ آپ کا طرز عمل بھی اس کا شاہد ہے۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ یہاں حضرت اسامہ کا موازنہ اہل بیت، حضرت علی یا حسنین کریمین سے کیا جا رہا ہے۔۔ بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ نبی کریمﷺکے لئے ام ایمن، حضرت زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید بھی اہل بیت کی طرح تھے اور اس کا اظہار آپ کریمﷺ نے کئی مقامات پر فرمایا۔